اقوام ِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں غیر معمولی کاوش

ہر سال ستمبر کے آخری ہفتے دنیا مل بیٹھتی ہے ۔ یہ اقوام ِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا ہفتہ ہوتا ہے ۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے‘ جب دنیا غربت سے لے کر سکیورٹی جیسے اہم ترین موضوعات پر بات کرتی ہے ۔ بہت سے افراد اس فورم کے موثر ہونے پر یقین نہیں رکھتے ‘ لیکن یہ فورم محض دنیا کے طاقتور افراد کی اسمبلی نہیں ہے ۔ اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے وہاں محض موجود ہونا یا رہنمائوں سے ملنا کہ کون کیا ہے ‘ کافی نہیں‘ بلکہ اس کی بجائے اس کی فعالیت کو سمجھنا اہم ہے‘ تاکہ اس کے فورمز کے ذریعے اپنی قوم کا مثبت اورسود مند تاثر قائم کیا جاسکے ۔ 
یو این جی اے کوئی عام اسمبلی نہیں‘ یہ اقوام ِ متحدہ کا واحد نمائندہ ادارہ ہے ۔دیگر اہم ادارے سلامتی کونسل‘ معاشی اور سماجی کونسل‘ سیکریٹریٹ‘ اور عالمی عدالت برائے انصاف ہے ۔ یو این جی اے دیگر تینوں اداروں پر بالا دستی رکھتی ہے ‘کیونکہ یہ سلامتی کونسل اور اقوام ِ متحدہ کے دیگر اداروں‘ جیسا کہ ہیومین رائٹس کونسل کے غیر مستقل اراکین کا انتخاب کرتی ہے ۔ یہ سلامتی کو نسل کی سفارش پر سیکرٹری جنرل کو نامزد کرتی ہے ۔ عالمی عدالت ِانصاف کے جج صاحبان کی تقرری اور مالیاتی بجٹ کا بندوبست کرنا بھی اس کے فرائض میں شامل ہے ۔گویا اس کی حیثیت نجی انٹر پرائز کی کارپوریٹ باڈی جیسی ہے‘ جو اعلیٰ سطحی تقرریوں اور مالیاتی فیصلوں کی نگرانی کرتی ہے ۔اس کی رکنیت بھی اہمیت رکھتی ہے ۔ اس کے اراکین کی تعداد 193 ہے اور ہر رکن کا جنرل اسمبلی میں ایک وو ٹ ہوتاہے ۔ ہر سالانہ اجلاس کے لیے اسمبلی کے صدر تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور ان کا انتخاب جنرل اسمبلی خود کرتی ہے ۔ اکثریتی وو ٹ اہم ہوتا ہے ‘ لیکن انفرادی ووٹ کی بھی اہمیت ہوتی ہے ۔ متنازع معاملات پر ووٹ حاصل کرنے کیلئے جانفشانی سے لابنگ کی جاتی ہے ‘ کسی موقف کی حمایت حاصل کرنے کیلئے بھرپور مہم چلانی پڑتی ہے ۔ تائیوان بیس سال تک اقوام ِ متحدہ کی رکنیت سے محروم رہا‘ کیونکہ سلامتی کونسل میں مستقل سیٹ رکھنے والے چین نے اس کی رکنیت پر اعتراض کیا تھا۔
اقوام ِمتحدہ ممالک کو کوئی خاص طرزِ عمل اختیار کرنے کا حکم نہیں دے سکتی‘ لیکن اس کا اثر ورسوخ ممالک کواقدامات سے باز رکھ سکتا ہے ۔ انسانی اقداراور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی حوصلہ شکنی کیلئے ماضی میں کچھ طاقتور قرار دادیں پیش کی گئیں۔ رکن ممالک مل کر کسی بھی رکن ملک کیخلاف کھڑے ہوسکتے ہیں۔ اسرائیل کو کئی سال تک اقوام ِ متحدہ کے کمیشنز اور پینلز میں خدمات انجام دینے سے روک دیا گیا‘کیونکہ یہ عہدے پانچ علاقائی گروہوں کی رکنیت سے الاٹ کیے جاتے ہیں۔ عرب ریاستوں نے اسرائیل کو ایشیاء پیسفک گروپ کی رکنیت حاصل نہیں کرنے دی۔ اس گروپ میں مشرق ِوسطیٰ کی دیگر ریاستیں شامل تھیں‘اسی طرح اگست 2012 ء میں جنرل اسمبلی نے 133-12 ووٹوں سے شامی حکومت کے اُن جابرانہ ہتھکنڈوں کی مذمت کی ‘جو مارچ2011ء کی بہار ِعرب کے بعد سے جاری تھے۔ الغرض یواین جی اے2019 ء دنیا ‘ بالخصوص پاکستان کیلئے انتہائی اہم رہا ‘ جیسا کہ دنیا کے ہر حصے میں یکطرفہ من مانیوں کا رجحان بڑھ رہا ہے ‘ یہ رجحان اقوام ِ متحدہ کے چارٹر اور اصولوں پر مبنی تکثیریت کی روح کی خلاف ورزی ہے ‘ جبکہ تمام ممالک نے اس چارٹر اور اصولوں پر دستخط کیے ہوئے ہیں۔ امریکہ اپنی مرضی سے ناپسندیدہ ممالک کیخلاف پابندیاں عائد کرکے اُنہیں عالمی تنہائی میں دھکیل رہا ہے ۔ یورپ کو بریگزٹ کی صورت ایک شدید معاشی اور سیاسی بحران کا سامنا ہے ‘ جبکہ برطانیہ میں قیادت کا بحران پیدا ہوچکا ۔ اٹلی کا جھکائو بہت واضح طریقے سے قوم پرستانہ نظریے کی طرف ہے ۔ نیوزی لینڈ نے اپنی تاریخ کی بدترین دہشت گردی کا سامنا کیا‘ جبکہ آسٹریلیا نے بھی قوم پرستی کے عام تصور کی راہ اپنا لی ۔لاطینی امریکہ کے ممالک‘ جیسا کہ ارجنٹائن اور ونزویلا کو شدید معاشی گراوٹ اور سیاسی مداخلت کا سامنا ہے‘ تو مشرق ِوسطیٰ میں پرانی کشمکش نئی شدت سے ابھر آئی ہیں‘تاہم کوئی بھی خطرہ اتنا مہیب اور واضح نہیں‘ جتنا کشمیر پر پاکستان اور انڈیا کا تنازع۔ مود ی نے بہت ڈھٹائی کے ساتھ اقوام ِ متحدہ کے چارٹر ‘ جو کشمیریوں کو حق ِ خود ارادیت دیتا ہے‘ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ‘اس پر زبردستی قبضہ کرلیا۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ اس وقت کشمیر ایک انسانی جیل میں تبدیل ہوچکا ۔ اس کے اپنے شہری قیدیوں کی سی زندگی بسر کررہے ہیں۔ پاکستان نے بھرپورجارحانہ سفارت کاری کے ذریعے دنیا کو یہاں رونما ہونے والے انسانی بحران‘ اور اُس ممکنہ خطرے سے آگاہ کیا ‘جو پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے ۔ پاکستان نے بھارتی جارحیت کیخلاف دنیا کی حمایت حاصل کرنے کیلئے یواین جی اے کا سٹیج استعمال کیا ۔ مذکورہ بالا اجلاس سے جتنا استفادہ کرنا تھا‘ کیا جا چکا۔ اب‘ پاکستان کو کچھ اضافی اقدامات بھی کرنا ہوں گے: ۔ 
1۔ دنیا کے شہریوں کے نام خط: کہا جاتا ہے کہ خط لکھنے کا رواج متروک ہوچکا۔ اس کی جگہ واٹس ایپ‘ ٹوئٹر‘ فیس بک اور دیگر فورمز نے لے لی ہے ‘تاہم یہ فورمزغیر سنجیدہ سمجھے جاتے ہیں۔ سنجیدہ نتائج کے حامل معاملات کے لیے ابھی بھی خطوط کی اہمیت باقی ہے ۔ کسی مخصوص شخص یا گروپ کے نام مخصوص موضوع رکھنے والے خطوط لکھے جاتے ہیں‘جو درپیش معاملات کو اجاگر کرتے ہیں۔ان میں اقدامات کرنے کی درخواست کی جاتی ہے ۔ ان کے ذریعے آگاہی‘ تاکید اور تلقین کی جاتی ہے ۔ سیاسی رہنمائوں اور اراکین ِ پارلیمان کے تحریر کردہ خطوط کے ذریعے مسئلہ کشمیر پر یاددہانی کرائی جائے گی۔ پاکستان کے وزیراعظم اور وزیرخارجہ نے اقوام ِ متحدہ اور اداروںکوخطوط لکھنا شروع کیے ہیں۔ برطانوی اور امریکی اراکین پارلیمان اور سینٹرز نے بھی ایسا کیا ہے ۔ وزیراعظم پاکستان نے کشمیر پر ایک شاندار مضمون لکھا ‘جو نیویارک ٹائمز میں شائع ہوا۔ وزیراعظم عمران خان کو دنیا کے شہریوں کے نام ایک اور خط لکھ کر بتانا چاہیے کہ مسئلہ کشمیر سیاسی تنازع سے زیادہ انسانی المیہ ہے اوروہ کشمیر میں محصور ایک بچے‘ ایک عورت‘ ایک بہن‘ ایک والد‘ ایک والدہ کے دکھ کو محسوس کریں۔ 
2۔ نفسیاتی جنگ میں شدت لائیں: پاکستان دبائو ڈال رہا ہے اوراس دبائو کو یواین جی اے کے بعد بھی بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ یہ اعصاب کی جنگ ہے ۔ پاکستان کا مودی اور ہٹلر کا موازنہ مغرب کے اعصاب پر درست طریقے سے ضرب لگارہا ہے ‘ یہاں تک کہ مودی کو صدر ٹرمپ کے سامنے اس کی شکایت کرنی پڑی۔ لنڈسے گراہم اورشیلا جیکسن جیسے رائے سازوں کے ساتھ مل کر بھرپور لابنگ کی گئی‘ جو کہ ناگزیر تھی۔اب پمفلٹ اور سوشل میڈیا کو موثر طریقے سے استعمال کرتے ہوئے ان ممالک کے ضمیر کو مزید جھنجھوڑا جائے ‘جو غیر جانبدار ہوکر ایک طرف بیٹھے ہیں۔ 
3۔ لیڈرشپ نیٹ ورکنگ اور فورمز : ہوسکتا ہے کہ سائیڈ لائنز پر ہونے والی میٹنگز سے کوئی نتائج برامد نہ ہوتے ہوں‘ لیکن ان کی علامتی اہمیت سے انکار نہیں ۔ اس طرح کی بہت اہم ملاقاتیں مستقبل میں بھی کی جائیں۔ اس کے لیے ایجنڈا روزانہ کی بنیاد پر طے کیا جانا چاہیے۔ یہی تیاری اس بات کا تعین کرے گی کہ دنیا کی حمایت حاصل کرنے کی جنگ کون جیت رہا ہے ؟کچھ دیگر فورمز ‘ جیسا کہ نفرت انگیز تقاریر کیخلاف فورم‘ جس کی مشترکہ میزبانی پاکستان اور ایتھوپیا کے پاس ہے ‘ اس بیانیے کو توانا کرنے کے لیے اہم رہے اور انہیں مزید موثر رکھنے کی ضرورت ہے۔ مودی کی نفرت انگیز تقاریر کو موضوع بنایا جائے ‘تاکہ دنیا کو باور کرایا جاسکے کہ یہ سب انڈیا کے متعصبانہ رویہ ہے۔ 
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان نے یواین جی اے کے اجلاس میں اپنے موقف کی ترویج کرتے ہوئے عالمی حمایت اور نتائج حاصل کیے۔ اس کے لیے وزیر اعظم عمران خان نے غیر معمولی کاوش دکھائی ۔ گزشتہ چھ ہفتوں سے انڈیا دفاعی قدموں پر ہے ؛ الغرض پاکستان کی طرف سے یواین جی اے کے سٹیج سے اس پر فائنل ضرب لگائی جا چکی۔اب‘ کشمیریوںکو اپنی مرضی سے رہنے‘ بولنے ‘ حرکت کرنے اور جس کے ساتھ چاہیں ‘ ملنے کاحق لے کر دینا ہو گا ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں