انڈیا کی چمکیلی تاریکی

گزشتہ دوعشروں کے دوران''شائننگ انڈیا ‘‘ اور ''ناقابل ِ یقین انڈیا ‘‘ (Incredible India )جیسی ٹیگز عالمی سٹیج پر بھارت کی تشہیری مہم پر چھائی رہیں۔ اب ان دوعشروں میں پہلی مرتبہ انڈیا کی چمک ماند پڑ رہی ہے ۔ نام نہاد اعتدال اور جدیدیت کی ملمع کاری کے نیچے چھپی تاریکی سامنے آرہی ہے ۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق ''فضائی جھڑپ میں پاکستان کے ہاتھوں ہزیمت نے بھارت کی ازکارِرفتہ جنگی مشین کے بارے میں سوالات کھڑے کردیے ہیں‘‘۔دی گارڈین لکھتا ہے ''انڈیا کی کٹر قوم پرستی کی وجہ سے کشمیر ایک خطرناک مقام بن چکا ہے ‘‘۔ اقوام ِ متحدہ کی رپورٹ انڈیا کو ''اقلیتوں کو نشانہ بنانے اور خوفزدہ کرنے کے بڑھتے ہوئے واقعات‘‘ سے خبردار کرتی ہے۔ 
یقینا انڈیا زبردست تبدیلی سے گزرا تھا ۔سابق بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کے دور میں اس نے محدود‘ اشتراکی معیشت کے تصورات سے نکل کر سرمایہ دارانہ معیشت کی کھلی فضا میں سانس لی تھی۔ مسٹر سنگھ نے 1990 ء کی دہائی سے ہی بطور فنانس منسٹر معاشی اصلاحات کا عمل شروع کردیا تھا‘ جو انہوں نے بطور ِوزیر اعظم جاری رکھا۔2015 ء تک انڈیا نے معاشی ترقی کی شرح میں چین کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ اس کے پاس سنانے کے لیے ایسی کہانی تھی‘ جو دنیا سننا چاہتی تھی ۔ یہ کہانی انڈیا کی زبردست مارکیٹنگ اور چکا چوند تشہیر سے ترویج پارہی تھی۔ 
دولت‘ مارکیٹ‘ میڈیا اور فوجی قوت پر تکیہ کرنے والی مادیت پرست دنیا کیلئے انڈیا ایک پرکشش لفظ بن گیا۔ رائزنگ انڈیا کے مقابلے میں پاکستان میں ضیاالحق کی بنیاد پرست باقیات اور لڑکھڑاتی ہوئی جمہوریت دکھائی دیتی تھی۔ 90 ء کی دہائی میں انڈیا نے اپنی معیشت اور انسانی وسائل کی ترقی میں سرمایہ کاری کی۔ یہ وہ دور تھا‘ جب پاکستان میں حکومتوں کے آنے جانے کی دوڑ لگی تھی۔ ہر جمہوری حکمران ملنے والے موقع سے فائدہ اٹھا کر جلدی جلدی جتنا مال سمیٹ سکتا‘ سمیٹ کر اپنی راہ لیتا‘ یہاں تک کہ ہم مشرف دور میں داخل ہوئے ۔ اس دوران انڈیا‘ نا صرف اپنی مارکیٹ اور معاشی بازو مضبوط کرچکا تھا‘بلکہ سفارت کاری کی شاطرانہ مہارت کے ذریعے پاکستان کی کمزوری کو عالمی بیانیے کا حصہ بنا چکا تھا۔ پاکستان کو ایک ایسے ملک کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کا گیا‘جس پر آمریت مسلط تھی اور جو کشمیر میں مداخلت کرنے اور انڈیا کے اندر حملے کرنے والے دہشت گردوں کی پناہ گاہ تھا ۔ 
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شمولیت کی وجہ سے پاکستان کے اندر تحریک ِ طالبان پاکستان نامی دہشت گرد تنظیم اور بہت سے دیگر انتہا پسند گروہوں نے سراٹھایا۔ انڈیا نے ان گروہوں اور دیگر قوتوں کی پشت پناہی کرتے ہوئے پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کی ۔ اُنہوںنے بہت مہارت سے بیانیہ تراشتے ہوئے پاکستان کو ایک ایسے ولن کے طور پرپیش کیا‘ جو انڈیا‘ افغانستان اور دنیا میں کہیں بھی ہونے والے حملے میں ملوث تھا۔ 2008 ء کے بعد سے جمہوری حکومتیں قائم ہونے کے باوجود پاکستان ان گروہوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے میں ناکام رہا۔ اس کی وجہ سیاسی قوت ِارادی کا فقدان تھا‘ لیکن؛ پھر 2015 ء میں آرمی پبلک سکول پشاور کے خونچکاں واقعے نے تمام منظر تبدیل کردیا۔ اس سانحے کے بعد قومی اور سیاسی قیادت نے مل کر بیس نکات پر مشتمل نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا۔ 
نیشنل ایکشن پلان کے فوجی حصے پر بہتر عمل ہوا ‘ لیکن دہشت گردی کے بیانیے اور ٹیررفنانسنگ کوروکنے کے لیے کچھ نہ کیا گیا۔ ویسے بھی گزشتہ کچھ برس سے قائم ہونے والی سیاسی حکومتیں منی لانڈرنگ کو ''معمول کی سرگرمی ‘‘ سمجھتی رہی ہیں۔ اس کوتا ہی نے بھارتی‘ اسرائیلی اور امریکی تھنک ٹینک اور میڈیا ہائوسز کو جواز فراہم کیا کہ وہ پاکستان کو دہشت گردی پھیلانے والااور بھارت کو اس کا شکار‘ ملک سمجھیں اور مودی اس بیانیے کو ہوا دیتا رہا اور دے رہا ہے۔
سیاسی میدان میں مودی کی ترقی کی وجہ اُ س کی معاشی مہارت اور گجرات میں ہونے والے مسلم کش فسادات تھے ۔ اُ س نے اقتدار سنبھالنے پر قوم پرستی پر مبنی انتہا ئی جذبات کو مزید بھڑکایا۔ سابق مرکزی وزیر یشونت سنہانے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ مودی سرکار ذاتی مقاصد کے حصول کیلئے ریاستی طاقت کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی پالیسی رکھتی ہے ۔اس دوران بھارتی میڈیا نے بھی حقائق سے آنکھیں بند کرکے ہر اُس چیز کی مذمت کرنے کا وتیرہ اپنا ئے رکھا‘ جو ملک کے تاریک چہرے سے پردہ اٹھائے ۔ کشمیر کو پاکستان کی کارستانی قرار دیا جاتا ۔ اس طرح کشمیر میں استعمال کی جانے والی طاقت کو دشمن کی بغاوت کچلنے کی حکمت کے طور پرپیش کیا جاتا ۔ملمع کاری کی چمک دمک کے ساتھ بھارتی مارکیٹ میں یہ سودا ہاتھوں ہاتھ بکتا ہے۔ 
تاہم ملمع کاری‘ دبائو اور جھوٹ پر مبنی پالیسیاں دیر تک کام نہیں دیتیں۔ پاکستان اور کشمیر کے بارے میںکوئی بھی من گھڑت خبریا بیانیہ پھیلا کر بھارت صاف بچ نکلتا تھا؛ چنانچہ اُنہیں پلوامہ کے بعد بھی توقع تھی کہ وہ ''پاکستانیوں کو مارنا‘ دہشت گردوں کو مارناہے‘‘ کا نعرہ لگاکر دنیا کی حمایت حاصل کرلیں گے ‘ لیکن آخر کار یہ نقاب اتر ہی گیا۔ جب انڈیا نے طاقت کااستعمال کرتے ہوئے فضائی حملہ کیا اور ''شاندار فتح ‘‘ کا جشن منانا شروع کیا تو دنیا پاکستان کا پرُسکون انداز دیکھ کر حیران رہ گئی۔ شائی انڈیا بھول گیا تھا کہ آج طاقت کا استعمال اور جھوٹ آسانی سے پکڑے جاسکتے ہیں۔ سیٹیلائٹ تصاویر بنالیتے ہیں‘ تصویروں کا تجزیہ کیا جاسکتا ہے‘ اصل وقت اور تاریخ کا کھوج لگانا ممکن ہے اورآپ کی کہی ہوئی باتیں ریکارڈکی جاسکتی ہیں۔
انڈیا کی تاثر پھیلانے والی مشین کا دھڑن تختہ ہوگیا۔ شائنگ انڈیا چیخ وپکار کرنے لگا‘ جھوٹے ثبوت‘ بے بنیاد ویڈیوز اور من گھڑت خبروں کا بازار گرم ہوگیا‘بھارتی میڈیا ہیجانی انداز میں جنگ کا محاذ گرم کرنے لگا۔ میڈیا ہائوسز وار روم دکھائی دینے لگے ۔ اداکار اور فنکار بھی جنگی جنون میںبہہ نکلے‘ سیاست دان شعلہ بار ہوئے ‘ عوام زہر اگلنے لگے ‘ لیکن اس غیر معمولی ہیجانی کیفیت کے دوران پاکستانی میڈیا اور سفارت کاری کے متعدل اور پرُسکون ردعمل نے ہیجان کا پردہ ہٹا کر حقیقت بے نقاب کرنا شروع کردی۔ عالمی آوازیں تبدیل ہونے لگیں۔ بھارتی ریاست اور میڈیا بدستور انکار کی پالیسی اپنائے ہوئے تھا۔ آج کی میڈیا کی دنیا میں حقائق کے خلاف جنگی محاذ کھولنے کے لیے ایک طرف اُنہیں جھٹلایا جاتا ہے اور دوسری طرف اُن کے مقابلے میں جھوٹ کو حقیقت کا روپ دے کر میدان میں اتارا جاتا ہے ‘ لیکن اس بار یہ ہوا کہ ماہرین کے پیش کردہ ثبوتوں نے بھارت کے جھوٹے دعوؤں کی دھول اُڑا دی۔ 
پہلی مرتبہ دنیا اور بھارتیوں کی کچھ تعداد ‘ نے تسلیم کیا ہے کہ وہ بہت دیر سے حقیقت سے بے خبر تھے۔ حقیقت کیا ہے ؟ مائیکرو سافٹ رپورٹ آئینہ دکھاتی ہے ۔ اس کے مطابق؛ جھوٹی خبروں میں انڈیا آج دنیا کا سرخیل ہے ۔ 64 فیصد بھارتیوںکوجھوٹی خبریں ملتی ہیں‘ جبکہ دنیا میں جھوٹی خبروںکا اوسط 57 فیصد ہے ۔ یہ بات ناقابل ِ یقین ہے کہ اتنی عدم برداشت رکھنے والا ملک کو کس طرح ترقی پسند کہلا یا جا سکتا ہے؟ ناقابل ِ یقین ہے کہ دنیا میں عورتوں کے لیے سب سے خطرناک ملک کو کس طرح جدید سماج کی حامل ریاست کہا جا سکتا ہے ؟ یہ بھی ناقابل ِ یقین ہے کہ دنیا میںسب سے زیادہ جھوٹی خبریں پھیلانے والا ملک کس طرح دوسروں کو جھوٹا قرار دے سکتا ہے ۔
انتہائی ناقابل ِ یقین بات کہ بھارت کے موجودہ وزیراعظم ‘ جوخود ایک انتہا پسند ہیں اور انتہا پسندی اوردہشت گردی ترویج کرتے ہیں‘ کس طرح دوسری طرف انگشت نمائی کرسکتے ہیں؟ اب اس معتاد حوالے (paradox) کا قصہ تمام ہوا چاہتا ہے ۔ چند ہفتوں بعد بھارت میں انتخابات ہونے جارہے ہیں اور ایسے میں ٹویٹر ٹریند #GoBackModi ایک انتخابی حقیقت بن سکتا ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں