پاکستان ‘ ترکی ملائیشیا …مشترکہ آواز

آواز ایک طاقت ہے ۔ بلند اور انتہائی دہرائے جانے والی آواز اثر رکھتی ہے ۔ پیغامات ‘ اشتہارات‘ بریکنگ نیوز اور بیانات سے گونجتی دنیا میں معلومات سے بوجھل ذہن کی یادداشت اور توجہ امتحان میں پڑ گئی ہے ۔ ذہن پر ہمہ وقت ہونے والی لفظی اور بصری یلغارکے اس معرکے میں قائل کرنا ایک فن ہے ۔ بیانیہ تشکیل دینا‘ پھیلانا ‘ لوگوں کو اس پر غورکرنے ‘ اس کا تجزیہ کرنے اور تاثرات سے تصورات کشید کرنے کی ترغیب دینا ‘ایک سائنس بن چکا ہے ۔ کاروبار کی دنیا میں یہ ایک معمول کی آسان سرگرمی ہے ‘کیونکہ سامعین محدود اور شناخت شدہ ہوتے ہیں۔ سیاسی دنیا میں یہ کام بے حد پیچیدہ ہے ۔ دُورداز بکھرے ہوئے سامعین تک پیغام پہنچانا‘ اور اُنہیں متاثر کرنا ایک مشکل اور مہنگی تدبیر ہے ۔ 
پاکستان ‘ ترکی اور ملائیشیا کے سربراہان کے ایک حالیہ بیان کے مطابق‘ تینوں ممالک مشترکہ طور پر ایک ٹیلی وژن چینل قائم کریں گے‘ جس کا مقصد اسلام کی صحیح روح کو اجاگرکرنا اورمعاشی اور سیاسی سکت بڑھانے کیلئے دنیا تک اپنی آواز پہنچانا ہوگا۔ اس اقدام کی شدت سے ضرورت محسوس کی جارہی تھی‘ تاکہ اسلامی دنیا کی نظر انداز کردہ کاوشوں کو سنا اور سمجھا جائے ‘ اور انہیں بھی دنیا کے معاملات میں ایک قابل ِ احترام فریق گردانا جائے ‘ جس دوران عالمی ابلاغ میں اپنی نمائندگی کرنے کیلئے مغربی دنیا نے بی بی سی اور سی این این انٹرنیشنل قائم کیے ‘ اسلامی دنیانے عالمی سماعتوں تک رسائی کے لیے کچھ نہ کیا۔ عالمی سطح پر اہمیت رکھنے والا خطے کا واحد چینل الجزیرہ ہے ۔ 
بی بی سی کے عربی زبان کے سٹیشن کی بندش کے بعد اوربیٹ کمیونی کیشن کمپنی کے اشتراک سے الجزیرہ سیٹیلائٹ چینل یکم نومبر 1996 ء میں شروع کیاگیا ۔ سیٹیلائٹ کے ذریعے الجزیرہ کی رسائی نے مشرق ِ وسطیٰ میں ٹیلی وژن نشریات کی روایت بدل کررکھ دی ۔ الجزیرہ نے آزادیٔ اظہار کا ایسا معیار متعارف کرایا‘ جس کا خطے کے بہت سے ممالک میں خواب تک نہیں دیکھا جاسکتا تھا۔ اس سے پہلے مشرق ِوسطیٰ کے شہری اپنے قومی ٹیلی وژن چینلوں کے علاوہ کوئی چینل نہیں دیکھ سکتے تھے۔ اس دلیر چینل نے سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات ‘ کویت‘ بحرین اور خود قطر کے کئی متنازع گوشوں کو اجاگر کرنا شروع کردیا۔ ناقدین نے اس پر تعصب اور ہیجان خیزی برپا کرنے کا الزام لگایا۔ 
الجزیرہ کے دنیا بھر میں 80 کے قریب دفاتر ہیں؛ مغربی میڈیا اس کے کثرت سے حوالے استعمال کرتا ہے ‘ باایں ہمہ مشرق ِوسطیٰ میں اس کی قبولیت متنازع ہے ۔ اس کی وجہ خطے کے ممالک کے درمیان سدابہار سیاسی کشمکش ہے۔ 2017 ء میں قطر اور سعودی عرب کے درمیان پیدا ہونے والے سفارتی بحران کانشانہ الجزیرہ بنا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے چینل پر ''دہشت گردوں ‘‘ کے نظریات کو ترویج دینے کا الزام لگاتے ہوئے اس کا ریاض دفتر بند اور اس کی نشریات کا لائسنس معطل کردیا۔ اردن نے بھی الجزیرہ کا لائسنس ساقط کردیا۔ سعودی عرب نے ہوٹلوں کو الجزیرہ کی نشریات دکھانے سے روک دیااور اس حکم کی خلاف ورزی پر 26,000 ڈالر تک کے جرمانے کیے گئے ۔ چھ جون 2017کو الجزیرہ کے تمام پلیٹ فورمز پر سائبر حملے کیے گئے ۔ یہ سعودی عرب کی طرف سے قطر کے ساتھ روابط منقطع کرنے کے چند دن بعد کی بات ہے ۔ 
چنانچہ اقوام ِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی سائیڈ لائن ملاقاتوں کے دوران جب وزیراعظم عمران خان نے پاکستان‘ ترکی اور ملائیشیا کے اشتراک سے بی بی سی کی طرز کا ایک انگریزی چینل شروع کرنے کا اعلان کیا تو اسے ایک اہم پیش رفت قراردیا گیا۔ اب‘ اس مشن کو احتیاط اور سو جھ بوجھ کے ساتھ درست سمت میں چلانے کی ضرورت ہے ۔ وزیر ِاعظم عمران خان نے ٹویٹ کیا : ''صدر اردوان‘ وزیر اعظم مہاتیرمحمد اور میں نے ایک ملاقات کی ‘جس میں ہم نے فیصلہ کیا کہ تینوں ممالک مل کر ایک انگریزی چینل شروع کریں گے ‘تاکہ اسلاموفوبیا کے چیلنج کا مقابلہ ‘ اور ہمارے عظیم مذہب‘ اسلام کے بارے میں پھیلے ہوئے منفی پراپیگنڈے کا تدارک کیا جاسکے ۔ ‘‘
ترکی کے پریذڈینسی کمیونی کیشن کے ڈائریکٹر Fahrettin Altun نے انادولو ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا: ''ہم یقین رکھتے ہیں کہ ایک عالمی برانڈ قائم کیا جائے گا۔ دراصل ہم اسلامو فوبیا کا تدارک کرنے کے لیے ایک میڈیا اور کمیونی کیشن سنٹر قائم کریں گے ۔ یہ ڈیجیٹل پلیٹ فورم سوشل میڈیا کے لیے ویڈیوز ‘ دستاویزی فلمیں اور ویڈیو نیوز پیش کرے گا۔ ‘‘ان تینوں ممالک کے اشتراک سے طے پانے والا معاہدہ ایک اہم پیش رفت ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ تینوں ممالک نے تصورات کی جانچ کیلئے ایک مطالعاتی گروپ تشکیل دیا ہے ۔ انہوں نے اپنی بات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ طیب اردوان کے پاکستان کے دورے (23-24 اکتوبر) کے دورے سے پہلے‘ اس کا بنیادی کام مکمل کیا جائے گا۔ اسلامی دنیا کی موثر آواز کے لیے ایسی ہی کسی کاوش کی ضرورت تھی ۔ مطالعاتی گروپ کو مندرجہ تین امور کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے :
1۔ مذہبی وابستگی سے بالاتر چینل: اگرچہ چینل کے قیام کا ابتدائی مقصد اسلامو فوبیاکا متقابل بیانیہ تشکیل دینا ہے ‘ لیکن اس کے لیے کیے جانے والے مطالعے کا تصور اس سے کہیں بڑھ کر ہونا چاہیے ۔ اسے وژن‘ مشن اور اقدارکو اپنے پیش ِ نظر رکھنا چاہیے۔ اس کا مشن مسلمانوں‘ خاص طور پر دنیا کے درمیان مذہبی ہم آہنگی تشکیل دینا ہونا چاہیے ۔ تزویراتی فریم ورک میں رواداری‘ امن ‘ راست بازی اور مساوات جیسی اسلامی اقدار پر تواتر سے بات ہونی چاہیے‘ تاکہ نا صرف اسلام کے بارے میں غیر مسلم کمیونٹی میں پائے جانے والے تاثرات تبدیل کیے جاسکیں‘بلکہ خود اسلامی دنیا کے طرز ِعمل کو بھی حقیقت پسند بنایا جائے ۔ 
2۔ ایک پیشہ ور عالمی نظام اور ڈھانچہ: ضروری ہے کہ چینل کا انداز ایسا ہو کہ اس پر محض تبلیغ کی چھاپ نہ لگ جائے ۔ عالمی چینلز اور اُن کے نظام کا مطالعہ کرتے ہوئے اُن کے معیار کو سامنے رکھا جائے ۔ صرف معیار کے ساتھ ہی عالمی ناظرین کی توجہ حاصل کی جاسکتی ہے اور یہ ایک مشکل مسابقت ہوگی۔ سی این این اور بی بی سی کا سا نظام اور سٹاف حاصل کرنا ضروری ہوگا؛ تب ہی چینل رائے سازی کی دنیا میں قدم رکھ سکے گا۔ 
3۔ عالمی کشش رکھنے والا مواد: خبر تازگی ‘ نئی تحقیق اورپرکشش مواد رکھتی ہے ‘ ورنہ وہ خبر کہلانے کے لائق نہیں ہوتی ۔ نئی نسل کے ناظرین سوشل میڈیا کی دنیا میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ وہ کسی بھی یک طرفہ جھکائو رکھنے والے ایجنڈے کو خاطر میں نہیں لائیں گے ؛چنانچہ پرمغز مباحثے‘ متنازع اور جاندار موضوعات ‘ تفریح‘ جدت اور تجارت کوسامنے رکھتے ہوئے پروگرامنگ کرنی ہوگی ۔ حکمت ِعملی یہ ہو کہ ناظرین کے سامنے پہلے پرکشش ‘ باوثوق اور ٹھوس مواد پیش کیا جائے ۔ ایک مرتبہ جب وہ اس چینل کی ساکھ پر اعتماد کرنے لگیں تو پھر غیر محسوس انداز میں اُن کی سوچ کو بدلنے کی کوشش کی جائے ۔ 
کاٹھ کباڑ‘غیر ضروری مواد‘ شور‘ چیخ و پکار سے لبریز اس دنیا میں ایسا بصری اور صوتی معیارقائم کرنے کی ضرورت ہے ‘جو مختلف سٹیک ہولڈرز کے دل ودماغ کو فتح کرلے۔ذہن مائوف کردینے والی مسابقت کی دنیا میں مشترکہ کمیونی کیشن نیٹ ورک کے تصور کو عملی جامہ پہنانا اور اس کے ذریعے تزویراتی مقاصد حاصل کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے ۔ اس کی پالیسی تو یقینا ملائیشیا ‘ پاکستان اور ترکی کے سیاسی ایوانوں میں ترتیب پائے گی‘ لیکن مقامی فعالیت کی حامل عالمی سوچ کو عملی شکل میں پیش کرنے کے لیے اس شعبے کے چوٹی کے ماہرین کی خدمات درکار ہوںگی۔
الغرض ‘اپنیــ ـ سوچ اورآواز کوموثر بنانے کے اصول پرعمل لازمی ہے ۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں