سیاحتی معیشت…ایک چھپا خزانہ

کسی ملک کے پہلے تاثر ات کیا ہوتے ہیں؟ اس کے مقامات‘ اس کے عوام‘ اس کی ثقافت۔ یہ تاثرات کیسے بنتے ہیں؟ تاثر سازی کے لیے بصری اور سمعی ٹولز استعمال کیے جاتے ہیں۔ مناظر اجاگر کرکے‘ بیانات دے کر‘ مضامین لکھ کر‘ عملی اظہار اور تجربے سے ۔ جب بھی ہم جنوب مشرقی ایشیا کا نام لیتے ہیں‘ ہمارے ذہن میںسب سے پہلے ملائیشیا اور تھائی لینڈ آتے ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ ہم نے برس ہا برس سے ان ممالک کے جشن اور تہواروں کے مناظر تصویروں میں دیکھے ہیں۔ جب ہم ان پر تحقیق کرتے ہیں تو ہمیں چاول کے وسیع وعریض کھیت ‘ واٹر پارک اور دلفریب ساحل نظر آتے ہیں۔ نعرہ''ملائیشیا ہی اصل ایشیا ہے‘‘ ذہن میں آتا ہے ۔بنکاک کا مطلب ہی ساحلوں اورتفریحی مقامات کا شہر ہے ۔ دبئی کانام آتے ہی ذہن میں شاپنگ اور تفریح کا تصور ابھرتا ہے ۔ تاثرات سیاحت کے فلسفے ‘ اور ملک کی حکمت ِعملی کے تناظر میں تخلیق پاتے ہیں۔ بہت سے ممالک سے سیکھے گئے اسباق یہ ہیں کہ ایک تو چیز دیکھ کر ہی یقین آتا ہے اور دوسرامال فروخت کرنے کے لیے متاثر کن لہجہ ضروری ہے ۔ جب لوگ آپ کے ملک کا دورہ کرتے ہیںتو اُن کے تصوارت میں ایک تبدیلی آتی ہے ۔ کئی ایک عوامل سے تشکیل پانے والی رائے ان کا پہلا تاثر بن جاتی ہے۔وہ اپنی آنکھوںسے دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں کہ کیا اُن کی رائے‘ جو تشہیر ی مہم نے بنائی تھی‘ درست تھی یا غلط ۔زیادہ تر ممالک کے لیے سیاحت ایک پہچان بن چکی ہے ۔ یہ ان کی خوبصورتی‘ تفریح اور سرمایہ کاری کے امکانات کا علامتی اظہار ہے۔ بہت سے ممالک کی معیشت میں سیاحتی صنعت کا سب سے بڑا حصہ ہوتا ہے ۔ ایشیا میں سیاحت کے لیے بہت کشش موجود ہے ۔ جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کے جی ڈی پی میں سیاحتی سرگرمیوں کا حصہ پانچ سے سات فیصد تک ہوتا ہے ۔ 
جنوبی ایشیا میں بھی سیاحت کے بہت سے امکانات موجود ہیں۔ تاہم اس شعبے میں پاکستان اپنے ہمسایوںسے بہت پیچھے ہے ۔ 2010 ء سے لے کر 2017 ء تک بھارت کا سیاحت سے حاصل ہونے والا ریونیو دگنا ہوکر 28 بلین ڈالر تک پہنچ گیا‘ جبکہ اس عرصے کے دوران پاکستان کا سیاحت سے حاصل ہونے والا ریونیو جمود کا شکار رہا۔جنوبی ایشیا کی سیاحتی مارکیٹ ‘ جس کا حجم 40 بلین ڈالر سے زیادہ ہے ‘ کا 70 فیصد انڈیا کے پاس ہے ۔ اس کے بعد سری لنکا اور مالدیپ کا نمبر آتا ہے ‘لیکن بے پناہ جغرافیائی تنوع اور قدرتی حسن رکھنے والا پاکستان بمشکل اس مارکیٹ کا 0.2 فیصد حاصل کرپاتاہے ۔ عالمی سیاحتی مارکیٹ میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اس نے 2017 ء میں سیاحت سے صرف 875 ملین ڈالر کمائے ۔ 
بہت سے ممالک نے سیاحوں کو متوجہ کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے ہیں۔ دبئی اور ترکی اپنی ایئرلائنز کے ذریعے دنیا بھر کے سیاحوں کا مرکز بن چکے ہیں۔ امارات نے دنیا بھر میں اپنے روابط استعمال کرکے سیاحوں کو اپنے ملک کا ٹرانزٹ ویزہ حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے ۔ حال ہی میں ٹرکش ایئرلائنز نے ترکی کی سیاحت کو بے پناہ ترقی دی ہے ۔ اس نے اپنی کاوش کا آغاز 2003 ء میں کیا تھا۔ ٹرکش ایئرلائنز نے 2003ء میں اپنے ریونیو ‘جو 600 ملین ڈالر تھا‘ کو بڑھا کر 2018 ء میں دس بلین ڈالر تک پہنچا دیا ۔ اس وقت ترکی سیاحت سے تیس بلین ڈالر سالانہ کما رہا ہے ۔ تاہم گزشتہ دو عشروں سے پاکستان کو درپیش سکیورٹی کے مسائل نے سیاحو ں کو اس طرف آنے سے روکے رکھا ۔ اس دوران دہشت گردی کے شکار دیگر ممالک‘ جیسا کہ سری لنکا‘ نے سیاحت کے شعبے میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا لیکن عالمی میڈیا میں پاکستان کا منفی پہلو اجاگر ہونے سے اس کا تاثر بگڑا۔ گزشتہ چار برسوںکے دوران سکیورٹی کی صورتحال میں خاطرخواہ بہتری آنے سے خاص طور پر شمالی علاقہ جات میں سیاحت کی سرگرمیوں میں اضافہ ہو اہے لیکن ابھی بھی ملک میں موجود امکانات کے مقابلے میں سیاحتی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں ۔
موجودہ حکومت سیاحت کو ایک ترجیحی صنعت کا درجہ دیتے ہوئے اس کے فروغ کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر ایک جامع حکمت ِعملی وضع کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔ حالیہ ''پاکستان ٹورازم سمٹ ‘‘ ایک اچھا مشاورتی فورم تھا۔ یہ پلیٹ فارم سیاحت کے حوالے سے ایک روڈ میپ وضع کرنے میں معاون ثابت ہوا۔ دیگر ممالک کی مثال سے سیکھتے ‘ او رملک کو''Must Visit‘‘ کی فہرست میں شامل کرنے کے لیے حکمت ِعملی ترتیب دیتے ہوئے تین عناصر کو مد ِ نظر رکھنا ہوگا۔1: ایک شناختی برانڈ اور شخصیت کو نمایاں کرتے ہوئے ملک کی مارکیٹنگ کی جاتی ہے۔ اسی طرح ممالک بھی پراڈکٹس کی طرح ہیں۔ مارکیٹ میں برانڈ ہی بکتا ہے ۔ پاکستان پراڈکٹ تو بہترین ہے لیکن اس کا برانڈ خراب ہے ۔ جب تک برانڈ کو بہتر نہیں کیا جاتا‘ تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پراڈکٹ کتنی اچھی ہے ‘ یہ سیاحت کی مارکیٹ میں کامیاب نہیں ہوگا۔ یہاں انڈیااور چین کی مثالیں برمحل ہیں۔ انڈیا ''ناقابل یقین انڈیا ‘‘ کا نعرہ استعمال کرتے ہوئے مارکیٹ میں خود کو نمایاں کرتا رہا ہے ۔ چین نے بھی ''چین پہلے کبھی ایسا نہ تھا‘‘ کے تشہیر ی جملے کے ذریعے اپنے ملک کا پیغام دنیا میں پھیلایا ہے ۔ پاکستان کو بھی ایسا ہی ایک تھیم تلاش کرنا ہے جو باقی دنیا تک امن اور خوبصورتی کا پیغام پہنچائے ۔ 2: ارادے کو عملی شکل دیں۔ سیاحت کی سرگرمیوں کے آغا ز سے پہلے ملک کا تاثر بہتر بنانا پڑتا ہے ۔ ہمارے پاس ایک Chart ہے جس میں مخصوص سیاحوں کے اختیار کردہ راستے کی نشاندہی ہوتی ہے ۔ اب ہمیں ارادہ کرنا ہے کہ ہم نے سیاحت کی مارکیٹ میں اپنی جگہ بنانی ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم نے اس بات کی طرف دھیان دینا ہے کہ سیاح کیا دیکھنا چاہتے ہیں؟ وہ شاپنگ کی معلومات کہاں سے حاصل کرتے ہیں؟وہ کیسے مقامات دیکھنا چاہیں گے؟ سیاح کا تجربہ کیسا ہے ؟ اگر وہ کسی ویب سائٹ یا سفارت خانے کو لکھتا ہے تو کیا اُسے جواب ملتا ہے ؟ ہمارے سفارت خانے معلومات اور ویزے جاری کرنے میں سست ہیں۔ اب جبکہ حکومت نے 170 ممالک کے لیے ای ویزے کی سہولت کا اعلان کیا ہے تو دیکھنا ہے کہ یہ نظام کیسے کام کررہا ہے؟ کیا وہ فوری تعمیل کرتے ہیں یا روایتی تاخیری حربے جاری ہیں؟ اگر فوری کارروائی کی جاتی ہے تو درست ‘ ورنہ سیاح اس طرف آنے سے انکار کردے گا۔ اسی طرح جب سیاح ہمارے ہاں آتے ہیں تو یہ اُن کے لیے خصوصی لمحات ہوتے ہیں۔ 3: اگر آپ کلک کا جواب نہیں دیتے تواس کا مطلب ہے کہ آپ مارکیٹ میں موجود نہیں ہیں۔ سمارٹ فون کو سمارٹ ڈیجیٹل سٹریٹجی چاہیے۔ ایک بہت بڑا واقعہ یا اہم مقام نمایاں کرنا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ لیکن ایک عام مقام کو لاکھوں افراد تک پہنچانا اور اسے وائرل کرنا ہی اصل کام ہے ۔ اس کے لیے سوشل میڈیا کی جامع حکمت ِعملی درکار ہے ۔ ضروری ہے کہ کلک کے نتیجے میں سرچ انجن پاکستان کے مثبت پہلو کو دکھائیں۔ اس کے لیے پیشہ ور کوشش اور پلاننگ درکار ہے ۔ پاکستان نے ٹریول بلاگرز استعمال کرنا شروع کردیے ہیں۔ ضروری ہے کہ ویب پر اُن کی موجودگی بڑھائی جائے ۔اہم شخصیات کی وی بلاگز‘ ہر ائیرلائن جو پاکستان آتی ہے‘ کی ویب سائٹ کی کوبرانڈنگ ہو‘ تاکہ پاکستان میں سیاحوں کی آمد کو نمایاں کیا جاسکے ۔ اس وقت پاکستانی معیشت بھاری قرضوں کی وجہ سے دبائو کا شکار ہے ۔ اس میں اصلاحات کے لیے وقت درکار ہوگا ۔ پیدواری صنعت کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے لیے مالی اور تکنیکی سہولت چاہیے ۔ اس کے لیے وقت اور وسائل کی ضرورت ہے ۔ تاہم سیاحت ایک ایسی صنعت ہے جو فوری طور پر ریونیو میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے ۔ لیکن اس کے لیے مربوط کوشش درکار ہے ۔ ''پاکستان ٹورازم سمٹ‘‘ اس ترجیحی شعبے کی طرف ایک اچھی پیش رفت ہے ۔ اب جبکہ گرمی کی چھٹیاں آرہی ہیں‘ تمام نظریں اس طرف مرکوز ہونی چاہئیں کہ سیاحوں کو متوجہ کرنا ہے‘ مسحو ر کر نا ر کس طرح پاکستان کی خوبصورتی اور قدرتی کشش کی تشہیر بن جائے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں