پاک امریکہ تعلقات سیاسی مدوجزر

سیاست میں ایک ہفتہ بھی طویل عرصہ ہوتا ہے۔ جیوپالیٹکس میں ایک سال نہایت سرعت سے گزرجاتا ہے ۔ ابھی کل کی بات ہے کہ صدر ٹرمپ اور وزیراعظم عمران خان کے درمیان ٹوئیٹر جنگ جاری تھی ؛پاک امریکہ تعلقات تعطل کا شکار تھے ؛ لیکن چند ماہ بعد آج ہم دونوں رہنمائوں کے درمیان مفاہمت آمیز ‘ ساز گار ماحول میں ملاقات کی توقع کررہے ہیں۔ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ اس دورے سے بہت کچھ برآمد نہیں ہوگا ‘ کیونکہ امریکہ حکام پاکستان پر امداد ‘ تجارت اور تعاون کے دروازے بند ہوچکے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اُن کی بات درست ہو‘ لیکن اگر ہم دورے کا وقت‘ حالات اور اس کی علامتی اہمیت کو دیکھیں ‘تو یہ محض دوطرفہ مفادات سے کہیں بڑھ کرہے۔ 
پاکستان اور امریکہ کو بعض اوقات دوست نما دشمن قرار دیا جاتا ہے ۔ یہ دوستانہ مخاصمت گاہے شیریں ہوجاتی ہے‘ گاہے تلخ۔ روایتی طور پر پاکستان خطے میں مداخلت کے وقت امریکہ کا اتحادی رہا ہے ۔ سیٹو اور سنٹو کے زمانے سے ان کا الائنس قائم ہوا ۔ افغانستان میں 1978 ء میں انقلاب ِ ثور‘ اوردسمبر1979 ء میں سوویت مداخلت کے دوران پاک امریکہ تعلقات میں مزید قربت آگئی۔ یہ قربت پاکستان کی ڈالر پر مبنی معیشت کیلئے ساز گار ثابت ہوئی ‘ لیکن اس نے پاک افغان تعلقات کو تباہ کردیا۔ دوسری افغان جنگ کے دوران تعلقات میں پھر بہتر ی آئی؛ اس مرتبہ امریکہ کی طرف سے دست ِتعاون بڑھایا گیا۔ نائن الیون حملوں کے بعد پاکستان کو ''غیر نیٹو اتحادی‘‘ کا درجہ دیا گیا۔اس جنگ نے افغانستان کو تباہ کردیا‘ پاکستان کو نقصان پہنچایا‘ جبکہ امریکہ اپنے تمام تر علاقائی مقا صد حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ 
جس دوران امریکہ اور بھارت کے تعلقات میں گرم جوشی آرہی تھی‘ اس کے پاکستان کے ساتھ رویے میں سرد مہری آتی گئی ۔ پاکستان ڈرون حملوں کی ز د میں تھا‘ اس کی امداد کی کٹوتی کی گئی‘اور فنڈز روکے گئے۔ پاکستان سے بار بار ''ڈومور ‘‘ کا مطالبہ کیا جاتا رہا۔ٹرمپ نے اقتدار پر فائز ہوتے ہی ٹوئیٹر محاذ کھول لیا۔ پاکستان میں 2013 ء سے لے کر 2017 ء تک کوئی وزیر خارجہ نہیں تھا‘ اس لیے خارجہ پالیسی میں نمودار ہونے والے خلانے انڈیا کوموقع دیا کہ وہ امریکہ کے ذہن میں اپنا بیانیہ اتار سکے۔ امریکی تھنک ٹینکس نے بھی عدم اعتماد بڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا ۔ زیادہ تر امریکی سیاست دانوں کو یقین تھا کہ پاکستانی حکومت امدادی رقوم امداد فراہمی کی شرائط کے مطابق خرچ نہیں کررہی ۔ 
چنانچہ تعلقات کی تلخی کے تناظر میں ٹرمپ کی ایک اور توہین آمیز ٹویٹ حیران کن نہیں تھی ۔19 نومبر 2018 ء کو جب ٹرمپ نے ٹویٹ کیا ''ہم پاکستان کو اب اربوں ڈالر نہیں دیں گے ‘ کیونکہ وہ رقم لے لیتے ہیں اورکچھ نہیں کرتے‘‘ تو توقع تھی کہ پاکستان کے دفتر خارجہ کی طرف سے حسب ِمعمول ایک کھوکھلا سا‘ بے جان مذمتی بیان جاری ہوگا‘ لیکن اس مرتبہ نا صرف امریکہ‘ بلکہ پاکستانی بھی حیران رہ گئے ۔ وزیراعظم پاکستان کی طرف سے ٹویٹ پیغام آیا کہ ''ٹرمپ کے بے بنیاد مفروضے ہمارے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں‘ پاکستان نے امریکہ کی دہشت گردی کی جنگ میں جان ومال کی بہت بڑی قربانی دی ہے‘ پاکستان نے بہت تکلیف اٹھائی ہے ‘ اب ہم وہی کچھ کریں گے جو ہمارے عوام کے مفاد میں ہوگا۔‘‘امریکہ میں خاموشی چھا گئی۔ خارجہ پالیسی کے روایتی ماہرین خوفناک رد ِعمل کی توقع کررہے تھے ۔ ان کا خیا ل تھا وزیراعظم کے اس رد عمل کی وجہ سے دبائو کئی ایک اقدامات کی صورت سامنے آسکتا تھا‘لیکن نام نہاد ماہرین کے ڈرائوے کے برعکس کوئی دباؤ نہ آیا؛ امریکیوں کو پیغام مل گیاکہ یہ حکومت ''ڈومور‘‘نہیں کرنے جا رہی ۔ یہ پہلے اپنے عوام کا فائدہ دیکھے گی۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ امریکیوں کا افغانستان میں قیام تباہ کن ہوتا جارہا تھا۔ اب‘ جبکہ اُن کی توجہ ایران کی طرف بھی تھی‘ اُنہیں پاکستان کی ضرورت تھی ؛ چنانچہ انہوں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات میں پاکستان کے تزویراتی کردار کو دیکھتے ہوئے اپنا رویہ نرم کرلیا۔اس پس ِ منظر میں وزیر اعظم پاکستان کا آنے والے دنوں میں امریکی دور ہ بہت اہمیت اختیار کرچکا۔ تعلقات کی از سر نوبحالی کی باتیں ہورہی ہیں‘ لیکن اس مرتبہ تعلقات میں توازن اور دوطرفہ مفاد ہونا چاہیے ‘ تاہم دونوں ممالک کے رہنما ئوںکی پہلی ملاقات بہت ہمہ گیر‘ اور عظیم پیش رفت کی حامل تو نہیں ہوسکتی‘ لیکن اس سے باقی دنیا کی طرف اہم سگنل جائے گا کہ پاکستان کا خطے میں قد کاٹھ بڑھ رہا ہے ‘ لہٰذااس حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کے بحران کو کم کرنے کیلئے سہ پہلو طرز عمل درکار ہوگا:۔
1۔ تعلقات مشترکہ مقاصد پر استوار ہوں۔ بظاہر پاکستان اور امریکہ کے مفادات میں بمشکل ہی کوئی قدر مشترک پائی جاتی ہے ‘ لیکن اعتماد سازی کے طور پر علاقائی اور انفرادی سطح پر کچھ مشترکہ امکانات تلاش کیے جاسکتے ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیر ِاعظم عمران خان‘ دونوں نے جنگ کے خلاف بیانیہ ارزاں کرتے ہوئے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ افغان جنگ ایک غلطی تھی‘ اور وہ یقین دلاتے ہیں کہ امریکی افواج کو وہاں سے نکالیں گے ۔ وزیراعظم عمران خان نے ماضی میں اور انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ پاکستان کبھی بھی دوسرے ملکوں کی جنگیں نہیں لڑے گا۔اب ‘ جبکہ پاک امریکہ تعلقات استوار کرنے کا ایک مرتبہ پھر موقع ملا ہے ۔ یہ پیش رفت خطے میں امن قائم کرسکتی ہے ۔ 
2۔ پاکستان کا عالمی تاثر مثبت کر یں ۔ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پاکستان کی کوششیںنیشنل ایکشن پلان اور ایف اے ٹی ایف کا حصہ ہیں۔ بہت سے کالعدم گروہوں کے خلاف کریک ڈائون کیا گیا ۔ ان کاوشوں کے نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ امریکہ نے بھی بلوچستان میں تباہی پھیلانے والی دہشت گرد تنظیم کے خلاف بے مثال اقدامات اٹھائے ہیں۔ امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے بلوچستان لبریشن آرمی ( بی ایل اے) کو عالمی دہشت گرد گروپ قراردیتے ہوئے اقوام ِ متحدہ اور دیگر ریاستوں کیلئے ایسے اقدامات کی راہ ہموار کردی ہے ۔ ان دوروں کے دوران ان اقدامات کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے‘ تاکہ ستمبر میں ایف اے ٹی ایف کے جائزے میں پاکستان کا مثبت امیج سامنے آئے اور دنیا کو پتا چلے کہ پاکستان خطے میں دہشت گردی کے خاتمے ‘ا ور امن قائم کرنے کیلئے سنجیدہ کوشش کررہا ہے ۔ 
3۔ پاکستان کی نوجوان نسل کی معا شی فوا ئد کی مارکیٹنگ کیجیے : امریکی کی معمر ہوتی ہوئی آباد ی کے برعکس پاکستان نوجوان آبادی پر مشتمل ملک ہے ۔ یہ نوجوان آبادی ایک پرکشش سرمایہ ہے ۔ کئی امریکی برانڈز نے خطے کی دیگر بہت سی مارکیٹوں کی نسبت پاکستان میں بہت اچھا بزنس کیا ہے ۔ یہ اچھا موقع ہے کہ فوڈکمپنیوںکے علاوہ آئی ٹی کی دنیا کے عظیم ناموں کو بتایا جائے کہ انڈیا اور جنوبی ایشیاء کی دیگر مہنگی مارکیٹوں کے مقابلے میں پاکستان کتنا اچھا متبادل ہے ۔ 
الغرض پاکستان کے نئے عالمی کردار اور اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے وزیراعظم عمران خان کا یہ دورہ بے حد اہمیت رکھتا ہے ۔ دنیا کے سامنے ہر چھوٹے سے چھوٹا اقدام بھی کوئی نہ کوئی پیغام ضرور رکھتاہے ۔ یہ ملاقات پاک امریکہ تعلقات کے ''ایک کا فائدہ ‘ دوسرے کا نقصان‘‘ کے میزانیے کو بدل کرمتوازن تعلقات کی راہ ہموار کرسکتی ہے ۔ اس موقع پر سفارتی مہارت کے ساتھ باڈی لینگوئج کی بھی اہمیت ہوگی‘ حرکات و سکنات کا بہتر انداز اپناتے ہوئے طویل المدت تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوسکتا ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں