آبی قلت ۔۔۔ ایک قومی اور سیاسی بحران

پاکستان ایتھوپیا سے بھی زیادہ آبی قلت کا شکار ہو چکا ہے ۔ اگلے سا ت برسوں میں پاکستان کو پانی کی قلت کا اُس سے کہیں زیادہ سامنا کرناپڑے گاجتنا بجلی کا ۔ پانی کی سپلائی کی معطلی بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے کہیں زیادہ بڑھ جائے گی۔ اور اس کا دورانیہ کئی گھنٹوں پر محیط ہوگا۔یہ صورت ِحال سماجی اور معاشی طور پر کسی خطرناک ٹائم بم سے کم نہیں۔ آبی قلت اور آبی آلودگی کو وسیع پیمانے پرتباہی پھیلانے والا ہتھیار کہنا غلط نہ ہوگا۔ پاکستان کو یہ ہتھیار منظم طریقے سے تباہ کررہا ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس ہتھیار کو ہمارے دشمنوں نے نصب نہیں کیا، یہ ہماری کوتاہ بینی اور حکومت کی ناکام پالیسیوں کا شاخسانہ ہے۔ آسٹریلیا، جو قدرتی اور جغرافیائی طور پر پانی کی کمی کا شکار ہے ، کے برعکس پاکستان میں وافر مقدار میں پانی موجود تھا۔ 1947 ء میں اپنے وجود میں آنے کے ساتھ ہی پاکستان کو آبی وسائل سے مالا مال ملک قرار دیا گیاتھا۔ یہاں فی کس پانی کی دستیابی 5000 کیوبک میٹر تھی۔ اب یہ دستیابی کم ہو کرمحض 1000کیوبک میٹرفی کس رہ گئی ہے ۔ 
پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز (PCRWR) نے ایک خطرناک وارننگ جاری کی ، کہ اگر حکومت نے بروقت اقدامات نہ اٹھائے تو ملک 2025 ء تک آبی قحط کا شکار ہوجائے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمارے پاس محض سات سال ہیں اگر ہم اس انتہائی اہم قدرتی نعمت کووسیع پیمانے پر ضائع ہونے سے بچانے کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیںتو صرف سات سال باقی ہیں۔ پانی نہ صرف زندگی کے لیے اہم ہے بلکہ ملک میں روزگار کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے ۔ پاکستان زراعت پر مبنی معیشت رکھتا ہے ۔ اس کا 90 فیصد پانی فصلیں اُگانے او ر کاشت کاری کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ پاکستان کے جی ڈی پی کا براہ ِراست یا بالواسطہ دارومدار کاشت کاری کے لیے پانی کی دستیابی اورپینے کے پانی کی کوالٹی پر ہے ۔ اس طرح پانی پیداواری اور برآمدی حجم کو متاثر کرتا ہے ۔ 
چنانچہ آبی قلت صنعتی اور معاشی طور پر تباہی کا پیش خیمہ ہے ۔ پاکستان کا 90 فیصدپانی زراعت میں استعمال ہوتا ہے ، اور ملک کی 60 فیصد آبادی براہ راست زراعت اور لائیواسٹاک کے پیشے سے وابستہ ہے۔ ہماری 80 فیصد برآمدات ٹیکسٹائل کی مصنوعات ہیں ، اور ٹیکسٹائل کی صنعت کا دارومدار زراعت پر ہے ۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ پاکستان میں گزشتہ پانچ برسوں کے دوران کم ترین زرعی پیداوار رہی، جبکہ برآمدات میں ہوشربا کمی دیکھنے میں آئی ۔ 2017-18 ء کے لیے برآمدات کا ہدف انتیس بلین ڈالر طے کیا گیا تھالیکن ہم صرف بیس بلین ڈالر کی برآمدات ہی کرسکے ۔ 
پاکستان میں پانی کی قلت اور آلودگی کو دیکھتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ طویل المدت حکمت ِعملی میں آبی ذخائر اور پانی کو محفوظ کرنے کے منصوبے ، درمیانی مدت کی حکمت ِعملی میں پانی پر کیے گئے معاہدوں پر نظر ِثانی ، اور ا س کے مطابق پانی کی مساوی اور مسلسل فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے آبی ذخائر کی تعمیر، اور مختصر مدت کی حکمت ِعملی میں واٹر ٹریٹمنٹ اور پانی کے صارفین کو پانی کے گھریلواور صنعتی استعمال پر کفایت شعاری جدید طور طریقے اپنانے کی تعلیم دینا شامل ہے ۔ گلوبل وارمنگ کے تباہ کن اثرات کی وجہ سے ہمارے گلیشیرز غیر معمولی تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں سے انتہائی متاثر ہونے والے دس ممالک میں پاکستان ساتویں نمبر پر ہے ۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران اس کی 43 جھیلوں میں سے 26 کی سطح خطرناک حد تک کم ہوگئی ہے ۔ 
جنگلات کی بے تحاشا کٹائی ماحولیاتی عدم توازن کا باعث بنی ، جس کی وجہ سے گرمی کی شدت، سیلابوں اور زلزلوں میں اضافہ ہوچکا ہے ۔ اس حوالے سے خاص طور پر خیبرپختونخوا کی حکومت نے کچھ قابل ِ ذکر اقدامات اٹھائے ہیں، جیسا کہ ایک ارب درخت لگانے کی مہم، جس کی کامیابی کی تصدیق ڈبلیو ڈبلیو ایف نے کی اور جسے Bonn Challenge نے تسلیم کیا۔ اس کے بعد وفاقی حکومت نے بھی گرین پروگرام شروع کیا۔ تاہم ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ۔ 
پانی ذخیر ہ کرنے اور محفوظ کرنے کی صلاحیت کے فقدان کی وجہ سے پاکستان ہر سال بائیس بلین ڈالر مالیت کا پانی سمندر میں پھینک کر ضائع کردیتا ہے ۔ کالا باغ ڈیم کے تنازع نے نہ صرف اس کی تعمیر ناممکن بنا دی بلکہ ڈیموں کی تعمیر پر سیاسی مکالمے کا راستہ بھی ہمیشہ کے لیے بند کردیا۔ ہمارے ہاں فصلوں کی پیداوار بھی کسی منصوبہ بندی اور جدت طرازی کے بغیر ہے ۔ چونکہ 90 فیصد پانی زراعت پر صرف ہوتا ہے ، اس لیے فصلوں کی پیداوار ایک سنجیدہ معاملہ ہے ۔ گنے کی فصل کو بہت زیادہ پانی چاہیے ۔ لیکن شوگر ملز کی تعداد کو محدودکرنا بھی ناممکن ہے کیونکہ تمام اہم سیاسی جماعتوںکی قیادت کئی ایک شوگر ملوں کی مالک ہے ، اور وہ اس سے اربوں روپے کمارہے ہیں۔ مزید برآں، کسان کو مختلف فصلوںکے لیے پانی کے مخصوص استعمال اور اس کی بچت کی تعلیم بھی دی جاسکتی ہے ۔گندم پر کیے گئے مطالعے ظاہر کرتے ہیںکہ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ خشک سالی کے دوران اس کی پیداوار بڑھ گئی۔ اس کا مطلب ہے کہ گندم کی فصل کے موسم میں پانی کی بچت کی جاسکتی ہے ۔ 
پانی کی کمی نہ صرف داخلی جنگوں اور جرائم کی اساس ہوگی بلکہ عالمی جنگوں کا بھی باعث بنے گی۔ سندھ طاس معاہدہ تاریخی طو ر پر متنازع رہا ہے ۔ اگرچہ اس کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان ہمالیہ کے پہاڑوں سے نکلنے والے دریائوں کی تقسیم عمل میں آئی لیکن حالیہ برسوں کے دوران بھارت کی نئی حکومت نے اس پر فساد کھڑا کردیا۔وزیر ِاعظم نریندر مودی نے گزشتہ سال نعرہ لگایا۔۔۔'' انڈیا کے حصے کے پانی کو پاکستان میں جانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔‘‘مشیر برائے امورِ خارجہ، سرتاج عزیز نے اس پر جواب دیا کہ سندھ طاس کے معاہدے کی خلاف ورزی کو ''اعلان جنگ ‘‘ تصور کیا جائے گا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ محض سیاسی بیان بازی ہو لیکن اگر سرحد کے دونوں طرف پانی کی کمی واقع ہوتی رہی تو اس کے نتیجے میں جنگ کے شعلے بھی بھڑک سکتے ہیں۔بالائی بہائو پر واقع بھارت اور زیریں بہائو پر واقع پاکستان کے درمیان یہ مسلۂ ہمیشہ سے ہی موجود ہے ۔ ملک میں زراعت کی وجہ سے ہونے والے 80 فیصد جرائم کا تعلق پانی کی تقسیم سے ہے ۔ اس کی وجہ ہمارا آبپاشی کا قدیم نظام ہے ، جس میں دیہی علاقوں میں جاگیر دار طاقت کے ذریعے زیادہ آبی وسائل حاصل کرلیتا ہے ۔ چنانچہ چھوٹا کسان آبی قلت کا شکار ہوجاتا ہے ۔ 
شہروں میں بڑا مسئلہ آبی آلودگی ہے ۔ بڑے شہروں، جیسا کہ لاہور، اسلام آباداور کراچی میں پینے کے پانی میں آرسینک کی موجودگی پائی گئی ہے ۔ اس پانی کا استعمال مضر ِ صحت ہے ۔ سیوریج پائپ اور صاف پانی کے پائپ آپس میں متصل ہیں۔ پاکستان میں ہیپاٹائٹس سی کے مریضوں کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے ۔ گیسٹرواور جلدی بیماریوں کی شرح بھی بہت زیادہ ہے ۔ بجلی اور گیس کی کمی کے بعد مستقبل میں پانی کی کمی پر بھی فسادات ہوسکتے ہیں ۔اب جبکہ 2018ء کے انتخابات قریب ہیں، ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے منشور میں پانی سے متعلق معروضات کو ترجیحی جگہ دیں ۔ اُن کے پاس واٹر پالیسی ہونی چاہیے کہ پانی کی قلت سے کس طرح نمٹیں گے۔ جہاں تک اس پیش گوئی کا تعلق ہے کہ سات سال بعد پاکستان آبی قحط سے دوچار ہونے والا ہے ، اور اگر پانی کو ذخیر ہ کرنے ، محفوظ بنانے اور اس کے معیار اور تقسیم کی بہتری کو اپنے سیاسی ایجنڈے کا حصہ نہ بنایا تو آبی قلت کی وجہ سے 2018 ء میں منتخب ہونے والی حکومت کوپانچ سال گزارنا مشکل ہو جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں