موسم ِ گرما میں تبدیلی کی لہر

بہار ِعرب کے بعد کیا موسم ِ گرما کے وسط میں بھی تبدیلی کی ہوائیں چل پڑی ہیں؟ سیاسی دنیاکچھ غیرمعمولی واقعات رونما ہوتے دیکھ رہی ہے ۔بانوے سالہ مہاتیر کی واپسی ہوئی اور وہ انتخابات جیت گئے۔ حال ہی میں میکسیکو میں جو کچھ ہوا ‘وہ گزشتہ سات عشروں سے دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ بہار ِ عرب بنیادی طور پر مشرق ِوسطیٰ میں ابھری تھی‘ لیکن موسمِ گرما کے وسط میں مرتعش ہونے والی خبریں کہیں زیادہ تنوع رکھتی ہیں۔ لاطینی امریکا کے حالیہ واقعات دلچسپی سے خالی نہیں۔ دنیا میں فٹ بال کے عظیم کھلاڑی ‘ اور منشیات کی سمگلنگ کے کچھ بڑے نام ‘ پیدا کرنے والے اس خطے میں اچانک عوام نے اپنے رہنمائوں کی بدعنوانی اور کارکردگی پر سوالات اٹھانا شروع کردئیے ہیں۔ اب وہاں سے بھی تبدیلی کی آوازیں آرہی ہیں۔ 
جنوبی امریکا‘ شمالی امریکا سے بہت مختلف ہے ۔ اگر امریکا ترقی اور جمہوریت کی شاندار کہانی سناتا ہے تو جنوبی امریکا عدم استحکام اور بدعنوانی سے عبارت ہے ۔ پاناما نہر اورجنوب میں انڈیز(Andes) پہاڑ ایسے جغرافیائی خدوخال وضع کرتے ہیں کہ یہاں باشندوں کارہن سہن جدید دنیاکی بجائے تیسری دنیا سے مماثلت رکھتا ہے ۔ ان دونوں حصوں میں معیار زندگی‘ ترقی اور استحکا م میں فرق کی ایک وجہ ان کی قیادت میں فرق ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ میکسیکو میں ہونے والی تازہ ترین پیش رفت اُس تبدیلی کی مثال ہے‘ جس کی بہت دیر سے ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔ 
اپوزیشن رہنما لوپزاوبرا ڈور(López Obrador) نے میکسیکو میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں پچاس فیصد سے زائد ووٹ لیتے ہوتے ہوئے نمایاں کامیابی حاصل کی۔ اُن کی پارٹی ‘ مورینہ نے ریاستی انتخابات میں بہت مضبوط پوزیشن حاصل کرلی ہے ۔ حکمران جماعت انسٹی ٹیوشنل ریولیشنری پارٹی حیران کن شکست سے دوچار ہوئی۔ اس جماعت نے میکسیکو پر 70 سال تک حکومت کی تھی ‘ لیکن اب صدارتی ووٹ اور حکومت سازی کی دوڑ میں تیسرے نمبر پر رہی ۔ لوپز اوبراڈور بدعنوانی اور دولت کی غیرمساوی تقسیم پر ووٹر کے اشتعال کی لہر اپنے حق میں کرنے میں کامیاب رہے ۔ ان مسائل کی وجہ حکمران جماعت کی مارکیٹ پالیسیاں تھیں‘جو عوام کی آمدن میں اضافہ کرنے سے قاصر رہیں۔ 
لاطینی امریکا بدعنوانی کے سکینڈلز سے لبریز ہے۔ اس حوالے سے برازیل کا نمبر سب سے اوپر ہے۔ وہاں کا ماڈل پاکستان سے مشابہت رکھتا ہے : دولت مند افراد کی حکومت‘ بڑی کمپنیاں‘ بڑے ٹھیکے اور بڑی رشوت۔مالیاتی اور ریاستی نظام کو کنٹرول کرنے والے ان نام نہاد جمہوری رہنمائوں نے انتخابات پر بھی اثر انداز ہونا شروع کردیا ہے ۔ برازیل کی عظیم تعمیراتی کمپنی Odebrecht کے حوالے سے سراٹھانے والے رشوت کے سکینڈل سے نام نہادجمہوریت پر عوام کے عدم اعتماد کا پتہ چلتا ہے۔ اس کمپنی نے تسلیم کیا کہ اس نے پرکشش تعمیراتی ٹھیکے حاصل کرنے کے لیے لاطینی امریکا کے سرکاری افسران کو کئی ملین ڈالر رشوت دی۔ جب استغاثہ نے اس کیس کو بے نقاب کیا تو اس کے صدر کو نہ صرف استعفیٰ دینا‘ بلکہ جیل میں بھی جانا پڑا۔ 
میکسیکو اور ونزویلامیں سے کسی بھی ملک نے Odebrecht سکینڈل میں ملوث کسی شخص کو سزا نہ دی؛ حالانکہ واضح ثبوت موجود تھے کہ میکسیکو کے صدر کے ایک قریبی معاون کو لاکھوں ڈالر رشوت دی گی تھی۔ کچھ عرصے سے برازیل بدعنوانی کے سکینڈلز کی خبروں کی زد میں ہے۔ اس کے صدر لوئس ڈی سلوا اور درجنوں دیگر افراد ملکی تاریخ کے سب سے بڑے بدعنوانی کے سکینڈل ''کار واش‘‘ کی پاداش میں جیل میں ہیں۔اُن کے جانشیںڈلما روئسف کو بھی کابینہ سے حقائق چھپانے اور بدعنوانی کے الزام میں تادیب کا سامنا ہے ۔ 
بدعنوانی پر اشتعال پھیلنے اور اسے مسترد کرنے کی لہر صرف مشرق یا لاطینی امریکا تک ہی محدود نہیں‘ بلکہ اس کا اظہار یورپی ممالک کی سیاست میں بھی نمایاں ہے ۔ سپین کے ایک جمہوری ملک بننے کے بعد سے پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ نہ ملنے پر ایک وزیراعظم کو عہدہ چھوڑنا پڑا۔ ماریانوریجوائے(Mariano Rajoy) کی معزولی جدید سپین میں اپنی طرز کا پہلا واقعہ تھی۔ جب پارلیمنٹ نے بدعنوانی کے ایک سکینڈل میں ملوث ہونے کی وجہ سے عدم اعتماد کا اظہار کیا‘ تو سپین میں بھی بدعنوانی کے خلاف ایک انقلابی لہر ابھرنے لگی۔ تبدیلی کی یہ لہر جنوبی کوریا سے لیکر جنوبی امریکا تک چل رہی ہے ۔ بہت سی اقوام اس کی زد میں ہیں۔ 
اس پس ِ منظر میں پاکستان میں ہونے والے انتخابات کی اہمیت بڑھ چکی ہے۔روایتی طور پریہاں بدعنوانی رائے دہندگان کا نمبر ون مسئلہ کبھی نہیں رہی تھی۔ ماضی کے بہت سے سرویزظاہر کرتے ہیں کہ عوامی مسائل میں بدعنوانی نمبر پانچ پرتھی۔ عوام کے نزدیک اہم ترین مسائل لوڈشیڈنگ‘ مہنگائی اور بے روزگاری تھے ۔ عام طور پر سیاسی جماعتیں ان مسائل کو اپنے انتخابی وعدوں میں شامل کرتیں‘ تاہم پاناما لیکس کے بعد یہاں بھی بدعنوانی سے متعلق آگاہی پیدا ہوئی ‘ اور یہ دیگر مسائل کو پیچھے چھوڑ کر نمبر ون حیثیت اختیار کرگیا۔ 
یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں اب سیاسی جماعتوں نے اپنے پیش کردہ منشور میں محض ترقیاتی منصوبوں کی بجائے عوام کی بات کرنا شروع کردی ہے ۔ پی پی پی کا منشور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا دائرہ پھیلانے اور بھوک اور غربت مٹانے کی بات کرتا ہے ۔ پی ایم ایل (ن) کامنشور سڑکوں کی تعمیر سے ہٹ کر اب پانی اور صحت کے منصوبوں کو اپنی ترجیح قرار دے رہا ہے ۔ پی ٹی آئی کا منشور پہلے کی طرح تعلیم اور صحت کو ترجیح دیتا ہے ۔ 
سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کو ایون فیلڈ پراپرٹی کیس میں غیر اعلانیہ دولت کی منی ٹریل نہ دینے کی پاداش میں ہونے والی سزا اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔ہمارے ہاںیہ ایک غیر تحریری روایت تھی کہ حکومتیں ہوتی ہی بدعنوان ہیں‘ اور اگر کوئی ترقیاتی منصوبے بنارہا ہے تو اس عمل میں کچھ رقم اپنی جیب میں بھی ڈال لے تو کوئی بات نہیں‘لیکن سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارمز سے سنائی دینے والی حالیہ تقریریں ماضی کے وعدوں سے مزین نہیں۔ان میں اب گورننس کو بہتر بنانے اور اداروں کو بدعنوانی سے پاک کرنے کا عزم جھلک رہا ہے ۔ شاید وہ جان چکے ہیں کہ سوشل میڈیا تک رسائی رکھنے والے چھالیس ملین نوجوان ووٹردنیا میں بدعنوانی کے خلاف چلنے والی تحریک سے آشنا ہیں‘ چنانچہ اُنہیں محض ترقیاتی منصوبوں کا لولی پاپ دے کر نہیں بہلایا جاسکتا۔ 
عام طور پرمنشور اور تقایر بہت عمدہ پیرائے میں لکھی ہوتی ہیں‘ لیکن انہیں عملی کارکردگی سے کوئی نسبت نہیں ہوتی ۔منشور اور وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک مختلف طرز ِحکومت کی ضرورت ہے ۔ اس کے لیے ایسی حکومت درکار ہے‘ جو اداروں میں اصلاحات لانے پر توجہ مرکوز کرے اور عوام کو سروسز کی فراہمی کو اوّلین ترجیح قرار دے۔ اس کا مطلب ہے کہ روایتی سیاسی تقرریوں اور مرکزی قیادت کے ہاتھ میں مینجمنٹ دینے سے اب کام نہیں چلے گا۔ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ ان تبدیلیوں کے لیے قوانین میں تبدیلیاں درکار ہوں گی۔ ان انتخابات میں بھی زیادہ تر وہی چہرے حصہ لے رہے ہیں ‘جو ماضی میں ہمارے سیاسی خدوخال کا حصہ رہے ہیں‘ چنانچہ ان حقیقی تبدیلیوں کی طرف پیش رفت کرنا حکومت سازی کرنے والی جماعت کے لیے ایک کٹھن چیلنج ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا ان انتخابات میں بدعنوان اور نااہل حکومتوں کے خلاف اشتعال کی لہر انتخابی نتائج میں ڈھل پاتی ہے یا نہیں؟ کیا بدعنوانی کے خلاف جذبات بہار ِ عرب کی طرح لمحاتی ہیں یاان سے دیرپا اور ٹھوس تبدیلیوں کی راہ ہموار ہوتی ہے ؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں