اُمت مسلمہ کی آواز

معلومات کو اپنی مرضی کے بیانیے میں تبدیل کرنے کے لیے امریکی میڈیا کا پلیٹ فورم استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔ اس فورم کے استعمال پر دنیا کے نسبتاً پسماندہ حصے میں ''سپرپاور ‘‘ کا ٹیگ لگاکر تنقید کرنا ایک پسندیدہ عمل ہے ۔ دنیا کو کنٹرول کرنے کے امریکی عزائم نے ایشیا‘ افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ممالک میں ناراضی کے جذبات پیدا کیے اور اس ناراضی کا جواز موجود ہے ‘ لیکن صرف ایک مخصوص حد تک۔ جب آپ کسی کی طرف ا نگلی ا ٹھا تے ہیں‘ تو باقی انگلیاں دراصل آپ کی طرف ہی اشارہ کررہی ہوتی ہیں۔یہ سادہ ‘ اور بار بار دہرایا جانے والا جملہ حقیقت پر مبنی ہے ؛ جب کسی مخصوص قوم یا گروہ کی آواز دیگر آوازوں پر غالب آجائے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ دیگر آوازیں کمزور اور بے جان ہیں۔ 
بر ِصغیر میں کشمیر بطور ایک فلش پوائنٹ سنجیدہ مسئلہ ہے‘ لیکن یہ عالمی طور پر اتنی سنجیدگی کبھی اختیار نہ کرسکا‘ جتنی آج۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ یہاں روانڈا یا فلسطین جیسے حالات ہیں‘ بلکہ اس لیے کہ اٹھنے والی آوازوں کو اتنا مدہم ‘بلکہ خاموش کردیا گیا ہے کہ یہ عالمی سماعت کو بیدار کرناتو درکنار‘ خطے میں بھی سنائی نہیں دے رہیں۔ تاریخی طور پر کمزور‘ نحیف و ناتواں اور سسکی بھرے احتجاج کا عالمی پالیسی سازوں کے ایجنڈے پر کوئی اثر نہیں ہوتا؛ چنانچہ جب وزیر ِاعظم مودی کو متحدہ عرب امارات میں اعلیٰ ترین سولین ایوارڈ‘ ''آرڈر آف زید‘‘ ملنے پر سخت حیر ت کا اظہار کیا گیا تو یہ دراصل مایوسی کااظہار زیادہ ‘ اور اسلامی دنیا کی بے حسی سے لاعلمی کا اعتراف کم تھا۔ اسلامی امت کی آواز کیوں نہیں سنی جاتی ؟ اس کی بہت سی وجوہ ہیں:
1۔ تیل کی فراوانی: بہت سے افراد سوال کرتے ہیں کہ کیا مشرق ِ وسطیٰ کے لیے تیل ایک نعمت تھا؟ اس کا جواب مثبت بھی ہے اور منفی بھی ۔ ایک حوالے سے تیل سے حاصل ہونے والی دولت نے جدت‘ اختراع‘ پیش رفت اور پائیدار ترقی کی رفتار سست کردی ۔ آسانی سے حاصل ہونے والی دولت کوشش‘ تخلیق اور اچھوتے خیالات کی ضرورت سے بے نیاز کردیتی ہے ۔ او آئی سی اور جی سی سی جیسے پلیٹ فورم رکھنے کے باوجود اسلامی دنیا عالمی دولت کا بہت حقیر سا حصہ پیدا کرتی ہے ۔ تیل کی دولت سے مالا مال سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات ‘ کویت اور قطر کی مجموعی پیداوار(اشیا اور سروسز‘ جس میں زیادہ تر تیل کی پیداوار شامل ہے) کا حجم 430 بلین ڈالر ہے ‘ جبکہ تھائی لینڈ کی پیداوار اور سروسز کا حجم 429 بلین ڈالر ہے ۔ 
2۔کم علمی و جہالت : آواز کے قابل ِ سماعت ہونے کے لیے اس کا بلند آہنگ ہونا ضروری ہے ۔ مغرب نے علم اور سوچ کو دو اہم طریقوں سے کنٹرول کیا ہے؛ تعلیم ‘ اور سائنسی ترقی۔ اسلامک ایجوکیشنل سائنٹفک اینڈ کلچرل آرگنائزیشن (ISESCO) کا کہنا ہے کہ اسلامی دنیا میں ناخواندگی کا تناسب مردوں میں 40 فیصد ‘جبکہ خواتین میں 65 فیصد ہے ۔ دنیا کی کل آبادی کا بیس فیصد‘ یعنی دنیا کا ہر پانچواں شخص مسلمان ہے ۔ ہر ہندو کے مقابلے پر دو مسلمان؛ بدھ مت کے ہر پیروکار کے مقابلے پردومسلمان‘ ہر یہودی کے مقابلے پر 107 مسلمان ہیں‘ لیکن اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود مسلمانوں کا عالمی سطح پرکوئی وزن نہیں ۔ 1500 ملین مسلمانوں کے مقابلے میں 14 ملین یہودی دنیا کو کنٹرول کررہے ہیں۔ 
3۔ اختراع کا فقدان: تعلیم کی کمی کا نتیجہ ایجادات اور اختراعات میں کمی کی صورت نکلتا ہے ؛ اور ان کے بغیر ترقی ناممکن ۔ خواندگی کی کمی کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم ناممکن ہے ؛ اور اعلیٰ تعلیم کے بغیر سائنس دان اور ارفع ذہنی صلاحیتیں رکھنے والے افراد پیدا نہیں ہوتے ۔ مسیحی دنیا کی 40 فیصد آبادی یونیورسٹی تعلیم حاصل کرتی ہے ‘ جبکہ اسلامی ممالک کی صرف 2 فیصد ۔ مسلم اکثریتی ممالک میں ایک ملین آبادی میں 230 سائنسدان ہوتے ہیں‘ جبکہ امریکہ میں ایک ملین آباد ی میں 5,000 سائنسدان ہیں۔ سائنسی تعلیم کے فقدان کی وجہ سے ٹیکنالوجی‘ معلومات اور جدید سازوسامان پر مغرب کی اجارہ داری ہے اور یہی مغرب کا تزویراتی ہتھیار ہے ۔ 
4۔ منقسم اور متحارب : اسلامی دنیا ‘اُسی طرح منقسم ہے جیسی برطانیہ چاہتا تھااور جس کی امریکیوں نے منصوبہ بند ی کی تھی ۔ ایران نے عشروں تک عراق کے خلاف جنگیں لڑی ہیں۔ اس وقت شام کی سرزمین پر امریکہ اور روس اپنے عسکری بازو آزمانے کے لیے مسلمان ممالک کو ایک دوسرے کے خلاف لڑا رہے ہیں۔ اس پس ِ منظر میں او آئی سی یا کسی اور فورم سے کوئی متفقہ بیان آنا ناممکن ہے ۔ اسلامی دنیا کو اس نہج پر بکھرا دیکھ کر بھارت‘ اسرائیل اور امریکہ جیسے ممالک نے بہت موثر ذرائع ابلاغ کو استعمال کرتے ہوئے اسلامک فوبیا کا ہوّا کھڑا کردیا۔ 
تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی حالات کے مطابق اسلامی دنیا کی سوچ تبدیل کرنے والی کوئی قیادت دکھائی نہیں دیتی ۔ اس ضمن میں اسلامی ممالک یہ کام کرسکتے ہیں:۔
1۔ او آئی سی کی اعلیٰ سطحی قیادت قائم کرنا: یہ تین سے پانچ اراکین پر مشتمل ایک کمیٹی ہو‘ جس کا کوئی متحرک کنونیئر ہو‘ اور وہ تزویراتی تصور کا مینڈیٹ رکھتا ہو‘تاکہ اسلامی ممالک کو دنیا کی ایک اہم فورس بنایا جاسکے ۔ یہ فورم ایسے اصول بھی وضع کرسکتا ہے کہ امیر ممالک غریب ممالک کی مدد کیسے کریں گے ۔ 
2۔ قیام ِ امن کا منصوبہ : کسی اسلامی ملک کے اندر پائی جانے والی کشمکش کو پہلے مذکورہ اعلیٰ سطحی کمیٹی طے کرنے کی کوشش کرے۔ اس کمیٹی کا مینڈیٹ اسے علاقائی تنازعات زیر ِ بحث لانے کے لیے کوئی طریق ِ کار وضع کرنے کا اختیار دیتا ہو۔اس طرح علاقائی تنازعات کے لیے مغربی ایجنڈا رکھنے والے فورمزکی طرف نہیں دیکھنا پڑے گا۔ 
3۔ تعلیم اور سائنس پر توجہ : جس طرح یورپی یونین نے وسیع تر اقتصادی تنوع کے لیے اپنے اراکین کی تعداد میں اضافہ کیا‘ اسلامی ممالک کو بھی سماجی اور انسانی وسائل کی ترقی کے لیے واضح معیار اپنانا چاہیے ۔ اعلیٰ سطحی کمیٹی کو اپنے تزویراتی اہداف کے لیے اہم اسلامی ممالک میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے مراکز قائم کرنا چاہیے ۔ 
4۔ عالمی سطح پر میڈیا آپریشنز : الجزیرہ میڈیا نے اچھا کام کیا ہے ‘ لیکن ترکی‘ ملائیشیا اور جنوبی ایشیا میں بھی میڈیا کے عالمی مراکز ہونے چاہئیں‘ نیز طاقتور ممالک کے میڈیا ہائوسز کو ان ممالک میں مراکز قائم کرنے پر آمادہ کیا جانا چاہیے ۔ 
یواے ای کے نریندر مودی کو ایوارڈ دینے پر شور وغل کا جواز ہے بھی اور نہیں بھی۔ اخلاقی بنیادوں پراس کا جواز ہے ‘ لیکن عملی اور معروضی حقائق کو دیکھتے ہوئے احتجاجی بے معنی ہے ۔ بھارتیوں کے بغیر یواے ای کی معیشت بیٹھ جائے گی‘کیونکہ یواے ای کی زیادہ تر مقامی آبادی بھارتی باشندوں پر مشتمل ہے ۔ ان صحرائی ریاستوں میں31 لاکھ کے قریب بھارتی شہری رہتے ہیں۔ ان میں عام مزدوروں سے لے کر کروڑ پتی‘ ہر طرح کے افراد شامل ہیں۔ 90 لاکھ کی آبادی رکھنے والی ان ریاستوں میں امارات کے صرف دس لاکھ باشندے ہیں۔ 
کہا جاتا ہے کہ جسماجی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ڈی این اے کو تبدیل کرنا پڑتا ہے ۔ اسی طرح امت ِمسلمہ کی خاموشی کو صدا میں بدلنے کے لیے اسلامی دنیا کی بنیادی سوچ بدلنی ہوگی ۔ متحارب‘ منتشر‘ رجعت پسند‘ تنگ نظر اور اندرونی خلفشار کا شکارڈیڑھ ارب انسانوں کو متحد‘ ترقی پسند‘ صاحب ِ نظر اورسوچ سمجھ رکھنے والے متحرک انسانوں کی ایک قوم میں ڈھالنا ہے ۔ انہیں تیل کی ختم ہوتی ہوئی دولت اورخوش قسمتی پر نازاں رہنے کی بجائے انسانیت کے اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد کرنے والے متحرک ‘ پر جوش اور بامقصد خطے میں ڈ ھا لنا ہوگا‘ تاکہ امریکی میڈیا کی اسلامی میڈیا بھی دنیا پر اپنااثرورسوخ قائم کرے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں