100 روزہ قید

قید کے100 دن گزر چکے ۔ظلم کی سیاہ رات ختم نہیں ہوئی‘ بلکہ اس کی ہولناکی میں اضافہ ہورہا ہے ۔ کشمیر‘ انسانیت‘ تہذیب‘ سب کچھ محاصرے میں ہے ۔قانون نامی کوئی چیز نہیں۔ کشمیر خبروں میں ہے‘ لیکن وہاں سے کوئی خبر نہیں آرہی۔ زندگی کے مواقع کی بجائے بے کسی زندگی کا معمول بن چکی ہے اورانسانوں کی اس سے زیادہ بے بسی ہونہیں ہوسکتی۔ کشمیر کی آواز دبا دی گئی ہے؛چنانچہ کشمیر میںڈھائے جانے والے جبر کے بارے میں لکھنا‘اسے موضوع گفتگو بنانا‘ اس پر بحث کرنا لازمی ہوچکا ‘ کیونکہ جب تک لوگوں کے ذہنوں کو اس کی صورت ِحال سے آگاہ نہیں کیا جائے گا‘ اُن کے دل ا س کے لیے نہیں دھڑکیں گے‘ وہ اس کے لیے کھڑے نہیں ہوں گے۔سوچ کا تازیانہ ہی جذبات کو مہمیز دیتا ہے ۔ 
عالمی انسانی حقوق واچ کی حالیہ رپورٹ کشمیرمیں ظلم و ستم کی ذمہ دار بھارتی حکومت کے منہ پر ایک تھپڑ ہے۔ یہ رپورٹ جہاں کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو اجاگر کرتی ہے‘ اہم بات یہ ہے کہ یہ پاکستانی موقف کی حمایت کرتی ہے ۔ رپورٹ واضح طور پر کہتی ہے کہ بھارتی سکیورٹی فورسز ظلم و زیادتی کی ذمہ دار ہیں۔ بھارت کی طرف سے پاکستان کومورد ِ الزام ٹھہرانا سچ کو جھٹلانے کے مترادف ہے ۔ درحقیقت یہ پاکستان کی بہت بڑی اخلاقی فتح ہے ‘کیونکہ اس سے پہلے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے تشدد پر نا صرف بھارتی ‘بلکہ عالمی میڈیا بھی پاکستان مورد ِالزام ٹھہراتا تھا۔ 
آج ‘جبکہ کشمیر کو قید ہوئے100 دن سے زیادہ ہوچکے ہیں‘ محاصرہ ختم کرنے سے بھارتی انکار نے خطے میں ڈھائے جانے والے غیر انسانی مظالم پر غیر معمولی عالمی توجہ مرکوزکردی ہے ۔ انسانی حقوق واچ کی رپورٹ بہت اہمیت کی حامل ہے‘ کیونکہ یہ واضح طور پر ریاست کو تشدد کا ذمہ دارٹھہراتی ہے ۔ رپورٹ کہتی ہے : ''بھارتی سکیورٹی فورسز اکثر اوقات ہجوم کو کنٹرول کرنے کے لیے انتہائی زیادہ قوت ‘ بشمول پیلٹ گنز کا استعمال کرتی ہیں۔ اس کی وجہ سے کئی ایک مظاہرین جاں بحق اور بہت سے دیگر شدید زخمی ہوچکے ہیں۔ ‘‘
بھارتی حکومت بہت پراعتماد ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ معاملہ ٹھنڈا پڑ جائے گا۔ تسلسل اور تواتر اسے ایک معمول بنا کر بریکنگ نیوز کی صف سے نکال کر سرد خانے میں ڈال دے گا۔ وہ دنیا کی بے حسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ غیر انسانی اور پر تشدد حربے استعمال کرنے پر اتر آئے ہیں۔انسان کی اجتماعی یادداشت کے عارضی پن پر مستقل تکیہ کرتے ہوئے بھارت یقین رکھتا ہے کہ دنیا پرانی اور بے جان خبروں کو خاطر میں نہیں لائے گی ‘ لیکن بشری نسیان کے باوجود کشمیر کی خبریں اتنی نوکدار ہیں کہ عالمی ضمیر کے لیے ان سے بے حسی اختیار کرنا ممکن نہیں۔ یہ خبر دنیا کی نیند اُڑانے کے لیے کافی ہونی چاہیے کہ ایک ریاست خود ہی دہشت گردی میں ملوث ہے اور ایسا کرتے ہوئے وہ ایک ممکنہ خانہ جنگی کو دعوت دے رہی ہے ۔ امریکی کانگرس کو پیش کی گئی انسانی حقوق واچ کی رپورٹ صاف کہتی ہے : ''انسداد ِ دہشت گردی کی کارروائیوں کے دوران انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر بھارتی فوجی دستوں کو بمشکل ہی کبھی ذمہ دار ٹھہرایاجاتا ہے۔‘‘
ان 100 دنوں میں مودی کے جبر و تشدد کے بہت سے پہلو سامنے آئے ہیں۔ آرایس ایس اور مودی کا نازی پارٹی اور ہٹلر سے موازنہ بہت برمحل ہے ۔ مودی کی ہٹلر سے تشبیہ نے یورپی اور عالمی میڈیاکے کان کھڑے کردیے۔ اس مشابہت پرمتعدد مضامین لکھے گئے ۔ 1920 ء میں ہٹلر نے نازی پارٹی کی بنیادرکھی‘ جبکہ آرایس ایس 1925 ء میں قائم کی گئی۔نازی اور آرایس ایس کی فعالیت میں مماثلت ہے ۔ایک نے یہودیوں کی نسل کشی کی‘ دوسری نے مسلمانوں کی ۔اس پہلو کو اجاگر کرنے سے بہت سے اہم ممالک نے کشمیر کی طرف توجہ دینا شروع کردی۔ جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے بھارتی دورے کے دوران کشمیر پر بہت کھل کربیان دیا؛ حتیٰ کہ اسرائیلی اخبارات نے بھی اسے کوریج دی۔اس طاقتور اور موثر بیانیے کو زندہ رکھنے‘ اور آگے بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ 
سوشل میڈیا پلیٹ فورمز سے نسل پرستی اور نسلی عصبیت کو اجاگر کیا جانا چاہیے ۔ دکھایا جائے کہ مودی ہندوتوا کے نظریات کے مطابق خطے میں ہندو بالا دستی کی راہ پر گامزن ہے ۔ یہودیوں کی نسل کشی‘ اور گجرات اور کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کو سمینارز اور میڈیا کے ذریعے دنیا کی سامنے پیش کیا جاتا رہے ‘تاکہ سوسائٹی اور میڈیا پر جمی بے حسی کی برف پگھلائی جاسکے ۔تھنک ٹینکس اور محققین کے سامنے یہ حقیقت رکھی جاتی رہے کہ ہٹلر کی نازی پارٹی کی طرح مودی بھی معاشرے پر اپنی سوچ مسلط کرنے پر تلا ہوا ہے ۔ ہٹلر کا ''عظیم جرمنی‘‘ کا تصور آج مودی کے ''عظیم انڈیا ‘‘ میں صورت اپنی تمام تر ہولناکیوں کے ساتھ دنیا کے سامنے موجود ہے ۔ ان دونوں کے درمیان مہیب مماثلت روز ِروشن کی طرح عیاں ہے ۔مودی کے عظیم بھارت سے بھی دنیا کو اتنا ہی بڑا خطرہ لاحق ہے ‘جتنا ہٹلر کے نازی جرمنی سے تھا ۔ 
اس کے بعد گزشتہ 100 دن کے اندر مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین پامالی کو اجاگر کرنے کے لیے ایک بھرپور مہم چلائے جانے کی ضرورت ہے ۔ بنیادی انسانی حقوق کی معطلی پر بہت سے ممالک نے تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ اس وقت کشمیر میں کم و بیش تمام حقوق سلب کیے جاچکے ہیں۔ اظہار کرنے‘ جمع ہونے‘احتجاج کرنے ‘ تعلیم حاصل کرنے ‘ صحت کی سہولت تک رسائی جیسے تمام حقوق گزشتہ100 دنوں سے معطل ہیں۔ انسانی حقوق واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس پر رپورٹس پیش کی ہیں۔ ایسی بہت سی دیگر تنظیموںنے ان موضوعات پر بات کی ہے ۔ 
پاکستان نے اقوام ِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر کے تناظر میں انسانی حقوق کے مسلے کو اٹھایا‘ جس نے روایتی طور پر لاتعلق رہنے والے ممالک کو بھی متاثر کیا ۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے عالمی شہرت یافتہ کارکنوں کی اس طرف توجہ دلائی جائے ۔ اداکارہ انجلینا جولی اور گلوکار U2 سماجی موضوعات پر بات کرتے رہتے ہیں۔ انہیں بھی کشمیر کے مسئلے پرآگاہی دی جائے ۔
بچوں کے مصائب پر دنیا ضرور توجہ دیتی ہے ۔ گزشتہ 100دنوں سے مقبوضہ وادی میںنہاصرف تعلیمی ادارے بند ہیں‘ بلکہ بچوں کی کھیل کود سمیت دیگر جسمانی سرگرمیاں بھی معطل ہیں۔ یونیسیف کو بہت سے خطوط لکھے گئے ہیں‘لیکن اُن کی طرف سے تاحال کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ۔ سوشل میڈیا پر ایسی مہم چلائی جائے‘ جس میں بچے کشمیر ی بچوں کے ساتھ اظہار ِ یکجہتی کررہے ہوں۔ اس سے انسانی حقوق اور سماجی تنظیموں پر دبائو پڑے گا۔ 
گھٹا ٹوپ اندھیر ا سہی‘ لیکن امیدکا دِیا ابھی بجھا نہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ دونوں متحارب ہمسایوں کے درمیان سلگتا ہوا یہ تنازع کبھی حل نہیں ہوگا‘ لیکن ایسا نہیں۔ گزشتہ 100 دنوں سے اگر کوئی مثبت پہلو نکلتاہے تو وہ یہ کشمیر ایک سرد خانے سے نکل کر ایک عالمی ایشو بن گیا ۔ اب یہ بات تسلیم کی جانے لگی ہے کہ کشمیر سیاسی سے زیادہ انسانی معاملہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ 100دنوں کی اس افسوس ناک قید کی خبر ابھی بھی تازہ ہے۔ 
شدید رد ِعمل کے خوف کی وجہ سے ہر گزرتے دن کے ساتھ بھارتی حکومت کے لیے کرفیو اٹھانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے ‘ لیکن جتنے دن گزرتے جائیں گے‘ اُتنی ہی بے چینی بڑھتی جائے گی‘ اگردنیا کی طرف سے بنیادی انسانی حقوق کی بحالی پر دبائو بڑھایا جائے تو بھارتی حکومت دفاعی قدموں پرجانے پر مجبور ہوجائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلسل لکھتے ‘ بولتے اور احتجاج کرتے رہنا چاہیے‘ تاکہ بے حسی کو جھنجھوڑا جاسکے۔جیسا کہ ایک چینی کہاوت ہے کہ
''مستقل مزاجی سے لوہے کا ستون بھی گھس کر سوئی بن جاتا ہے۔‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں