پاک افغان تعلقات کی گرمی سردی

لیڈز میں ہونے والے کرکٹ میچ میں شائقین کا جذباتی اشتعال اپنے عروج پر تھا۔ ہم نے بوتلیں اور کرسیاں اچھلتے دیکھیں۔عجیب غیرمناسب مناظر دیکھے ۔و ر لڈکپ‘ پا کستان کیلئے ختم ہو گیا‘لیکن کھیل کے میدان سے کچھ سیاسی سبق دے گیا۔شائقین پر چیزیں پھینکنے‘ ناروا نعرے لگانے اور حملے روکنے کیلئے سکیورٹی پولیس کو مداخلت کرنی پڑی۔ نہیں‘ یہ پاکستان اور انڈیا کا نہیں ‘ پاکستان اور افغانستان کا میچ تھا۔ یہ خوفناک مناظر ظاہر کرتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ان دونوں ممالک کے تعلقات میں کس قدر بگاڑ آچکا ۔ یہ تھاتو ایک کرکٹ میچ ‘ لیکن اس سے گہری نفرت اور دشمنی کے پریشان کن جذبات کا اظہار ہوتا ہے ‘ جس دوران ہماری توجہ کا ارتکاز لائن آف کنٹرول پر سرحد پار حملوں پر تھا ‘ افغانستان میں عوام کی بے چینی بھی ان دونوں ممالک میں شورش اور تشدد کا باعث بن چکی ۔ 
یہ کس طرح ممکن ہے کہ دو ممالک ‘ جن کی سرحدیں‘ تاریخ ‘ مذہب‘ جغرافیہ‘ زبان‘ سماجی رسم ورواج‘ اور تجارتی امکانات مشترکہ ہوں‘ اُن میں اتنی شدید دشمنی پیدا ہوجائے؟ لیکن یہ دشمنی کوئی فسانہ نہیں‘ ہماری آنکھوں کے سامنے جیتی جاگتی حقیقت ہے ۔ سرحد کے دونوں طرف ہونے والی غلطیوں کی وجہ سے بدگمانی کی خلیج وسیع ہوتے ہوتے نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ مشترکہ دشمنوں پر مشتمل ایک علاقائی بلاک وجود میں آچکا ۔ 
اس بدگمانی کے بیج برطانوی راج کے دوران انڈیا کے ساتھ لائن آف کنٹرول‘ اور افغانستان کے ساتھ ڈیورنڈلائن کی تقسیم کے ساتھ ہی بو دیے گئے تھے ۔ تقسیم کے فوراً بعد افغان حکام چاہتے تھے کہ پاکستان ڈیورنڈ لائن کے قریبی علاقے خالی کردے اور پشتون علاقوں سے دستبردار ہوجائے ‘ تاہم کراچی بندرگاہ سے ہونے والی تجارت پر انحصار کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے افغانستان اپنے مطالبے میں شدت نہ لایا۔ یہ ''جنگ بندی‘‘ 70 کی دہائی تک باقی رہی‘ لیکن مشرقی پاکستان کی علیحدگی نے افغانستان کے کچھ سیاسی دھڑوں کو سوچ دی کہ کیوں نہ انڈیا کے ساتھ مل کر بلوچستان اور این ڈبلیو ایف پی میں بھی ایسی تحریک برپا کی جائے ‘تاہم حقیقی کشمکش 80 کی دہائی میں‘ جبکہ پاکستان پر ضیا الحق کی تباہ کن آمریت مسلط تھی‘ دیکھنے میں آئی۔ سوویت فورسز کو افغانستان سے نکالنے کے لیے امریکی ڈالروں سے افغان مجاہدین کی فنڈنگ کی گئی۔ اس سے دونوں ممالک میں نام نہاد اسلامائزیشن کا ایک ایسا دور شروع ہوا‘ جوسرحد کے دونوں طرف تباہ کن ثابت ہوا۔اور ‘اب تک ثابت ہو رہا ہے 
جیسا کہ اس میں کچھ کسر باقی تھی‘ مشرف دور میں پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں اتحادی کے طور پر افغانستان پر حملے میں امریکیوں کا ساتھ دیا ۔ پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے ایجنڈے میں تین بنیادی غلطیاں کیں۔ سوویت جنگ میں شمولیت‘ اسلامی انتہا پسندوں کی حمایت‘ اور دہشت گردی کی جنگ میں شرکت‘ نے دونوں ہمسایوںکے درمیان اعتماد بالکل تباہ کردیا‘ ملک میںدہشت گردی کی آگ جلائی ‘ معیشت تباہ کی اوریوں خطے میں پاکستان مخالف بلاک قائم کردیا۔ 
افغانستان بہت حوالوںسے انڈیا سے زیادہ خطرناک مخالف ہے ۔ پاکستان تیس لاکھ افغان مہاجرین کو پناہ دیے ہوئے ہے۔ اُ ن کی آڑ میں بہت سے دشمن ملک میں سرایت کرسکتے ہیں۔ افغانستان کی سرحد کے جغرافیائی خدوخال ایسے ہیں کہ دہشت گردوں کی نقل وحرکت ‘ سمگلنگ اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہے ۔ افغانستان میں انڈیا اسرائیل گٹھ جوڑ نے اس کا فائدہ اٹھا یاہے ۔ ''دہشت گردی کی جنگ ‘‘ کی وجہ سے انڈیا اور اسرائیل افغانستان میں ہتھیار فراہم کرنے والے پارٹنر بن چکے ۔ اس حوالے سے تجزیہ کار امتیاز گل کا کہنا ہے '' اسرائیل کے تیار کردہ جاسوسی اور نگرانی کے جدید دفاعی آلات کا چالیس فیصد انڈیا میں آتا ہے ۔ انڈیا نے اسرائیل سے ایسے آلات کی خریداری پر دس بلین ڈالر خرچ کیے ہیں۔ حال ہی میںاسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے انڈیا کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھرپور حمایت کا یقین دلایا ہے‘ تاریخی طور پر ان دونوں ممالک کے تزویراتی مقاصد میں ہم آہنگی دکھائی دیتی ہے ۔ ‘‘
پاک افغان بدگمانی نے ان کے درمیان ہونے والی تجارت کو متاثر کیا ہے ۔ پاک افغان تجارتی حجم کا اندازہ دس بلین ڈالر ہے‘ لیکن دونوں حکومتوں کی پالیسیوں کی وجہ سے یہ محض 1.7 بلین ڈالر تک محدود ہوچکی ۔ تورخم بارڈ ر پر حالیہ دنوں ہزاروں کنٹینرز روک لیے جانے سے تاجروں کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ دونوں ممالک کے سیاسی تعلقات نہایت نچلی سطح پر ہیں۔او ر‘ اسی طرح معاشی روابط بھی ‘ لیکن پاک افغان تجارت یا تعلقات کوصرف دوطرفہ ایشو نہیں ۔ انڈیا‘ امریکہ اور چین بھی اس عمل کے اہم کھلاڑی ہیں۔چاہے ‘وہ اس میں سہولت کار بنیں ‘ یا رکاوٹ ڈالیں۔ 
افغان صدر اشرف غنی کا حالیہ دورہ ٔ پاکستان اعتماد سازی کی ایک اچھی کوشش ہے‘ لیکن یہ کافی نہیں۔ پاکستان کے پاس اس سے فائدہ اٹھانے کا موقع ہے ۔ پاکستان خطے کے تزویراتی امور کی بہتری کیلئے کبھی بہتر پوزیشن میںنہیں رہا۔ پاکستان کے موجودہ وزیر ِاعظم نے ہمیشہ مذاکرات کی حمایت کی۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں امریکہ‘ افغانستان ؛حتیٰ کہ پاکستان کی کچھ سیاسی جماعتوں کی ناراضی کا سامنا کرنا پڑا‘ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تمام کھلاڑیوں کو احساس ہوتا گیا کہ خطے میں استحکام کا واحد راستہ یہی ہے ؛ چنانچہ اب امکانا ت کی ایک اہم کھڑکی کھلی ہے ‘اسے بند نہیں ہونا چاہیے۔
واضح رہے کہ پاکستان کی توجہ کا ارتکاز اس کے علاقائی کردار پر ہونا چاہیے ۔ اس کے لیے اسے تین اہم کام کرنے ہوں گے:۔ 
1۔ پاک امریکہ تعلقات کو محض امریکی مفا د کی بجائے دوطرفہ مفاد میں ڈھالنا: امریکی خارجہ پالیسی افغانستان سے فوری‘ لیکن باعزت واپسی چاہتی ہے ۔ پاکستان قطر میں ہونے والے مذاکرات میں اہم کردار رکھتا ہے‘ اور اسے اپنا کردار برقرار رکھنا چاہیے ۔ آنے والے دنوں میں وزیراعظم عمران خان کا امریکی دورہ سیاسی جغرافیائی اثرورسوخ حاصل کرنے کی طرف ایک ہم قدم ثابت ہوسکتا ہے ۔ پاکستان کے پاس جرمنی کو وسیع تر کردار ادا کرنے پر آمادہ کرنے کا موقع ہے ‘ کیونکہ جرمنی اس بات چیت کا اہم سرپرست ہے ۔ اس سے ان مذاکرات کو یورپی یونین میں عالمی حمایت اور سہولت ملے گی۔ 2۔ افغان حکومت کو اعتماد میں لینا :صدر اشرف غنی کے حالیہ دورے سے کچھ برف پگھلنے کا امکان ہے ‘ تاہم پاکستان اور افغانستان کے درمیان وزرا کی سطح پر مزید ملاقاتوں کی ضرورت ہوگی‘ تاکہ تعلقات میں حائل خلیج کم ہوسکے۔3۔ عوامی سطح پر روابط: حال ہی میں بھوربن میں ہونے والی لاہور کانفرنس میں افغانستان سے ستاون گروپس نے شرکت کی۔ یہ تمام سٹیک ہولڈرز کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کا اچھا اقدام تھا۔ اس سے بھی اہم بات یہ کہ پاکستان کے امیج کی عالمی سطح پر تشہیر کی جائے کہ پاکستان دنیا کا وہ انتہائی انسان دوست اور مہربان ملک ہے ‘جس نے انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ مہاجرین کو پناہ دی ہے۔ اور‘ مہمان ِنوازی کا یہ سلسلہ چالیس برس پر محیط ہے‘ UNCHR نے اس کا اعتراف کیا ۔ پاکستان اس بات کو یقینی بنائے کہ افغانستان اور دنیا اس کی بے مثال مہمان نوازی ‘ انسانی ہمدردی اور حسن ِسلوک کی معتر ف ہو۔ 
یہ قدم آگے بڑھانے کا وقت ہے ۔ دونوں ممالک کے عوام کو ترقی یافتہ ممالک کی طرف دیکھنا اور ان کی سماجی ہم آہنگی سے سبق سیکھنا چاہیے ۔ لیڈز میں افغان کرکٹ ٹیم کے حامیوں کو دیکھنا چاہیے کہ کس طرح جنگ اور دشمنی نے ممالک کو تباہ کردیا ۔ اور‘ کس طرح امن اور بھائی چارہ رکھنے والے ممالک نے ترقی کی اور طاقتور عالمی کھلاڑی بن گئے ۔جس کھیل پر افغان ٹیم کے حامی شدت پسندی اختیار کررہے تھے‘ وہ انہوں نے پاکستان میں ہی سیکھی۔ اور‘ پاکستانیوں سے ہی سیکھی ہے ۔
الغرض ہمیں تاریخ سے سیکھنے‘ نہ کہ اسے دہرانے کی ضرورت ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں