جہالت کا وائرس

''اگر آپ کے خیال میں تعلیم مہنگی ہے ‘تو پھر جہالت آزما کر دیکھ لیں‘‘یہ وہ اصول ہے‘ جس کی سچائی کبھی نہیں جھٹلائی جاسکتی‘تاہم اس اصول کو کم ترقی یافتہ ممالک میں بمشکل ہی آزمایا جاتا ہے ۔ وائرس اور وائرل‘ یہ دوالفاظ دنیا کی لامتناہی توجہ حاصل کرتے ہیں۔ پہلا (وائرس) اس لیے کہ یہ بیماری پھیلاتا اور مہلک انفیکشنز کا باعث بنتا ہے ‘ جبکہ دوسرا (وائرل) سوشل میڈیا پر وسیع پیمانے پر برق رفتار ابلاغ کو بیان کرتا ہے۔ ان دونوں میں مشترکہ قدران کا تیزی سے اور وسیع پیمانے پر پھیل جانا اور انسانوں کے عظیم حلقے کو اپنے اچھے یا برے اثرات کی لپیٹ میں لے لینا ہے ۔ 
افسوس‘ جب بچوں کو صحت مند رکھنے کے اقدامات ناقص تعلیم یا لاعلمی کی بھینٹ چڑھ جائیں۔ بچوں سے اتنی محبت کرنے والے والدین صرف مسخ شدہ عقائد اور خراب تعلیم کی وجہ سے اپنے نونہالوں کو مفلوج کردینے والے وائرس کے خطرے سے دوچار کردیں‘ انہیں خطرناک وائرس سے بچانے کیلئے ویکسین پلانے والوں کی انتھک کوشش اکارت چلی جائے اور معلوم ہو کہ سیوریج سے رستے ہوئے گندے پانی میں بھی وائرس موجود ہے ۔ انسداد ِ پولیو مہم پر پیدا ہونے والا حالیہ بحران ایک مرتبہ پھر یاد دلاتا ہے کہ ویکسین مہم وائر س کو تو ختم کرسکتی ہے‘ لیکن اس کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ فکری آلودگی ہے ۔ ا س سے یہ تشویش لاحق ہوجاتی ہے کہ اگر اس پر پوری یکسوئی سے توجہ نہ دی گئی تو پولیو وائرس سے بچائو کی تمام تر کاوشیں پولیو وائرس پھیلنے کی وجوہ کے سامنے اکارت جاسکتی ہیں۔ پاکستان کو ''طبی قید‘‘ میں الگ تھلگ رکھا گیا ہے ‘کیونکہ یہ ملک ابھی تک پولیو کنٹرول کرنے اور اس کے پھیلائو کے خطرے کا تدارک کرنے سے قاصر ہے اور جب تک ہم پولیو ورکرز کے گھر گھر جاکر قطرے پلانے کے عمل سے آگے نہیں بڑھتے‘ پولیو کے ابھرنے کا خطرہ لاحق رہے گا۔ حکومت پاکستان 2014ء سے اس خطرے کا تدارک کرنے کی انتہائی کوشش کررہی ہے۔ اس نے پولیو کنٹرول کرنے کا دعویٰ بھی کیا‘ لیکن افسوس‘ حقیقت ا س کے برعکس تھی ۔ سولہویں آئی ایم بی (انٹر نیشنل مونیٹرنگ بورڈ )رپورٹ 2017-18ء نے ان دعوؤں کی تردید کردی۔ اس کے مطابق''پاکستان کی اہم سرکاری شخصیات کا یہ خیال کہ پاکستان میں پولیو کو کنٹرول کرلیا گیا ہے ‘ درست نہیں ‘‘یہ رپورٹ آگے چل کر کہتی ہے '' پولیو ویکسی نیشن پلانے میں دگرگوں کارکردگی کا خمیازہ پاکستان کو بھگتنا پڑے گا۔ بہت سے بچے انتہائی خطرے کی زد میں ہیں‘ کیونکہ انہیں پولیو کے قطرے نہیں پلائے جاسکے تھے اور آئی ایم بی نے اپنی گزشتہ رپورٹس میں اس پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا تھا۔ ‘‘قومی صحت کے مسلے‘ خاص طور پر جو متنازع ہو‘ سے نمٹنے کیلئے میڈیکل اختراع سے زیادہ رویوں کی اصلاح ضروری ہے ۔ رویوں کو آگاہی‘ جان کاری‘ تنبیہ اور سزا کے ذریعے تبدیل کیا اور بہتر بنایا جاسکتا ہے ۔ ان تمام کاوشوں کو بروئے کار لاتے ہوئے افعال اور افکار میں تبدیلی برپا کی جاسکتی ہے۔
پاکستان میں پولیو مہم کچھ عرصے تک کافی کامیاب رہی۔ 1994ء سے لے کر گزشتہ سال کے درمیان پولیو سے متاثر بچوں کی تعداد بیس ہزار سے کم ہوکر صرف بارہ تک رہ گئی‘ تاہم رواں سال پولیو کے پندرہ نئے کیسز سامنے آئے ہیں۔ کچھ کو خدشہ ہے کہ یہ تعداد پچاس تک پہنچ سکتی ہے ۔ والدین میں پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کا بڑھتا ہوا رجحان اس اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے ۔ افغانستان اور پاکستان اس انکار کا شکار ہیں۔ پولیو کے قطروں کے خلاف پراپیگنڈا دہشت گردی کی جنگ کے بعد مغرب مخالف ایجنڈے کا حصہ بن چکا ہے ۔ شمال مغربی قبائلی علاقے ایک مخصوص سوچ کی وجہ سے پولیو کے پھیلائو کے مراکز بن سکتے ہیں۔ ماضی میں ان علاقوں میں مذہبی رہنمائوں کی خدمات حاصل کرکے عوام میں پولیو کے قطرے پلانے کا شعور اجاگر کیا گیا تھا۔ اس سلسلے مولانا سمیع الحق مرحوم کی خدمات یاد رکھی جائیں گی۔ اُنہوں نے خود خیبرپختونخوامیں پولیو کے قطرے پلانے کی مہم شروع کی ؛ اگرچہ معلومات کے بہائو نے بہت سے مورچے فتح کرلیے ہیں ‘ لیکن غلط معلومات کے پھیلائو نے بہت سے راستے مسدود بھی کیے ہیں۔ اس نے ذہنوں کو کھولا بھی ہے اور بند بھی کیا ہے ۔ ایک ویڈیو میں دکھایا جاتا ہے کہ پولیو کے قطرے پینے کے بعد کس طرح بچوں کی حالت غیر ہوجاتی ہے ۔ یہ ویڈیووائرل ہوجاتی ہے‘ اس کی وجہ سے مشتعل ہجوم نے سکول پر حملہ کیا‘ اور قریبی شفاخانے کو جلا دیا۔ اس واقعے کی وجہ سے پولیو مہم کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا۔ بعد میں پتا چلا کہ وہ ایک ڈرامہ بازی تھی‘ جس کا مقصد پولیو مہم کو ناکام کرنا تھا‘ لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ 
ایک وجہ‘ جو عوام کو ناگوار گزرتی ہے‘ وہ افسران کا اُن سے رابطہ کرنا اور گھروں پر آنا ہے ۔ عوام ہزاروں سوالات پوچھتے ہیں کہ اتنی زیادہ پولیو خوراک کی کیوں ضرورت ہے ؟ ایک دس سالہ بچے کو قطرے کیوں پلائے جائیں؟ اُن کے سوالات کا جواب نہیں دیا جاتا‘ بلکہ اُنہیں دھمکایا جاتا ہے ۔ اس سے اُن کے شکوک و شبہات یقین میں بدلنے لگتے ہیں اور وہ انکار کردیتے ہیں۔ پولیو گندے مادوں سے پھیلتا ہے ۔ پاکستان میں سیوریج سسٹم ناقص ہے اوراکثر مقامات سے اس کا انفراسٹرکچر بوسیدہ ہوچکا ہے ۔ گندہ پانی‘ پینے کے صاف پانی میں مکس ہوجاتا ہے ۔ راولپنڈی کی بہت سی پشتون آبادیوں سے پانی اور سیوریج کے لیے گئے نمونوں سے پولیو کا وائرس ملاہے ؛ چنانچہ پولیو کے قطرے پلانے کے خلاف مزاحمت بھی بہت شدید ہے اور اس کے پھیلائو کی وجوہ کا تدارک بھی آسان نہیں ہے۔ 
پولیو ویکسی نیشن کے بارے میں ایک بھرپور آگاہی مہم کی ضرورت ہے ۔ اس سلسلے میں چار اہم اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں۔ پہلا‘ رائے سازرہنمائوں( جیسا کہ مولانا سمیع الحق) کی خدمات حاصل کی جائیں اور ان کے ذریعے زیادہ متاثرہ علاقوں میں آگاہی دی جائے۔ عوام ایسے معتبر رہنمائوں کی بات سنتے اور مانتے ہیں۔ دوسرا‘ مقامی والدین‘ جو قطرے پلانے سے انکار کی وجہ سے متاثر ہوئے ‘ کو اس مہم میں شریک کیا جائے ‘ تاکہ وہ اپنے علاقوں میں اپنے لوگوں کو یہ بات سمجھا سکیں۔ ان کے ذریعے پولیوکے قطرے پلانے کی مہم چلائی جائے ‘ کیونکہ کچھ علاقے اجنبی کارکنوں کو اپنے علاقوں میں نہیں آنے دیتے ۔ تیسرا‘ اہم شخصیات اور طبی ماہرین کے ذریعے سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر مہم چلاکر پولیو کے قطروں کی افادیت بیان کی جائے اور نہ پلانے سے ہونے والے نقصان سے آگاہ کیا جائے ۔ کچھ تعلیم یافتہ افراد بھی یہ سمجھتے ہیں کہ پولیو کے قطرے صرف ابتدائی عمر میں ہی پلائے جاتے ہیں‘بعد میں اس کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ چوتھااورسب سے اہم‘ پولیو وائرس کی جڑ ختم کی جائے ۔ یہ گندے ماحول میں پھیلتا ہے ‘ لہٰذا خطرناک اور زہریلے مادے رکھنے والے ڈرینج کا انفراسٹرکچر بہتر بنایا جائے اور صفائی ترجیحی بنیادوں پر اہتمام کیا جائے ۔ جب زندگی بچانے والوں کو زندگی کے لیے تباہ کن خیال کیا جائے ‘تو سمجھ لیں کہ اصل خطرہ وائرس سے نہیں‘ جہالت سے ہے۔ اس سے کٹر اور جامد سوچ ‘ اور معاشرے کا زوال کا اظہار ہوتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ زیادہ تر حکومتوں نے پولیو کے خاتمے کی مہم چلانے کی کوشش کی‘ لیکن جہالت اور لاعلمی کے خلاف کچھ نہ کیا گیا۔ جب اربوں روپے سڑکوں پر اُڑا دیے جائیں تو ان کے نیچے اورسیوریج پائپوں میں پلنے والے وائرس کو کیسے ختم کیا جاسکتاتھا؟
نتیجہ یہ نکلا کہ جس شہر لاہور ‘ پر انتہائی بجٹ لگادیا گیا‘ میں پانی جو ہم پیتے ہیں‘ جس ہوا میں ہم سانس لیتے ہیں‘ وہ سینے‘ پھیپھڑوں اور معدے کو متاثرکرنے والے جراثیموں اور معذور کرنے والے پولیو وائرس سے بھری ہوئی ہے ۔
ایک محاورہ ہے ''اگر پھل تبدیل کرنا چاہتے ہیں ‘تو جڑیں تبدیل کریں۔ ‘‘اب لوگوں پر منحصر ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں