مودی کی ا خلاقی پسپائی

ذرا سو چئے مودی کا وار‘ فضائی حملہ‘ جو نہ تو سرجیکل تھا اور نہ ہی کوئی ہدف حاصل ہوا‘تو پھر یہ سب کہانی کیا تھی ؟ شاید وہ اپنے جنگی جنون اور خود فریبی کے اسیر ہیں۔ان کا کشمیر وادی کا دورہ ایک سراسر شرمندگی تھی ۔ اس توہین کا بدلہ چکانے کیلئے بے قرار تھے ۔ پلوامہ حملے نے ''سرجیکل سٹرائیک‘‘ کا موقع فراہم کردیا۔ اُن کے ایک پارٹی ممبر کے مطابق؛ اس حملے سے اُنہیں بائیس اضافی نشستیں مل سکتی ہیں؛ چنانچہ نقارہ بجنے لگا۔ کوئی ثبوت موجود نہیں‘ لیکن الزامات کی بھرمار جاری‘ لیکن یہ کیا ہوا؟ دعووں کی قلعی کھلنے لگی۔
اس ایشو کو سمجھنے کیلئے سیاق و سباق کی تفہیم ضروری ہوگی ۔ کشمیر پر عالمی توجہ کا بیرومیٹر تبدیل ہورہا ہے۔ ماضی میں یورپی یونین‘ اقوام ِ متحدہ اور دیگر عالمی ادارے کشمیر پر خاموش تھے ‘ لیکن اب ہوا کا رخ بدل رہا ہے۔ اس کا توڑ کرنے کیلئے مودی کے لیے ضروری ہوچکا تھا کہ کشمیر میں پیش آنے والے واقعات کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالی جائے ۔ یہ وہ وقت تھا‘ جب ہمارے ملک میں سعودی عرب کی طرف سے بھاری سرمایہ کاری آرہی تھی۔ پاکستان کسی صورت سرحدوں پر تنائو کا متحمل نہیں ہوسکتا ؛ چنانچہ ہم نے فضائی حدود کی خلاف ورزی کا بہت جچا تلا جواب دیااور جواب دینا ضروری تھا‘ کیونکہ بالا کوٹ کے بعد مودی نے جنونی انداز میں ''فتح ‘‘ کا جشن منانا شروع کردیا تھا۔ایک مرتبہ پھر خود ساختہ حقیقت نے حقائق کی جگہ لے لی۔ حملے کی جعلی ویڈیوز جاری کی گئیں‘ جو بعد میں 2015 ء میں ریلیز ہونے والی ایک ویڈیوگیم "ARMA 2" ثابت ہوئی ۔ فضائی حملے میں تین سو سے لے کر چھے سو تک دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا‘ لیکن سائٹ کی فوٹیج پر نہ کوئی لاش ملی‘ نہ خون کا کوئی دھبہ‘ نہ کوئی جنازہ اور نہ کوئی تباہی ۔ 
معاشیات کے بعد اب ''Diminishing Returns‘‘ کی تھیوری بھی سیاست میں استعمال ہورہی ہے ۔ معاشیات میں اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کسی چیز کی پیداوار خاص حد سے بڑھاتے جائیں تو اس کی ریٹرنز کم ہوتی جائیں گی۔ ہوسکتا کہ خالصتاً سیاسی میدان میں یہ اصطلاح مستعمل نہ ہو‘ لیکن پھر سیاست خالص کہا ں ہوتی ہے ؟ حالیہ پاک بھارت تنائو اس سرمایہ کاری (Investment) کا نتیجہ ہے‘ جو بھارتی وزیراعظم نے پاکستان سے نفرت کے شعبے میں کی۔ یہ اس شعبے میں کی گئی سرمایہ کاری تھی‘ جس کے نتیجے میں وہ 2014 ء کے الیکشن میں کامیاب ہوئے تھے اور آج اسی میں مزید سرمایہ کاری کرتے ہوئے چند ہفتو ں بعد ہونے والے انتخابات میں کامیابی کی امید لگائے ہوئے ہیں۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مزید سرمایہ کاری کے نتیجے میں اُن کی ریٹرنز میں اضافہ ہوگا یا کمی واقع ہوگی؟
اگر ہم مودی کے سیاست میں عروج کو دیکھیں تو ہمیں پتا چلے گا کہ اس میں ہندوتوا کی تاریخ اہم کردار ادا کرتی رہی ہے ۔ وہ وزیر اعلیٰ گجرات تھے‘ جب ان پر دو ہزار لوگوں کو قتل کرنے کا الزام عائد کیا گیا‘ جن میں خاص طور پر 2002ء میں سمجھوتہ ایکسپریس کے مسلمان شامل تھے‘ لیکن اس برانڈ کے ساتھ انہیں ایک ماہر معیشت کے طور پر بھی متعارف کرایا گیا‘ جن کے دور میں گجرات کی معیشت ایک رول ماڈ ل کے طور پر 10فیصد جی ڈی پی کے ساتھ ابھری‘جبکہ بھارت کا جی ڈی پی تقریباً 8فیصد تھا۔اس دہری ''کامیابی‘‘ نے انہیں مستقبل کے وزیر اعظم کے لیے اہم ترین امیدوار بنا دیا‘اسی کامیاب معیشت اور بے رحم ہندو توا نے انہیں 2014کے الیکشن میں کامیاب کیا۔بھارتی سپریم کورٹ نے گجرات سکینڈل میں مودی کے کردار کا کھوج لگانے کیلئے ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی اور انہیں بے قصور قرار دے دیا۔ بھارتی وزیر اعظم مودی کیلئے بھارت کی ترقی اور ایک خاص گروہ کو دبا کر رکھنے کا یہ فارمولا فتح کی کنجی بن گیا اور انہوں نے اپنی اکثریت برقرار رکھی۔2017ء میں انہوں نے اتر پردیش کے الیکشن میں فتح سمیٹی اور اپنے ایک ہم خیال شخص یوگی ادیتیاناتھ کو وہاں نامزد کیا‘ جو مسلمان مخالف نظریات پر اپنے سیاسی کیرئیر پروان چڑھانے کیلئے جانا جاتا ہے‘اس نے 2015ء میں گائے کا گوشت کھانے کے شبہ میں ایک مسلمان کو قتل کرنے والے ہجوم کا دفاع کیا اور کہا کہ وہ مسلمان جو یوگا کرتے ہوئے سورج دیوتا کی پوجا نہیں کرسکتے‘ اُنہیں خود کو سمندر میں ڈبونا ہوگا‘تاہم یوگی ایسا کچھ نہ کرسکا ‘جو مودی نے گجرات میں کر دکھایا تھا۔ دوسوملین کی آبادی رکھنے والا اترپردیش اتنا بڑا ہے جتنا پاکستان۔ یہ وہی ریاست ہے ‘جہاںتعلیمی نتائج افسوسناک ‘ جبکہ نوجوانوں کی بیروزگاری کی شرح انتہائی اونچی ہے۔ 
انتہا پسندی ایک ذہنی رجحان کانام ہے ۔ مودی صرف پاکستان‘ یا کشمیر ‘ یا مسلم مخالف ہی نہیں‘ وہ انسانی مساوات کے بھی مخالف ہیں۔ چودہ نومبر 2018 ء کو مودی کے انتہا پسند انڈیا کے موضوع پر شائع ہونے والے مضمون ''Negation of Gandi's Policy of Tolerance‘‘ میں نچلی ذات کے ہندئووں ‘ دلت طبقے کے ساتھ مودی کے سلوک کو اجاگر کیا گیا ۔ ستائیس فیصد دیہاتوں کے پولیس اسٹیشنز میں دلتوں کا داخلہ منع ہے ۔ تین میں سے ایک دیہات میں ہیلتھ ورکرز دلت گھروں میں داخل ہونے سے انکار کردیتی ہیں۔ کم وبیش نصف کے قریب دلت گائوں آبی وسائل تک رسائی سے محروم ہیں۔ 70 فیصد دیہات میں دلتوں کو دیگر شہریوں کے ساتھ مل کر کھانے کی اجازت نہیں ۔ اس کے علاوہ سکھوں‘ مسیحیوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک میں بھی اضافہ ہورہا ہے ۔ الغرض یہ ہے‘ وہ جابرانہ ذہنیت ‘جسے مزید ابھارتے ہوئے مودی 2019 ء کی انتخابی مہم میں قدم رکھ رہے ہیں۔انہوںنے نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے‘ اور کسانوں کی حالت سدھارنے کے وعدے کیے تھے‘ لیکن وہ سب ناکام ہوچکے ۔اُنہیں دسمبر 2018 ء میں راجستھان‘ مدھیا پردیش اور چھتیس گڑھ میں ہونے والے ریاستی انتخابات میں شکست ہوئی ۔ کشمیر ‘ جسے انڈیا نے کئی عشروں تک انسانی حقوق کی بحث سے بہت کامیابی سے الگ رکھا تھا‘ نے اقوام ِ متحدہ کی انسانی حقوق کی رپورٹ اور سوشل میڈیا پر عورتوں‘ بچوں اور نوجوان افراد کے پیلٹ گن سے نابینا ہونے کی تصاویر کی وجہ سے عالمی توجہ حاصل کرنا شروع کردی ہے ۔ مودی کا کشمیر کا دورہ شرمناک تھا‘ کیونکہ سنسان گلیاں اُن کا استقبال کررہی تھیں۔ چنانچہ جب پلوامہ واقعہ پیش آیا تو مودی نے فوراً پاکستان پر الزام لگادیا۔ اس مرتبہ الزام کے ساتھ ایک قدم اور بڑھاتے ہوئے فضائی حدود کی خلاف وزری کی‘ اور جیش ِ محمد کے کیمپ پر حملہ کرنے کا دعویٰ کیا ‘ لیکن منہ کی کھا ئی۔ 
ریٹرنز کم ہونے کا قانون آخر کا ر مودی پر لاگو ہونا شروع ہوگیا ہے ۔ صرف پاکستان ہی نہیں‘ باقی دنیا بھی پوچھ رہی ہے '' فضائی حملے کا ثبوت دینے کے لیے ARMA 2 گیم کی جعلی ویڈیوز کیوں دکھائی گئی؟ حملہ کرنے سے پہلے انڈیا نے پاکستان کو ثبوت کیوں نہیں دئیے ؟ سائٹ پر جانے والوں کو کسی ہلاکت‘ خون بہنے یا عمارتوں کے گرنے‘ یا بالا کوٹ میں ہلاک شدگان کے اہل ِ خانہ کا احتجاج کیوں دکھائی نہیں دیتا؟ ‘‘اس سے بھی اہم یہ کہ ایک نوعمر کشمیری لڑکے نے مودی کے جبر تلے دبے کشمیر میں جینے پر مرنے کو ترجیح کیوں دی؟ یہ وہ سوالات ہیں‘ جنہیں بھارتی حکومت ‘ فوج اور میڈیا پراپیگنڈا قرار دے کر مسترد کررہے ہیں۔خطرے سے انکار سے زیادہ کوئی چیز خطرناک نہیں ہوتی۔ جابرانہ ہتھکنڈے اپنا کر اور دروغ گوئی سے کام لے کر اپنے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرنے والے مودی کا سیاسی سرمایہ تیزی سے گھٹ رہا ہے ‘ لیکن اُنہیں اس کا احساس نہیںاور نہ ہی وہ اس خطرناک راستے پر چلنے کے غیر متوقع نتائج کی فکر کررہے ہیں۔ کیا وہ اپنی چالبازیوں میں کامیاب ہوجاتے ہیں نہیں؟اس سوال کا جواب بر ِ صغیر کے ڈیڑھ ارب انسانوں کے مستقبل کا تعین کرے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں