مودی انتخابات کے بعد

''مودی ایک بار پھر‘‘ یہ نعرہ ایک حقیقت بن گیااور اسی کی توقع تھی ‘ لیکن بی جے پی کی بھاری اکثریت سے کامیابی غیر متوقع ہے ۔ بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال تھاکہ انتہائی دائیں بازو کا موقف‘ زراعت اور ملازمتوں کے شعبے میں ناقص کارکردگی اور اقلیتوں پر جبر‘ اُن کی کامیابی کے امکانات کم کردے گا‘ لیکن ہوا اس کے برعکس ۔مودی مہم کی کامیابی کا کافی دیر تک جائزہ لیا جاتا رہے گا‘ لیکن حقیقت اپنی جگہ پر موجود کہ مودی ایک دھماکہ خیز انداز میں واپس آچکے ۔ ہندوستان کی داخلی سیاست اور خارجہ پالیسی پر مودی کی کامیابی کی پرچھائیاں گہری ہوتی جائیں گی۔ زیادہ تر مبصرین کو خوف ہے کہ دائیں بازو کی کامیابی انڈیا کو دم توڑتے ہوئے سیکولر ازم سے مزید دور لے جائے گی۔ اس دوران قوم پرستی کے جذبات میں شدت آرہی ہے ۔ 
مودی کی کامیابی کئی حوالوں سے اہم ہے ۔ پہلی بات ‘ اس سے یہ معروضہ تقویت پاتا ہے کہ عالمی سطح پر دائیں بازو کی قیادت ابھر رہی ہے ۔ ٹرمپ اور بریگزٹ سے عالمی نظام میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی ۔ گلوبلائزیشن کے خلاف ایک طرح کی بغاوت پائی جاتی ہے‘ کیونکہ اس نے دنیا کو عدم مساوات سے دوچار کردیا ۔ گلوبلائزیشن کے رد ِعمل میں قوم پرست طاقتیں ابھر یں۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ اب مقا میت کاری (localization) کا دور ہے ۔ بڑی تعدا د میں بے روزگار ی اور عدم مساوات کے بڑھتے ہوئے رجحانات کی وجہ سے دوسرے خطوں سے آنے والوں اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں پر دروازے اور ذہن بند کرلیے گئے۔ آسٹریلیا اور اٹلی اور دیگر ممالک میں قوم پرست رائے دہندگان زور پکڑرہے ہیں۔ 
انڈیا کے انتخابات کا مطالعہ دلچسپ ہے ۔ مغرب کے برعکس جہاں ملازمتیں اور روزگار کے سمٹتے ہوئے مواقع کی وجہ سے رائے دہندگان غیرملکی تارکین ِوطن کا داخلہ روکنا چاہتے ہیں‘ بھارتی ووٹرز نے ان معاشی حقائق کو نظر انداز کرنا مناسب سمجھا۔ مودی نوجوانوں کو ملازمتوں کے مواقع فراہم کرنے میں ناکام ہوئے تھے۔ غریب کسان بھی مایوس تھے ۔ یہی وہ دو نکات تھے‘ جنہیں لے کراپوزیشن اپنی انتخابی مہم چلارہی تھی۔چالاک مودی جانتے تھے کہ وہ اپنی ناقص کارکردگی کا دفاع نہیں کرسکتے ؛چنانچہ انہوں نے ایسے مسائل کی گرد اٹھانے کا فیصلہ کیا کہ معاشی معاملات غیر اہم اور نظر وں سے اوجھل ہوجائیں۔ اُن کی مہم نے نیشنل سکیورٹی کو سب سے بڑا ایشو بنا ڈالا۔ دیگرتمام ایشوز پس ِ منظر میں چلے گئے۔ ایسی منطق پیش کی ‘جس کا مقابلہ ناممکن تھا۔جیسا کہ ''چوکیدار ‘‘ مہم کے ذریعے یہ باور کرایاکہ اُن سے بہتر انڈیا کا دفاع کون کرسکتا ہے؟زیادہ تر بھارتی شہریوں کیلئے اس قوم پرستی کو ٹھکرانا ناممکن تھا۔ راہول کی متذبذب اور مورثی سیاست کے مقابلے میں مودی کا طاقتور بیانیہ انتخابات میں بھاری کامیابی کی ضمانت بن گیا۔ 
یہاں کچھ سوالات پید ا ہوتے ہیں : کیا مودی اسی بیانیے ‘ جس نے اُنہیں فتح دلائی ہے ‘ کو جاری رکھیں گے؟ کیامودی پاکستان کے حوالے سے اپنی خارجہ پالیسی میں نرمی لائیں گے؟ کیا وہ بھاری اکثریت حاصل کرنے کے بعد بھی مذہبی کارڈ کھیلتے رہیں گے ؟ ان سوالوں کا جواب تو وقت ہی دے گا‘ لیکن نریندر مودی کی شخصیت اور تاریخ کو دیکھتے ہوئے کچھ تجزیہ کیا جاسکتا ہے ۔ جہاں تک فتح کا باعث بننے والے سکیورٹی بیانیے کو جاری رکھنے کا تعلق ہے‘ تو مودی جہاں تک ہوسکا‘ اسے طول دیں گے۔ معیشت میںبہتری ‘ا ور ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کیلئے وقت درکار ہوتاہے ۔ انہیں ایک بٹن دبا کر درست نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے مودی ممکنہ طور پروقت گزارنے کیلئے سکیورٹی کا بیانیہ جاری رکھیں گے۔ اس کا اثر لامحالہ پاک بھارت تعلقات پر بھی پڑے گا۔ 
بہت سے تجزیہ کارمحسوس کرتے ہیں کہ زیادہ سیکولر سوچ رکھنے والی کانگرس پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنے کا بہتر موقع پیش کرتی‘ تاہم بی جے پی اور کانگرس کاجائزہ لینے سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ اس حوالے سے ان دونوں میں زیادہ فرق نہیں‘ جس دوران بی جے پی کسی مخصوص خارجہ پالیسی کا ذکر نہیں کرتی‘ کانگرس کا منشور واضح طور پر '' پاکستان کو تنہائی سے دوچار کرنے‘ پاکستان کے اندر‘ جب ضرورت ہو‘ دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر محدود‘ یک طرفہ فوجی کارروائی کرنے‘‘ کا ذکرکرتا ہے ‘ تاہم مودی کے اقتدار میں غیر تحریر شدہ پالیسی‘ جس نے اُنہیں انتخابات میں بھاری کامیابی دلائی‘ ممکنہ طور پر جاری رہے گی ۔ پاکستانی وزیرِاعظم نے وزیراعظم مودی کو کامیابی کا فوری طور پر پیغام بھیجااور خطے میں امن اور خوشحالی کی خواہش کا اظہار کیا۔ مودی نے بھی شکریہ ادا کیا ‘ لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ محض رسمی معمول ہے ۔ 
دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کا سلسلہ بحال ہونے کی امید ہے ۔ بشکیک میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور سشماسوراج کی ملاقات سے اس کاعندیہ ملتا ہے۔ اُنہوں نے پاکستانی وزیر ِ خارجہ سے کنی کترانے کی کوشش نہ کی۔ماضی کی تلخیاں بھلانے کیلئے ایک دوسرے کو مٹھائی بھی پیش کی گئی ۔نریندر مودی نے اپنی وزیر اعظم کی حلف برداری کی تقریب میں پاکستانی وزیراعظم کو مدعو نہ کیا‘ نہ بشکیک میں ملے‘ لیکن بادل نا خو ا ستہ سہی بات چیت کے علاو ہ مودی کے پاس چا رہ نہیں۔ 
مودی کے پاکستان کے خلاف طاقتور بیانیے کو بے اثر کرنے کیلئے ہمارے پاس کیا آپشنز ہیں؟ یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے ۔ خیال کیا جاتا ہے کہ بہت بڑی مارکیٹ رکھنے والا انڈیا معاشی اور سیاسی طور پر چین کے مقابلے پر کھڑا ہونے کی سکت رکھتا ہے۔ ان حالات میں پاکستان سہ پہلو طرز ِعمل اختیار کرسکتا ہے :۔ 
1۔ معاشی محاذ پر بھارت کے ساتھ توازن قائم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ پاکستان پہلے اپنا گھر درست کرے اور اگلے دو سال کے اندر اند معاشی استحکام حاصل کرے ۔اس عرصے میں ہمہ گیرعالمی سفارت کاری کو متحرک کرنا ہوگا۔ چین‘سی پیک اور بی آرآئی سرمایہ کاروں کے لیے باعث کشش ہیں۔ ضروری ہے کہ پاکستان خود کو ان اقتصادی راہداریوں اورشاہراہوں کے ناگزیر گیٹ وے کے طور پرپیش کرے‘ اور اپنی پوزیشن سے فائدہ اٹھائے۔ 
2۔ سیاسی طور پر پاکستان کو علاقائی الائنسز میں اہم کردرا ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ او آئی سی کانفرنس‘ جس میں مشرقِ وسطیٰ میں جاری کشمکش اور تنازعات زیر بحث لائے جاتے ہیں‘ وہ فورم ہے‘ جس میں پاکستان متحارب دھڑوںکے درمیان ثالثی کا کردارادا کرسکتا ہے ‘ اسی طرح پاکستان کو عالمی معاہدوں میں تعاون کیلئے روس اور وسطی ایشیائی ریاستوں کی طر ف دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ 
3۔ پاکستان کو دہشت گردی کو کسی طور پربرداشت نہ کرنے کی پالیسی اپناناہوگی۔ایف اے ٹی ایف پر حکومت اقدامات اٹھارہی ہے۔ پاکستان بلیک لسٹ ہونے سے بچ گیا ہے او ر امید ہے گرے لسٹ سے بھی باہر آجائے گا۔ ان تمام معروضات کو عالمی اثر ورسوخ رکھنے والی طاقتوں تک پہنچانا ضروری ہے ۔ 
الغرض عالمی تعلقات میں بہتری کی ایک مربوط پالیسی استوار کرنے سے ہی پاکستان ان چیلنجز سے نبرد آزما ہوسکتا ہے ۔ بالاکوٹ واقعے پرپاکستان نے درست سفارت کاری‘ لابنگ‘ ابلاغ‘ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کو اپنا امن کا پیغام پہنچا یاتھا ۔ یہ بات نہایت اہم ہے کہ ہر آفت ایک چھپی ہوئی سہو لت بھی ہے ‘ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ہر مصیبت میں ایک موقع بھی ہوتا ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں