علم کی فیکٹری

چین دنیامیں مصنوعات تیار کرنے کی فیکٹری ہے ۔ گزشتہ چار دہائیوں سے اس کی پہچان یہی ہے ۔ وہ ہر ایجاد کی اس مہارت سے اتنی کم قیمت میں نقل تیار کرتے ہیں کہ کوئی صنعت اُن کا مقابلہ نہیںکرسکتی اور چینی بین الاقوامی شہرت یافتہ مہنگی مصنوعات جیسی نہایت سستی چیزیںتیار کرسکتے ہیں‘اسے لیے عام تاثر یہی ہے کہ امریکہ اور یورپ کی مصنوعات اور سافٹ ویئرکی نقل اور نمبر دو کاپی چین سے آتی ہے‘تاہم چین اس کھیل کو تبدیل کرنے جارہا ہے۔ زیادہ تر ممالک نہیں جانتے کہ جب چین میں وسیع پیمانے پر مصنوعات کی تیار ی وسیع پیمانے پر ایجادات اور اختراعات کی شکل اختیار کرلے گی ‘تو وہ کیا کریں گے؟
''پی آئی ایس اے‘‘ کے ایک حالیہ سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ تعلیم کے چار فعال ترین شعبوں کا تعلق چین سے ہے ۔ پیر س کی ایک تنظیم ''او ای سی ڈی‘‘ ہر تین سال بعد پی آئی ایس اے سروے کراتی ہے‘ جو37 رکن ریاستوں اور42شراکت دار ممالک میں کیا جاتا ہے ۔ چین سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں نے چار فعال ترین شعبوں میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے مغربی حریفوں کو مات دے دی۔ تعلیمی صلاحیتوں پر شائع ہونے والا یہ سروے ظاہر کرتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں گزشتہ دو عشروں سے کوئی فکری تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے ۔ 
یہ سروے کچھ اہم ترین حقائق منکشف کرتا ہے ۔ بڑی بڑی یورپی اقوام رینکنگ میں بہت پیچھے رہ گئیں‘ برطانیہ 14ویں‘ جرمنی 20ویں اور فرانس 23ویں نمبر پر‘ جبکہ ریڈنگ میں امریکہ 13ویں نمبرپر رہا۔ یہ مفروضہ کہ ملک جتنا ترقی یافتہ ہوگا‘ اتنا ہی اس کا نظام ِ تعلیم بہتر ہوگا‘ درست نہیں‘ نیز ملک کے سماجی اور معاشی طبقوں اور ان کی ترقی سے تعلیم کے معیار اور کارکردگی کی عکاسی نہیں ہوتی ۔ او ای سی ڈی کے سیکرٹری جنرل اینجل گوریا کا کہنا ہے کہ چین کے چار صوبوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ نے تعلیمی نظام میں شرکت کرنے والے 78 طلبہ کو مات دے دی۔ مزید یہ کہ سماجی اور معاشی طور پر انتہائی پسماندہ طلبہ کے دس فیصد نے او ای سی ڈی ممالک کے اوسط طلبہ سے ریڈنگ میں بہتر کارکردگی دکھائی ۔
خیال کیا جاتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک تعلیم پر زیادہ رقم خرچ کرکے معیاری تعلیم ممکن بناتے ہیں‘ لیکن اس تصور کی جانچ ہونا باقی ہے ۔ دوسرا مفروضہ کہ طلبہ کی تنقیدی سوچ کو ابھارنے میں معاون تعلیم بعد میں ترقی اور اختراع کا باعث بنتی ہے‘ کا بھی مزید جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔سنگاپور کا تعلیمی نظام بہت بہترین ہے ۔ عمومی خیال یہ تھا کہ چونکہ جنوب اور مشرق ِ بعید کے معاشروں میں اختلاف کی حوصلہ شکنی اور اتفاق رائے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ‘ اس لیے ان کی تعلیم میں تنقیدی سوچ نہیں ہوگی۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا گیا کہ ان معاشروں کی تعلیم اور تربیت میں تنقیدی سوچ کا فقدان ہوگا۔ گویاایسے معاشرے میں کسی نئی اختراع کی بجائے کم لاگت کی نقالی کا سلسلہ ہی جاری رہے گا‘ تاہم یہ صورت ِحال اب‘ تبدیل ہونے جارہی ہے ۔ 
آہستہ آہستہ‘ لیکن بتدریج چین خودکو اس پوزیشن پر لارہا ہے ۔ کم لاگت سے مصنوعات کی نقل سے لے کر مختلف صنعتوں میں جدید ترین اختراعات کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے ۔ پہلے چین میں موبائل فونز کی سستی نقل تیار کی جاتی تھی۔ امریکہ و جاپان کے تیار کردہ مہنگے ماڈلز دس گناکم قیمت پر مصنوعات کے اس سستے سمندر سے مل جاتے تھے‘ لیکن اب ‘یہ ماضی کی بات ہے۔ چین کے تیار کردہ اپنے موبائل فون برانڈز اب‘ عالمی مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ اب‘ وہ مستحکم ساکھ رکھنے والے حریفوں‘ جیسا کہ ایپل اور سام سانگ کو چیلنج کررہے ہیں۔ یہ مصنوعات چین کی ساکھ ایک ایسے ملک کے طور پر قائم کررہی ہیں‘ جو معیار اور جدت کو اہمیت دیتا ہے۔ اس وقت تین چینی موبائل کمپنیاں دنیا میں دوسرے‘ چوتھے اور پانچویں نمبر پر سب سے زیادہ سمارٹ فون سپلائی کرنے والی کمپنیاں ہیں۔2017 ء سے لے کر 2018 ء کے درمیان ایک معروف چینی موبائل کمپنی کی گروتھ امریکی معروف برانڈ لے موبائل کے مقابلے میں 41 فیصد زیادہ رہی ہے۔ 
جدت کا یہ سفر کس طرح ممکن ہوا؟ اس کے پیچھے ایک منظم اور مربو ط حکمت ِعملی کارفرما ہے۔ چین جانتا ہے کہ صرف علم کی بنیاد پر جدت ہی مسابقت کی مارکیٹ میں برتری کی ضمانت دیتی ہے ۔ امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی کامیابی کا یہی راز ہے؛چنانچہ حکومت نے فیصلہ کیا کی چین کی پہچان محض پرزے جوڑ کر مغربی برانڈز کی نقل کرنے والی صنعت کی نہیں ہوگی۔ چینی حکومت ''میڈان چائنا 2025ء‘‘ کی طرف پیش رفت کررہی ہے ‘جس کا مقصد چین کو 2025 ء تک دنیا کی سمارٹ‘ جدت پذیراور ماحولیات سے ہم آہنگ گرین صنعتی طاقت کے طور پر متعارف کرانا ہے ۔ اس کے لیے دیگر لوازمات کے علاوہ مقامی طور پر ہائی ٹیک پرزے تیار کرنے ہوں گے ۔ بہت سی چینی فرمز اپنی فعالیت کو جدت سے ہم آہنگ کریں گی۔ ٹیکنکل مہارتوں کے لیے سرمایہ کاری کی جارہی ہے ۔ 
جدت کے لیے صرف تصور ہی نہیں‘عمل کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس کے بعد درست جگہ پر رقم خرچ کرنے کا مرحلہ ہے۔ مرکزی حکومت نے Natinal Integrated Circuit Fund قائم کیاہے ‘تاکہ مقامی تیارکنندگان کو بھی مسابقت کی دوڑ میں شریک کیا جاسکے ۔ چین نے2014 ء میں بگ فنڈکے لیے بائیس بلین ڈالر(139 billion RMB) مہیا کیے ۔اس طرح چین کی جدید مینو فیکچرنگ صرف فونز تک ہی محدود نہیں۔ٹائمز میگزین نے Dajiang Innovation کو ''ڈرون ڈومینیٹر‘‘ قرار دیا تھا‘کیونکہ2018 ء میں یہ عالمی ڈرون مارکیٹ کے 72 فیصد کو کنٹرول کررہا تھا۔ اس کے تیار کردہ ڈرونز 4,999 ڈالر میں فروخت ہوتے ہیں۔ اکتیس منٹ تک پرواز کرنے کے قابل یہ ڈرون ہائی ریزولوشن ویڈیوز بنا سکتے ہیں۔ 
اس سے دنیا کے شہریوںکے ذہن میں اپنے اپنے کلچر کو پھیلانے کا خیال آیا ۔ بالی وڈ نے کسی بھی کمپنی سے زیادہ مغربی کلچر اور پراڈکٹس متعارف کرائی ہیں۔ مشہور فلموں میں دنیا کیے مشہور ترین سافٹ ڈرنکس جیسی مصنوعات کا استعمال بہترین تشہیر ہے ۔چین نے اپنی فلمی صنعت پہلے مقامی طور پر ‘ اور پھر عالمی سطح پر مستحکم کرناشروع کی ۔ 2012 ء میں چین کے باکس آفس کے 47.6 فیصد پر اس کی مقامی فلمیںہی تھیں۔ گزشتہ سال مقامی فلموں کا تناسب 62 فیصد رہا۔ یہ نرم طاقت چین کو اپنی مصنوعات پر فخر کرنے ‘ اور دنیا کو اپنا پیغام بھیجنے کے قابل بناتی ہے ۔چین کے موبائلز ایک نادر مثال ہیں‘ جن نے پہلے چین میں مقامی مارکیٹ میں اپنی جدت کا لوہامنوایااور پھر مغرب کو اپنے انداز سے متاثر کیا۔ 
پی آئی ایس اے کا تازہ ترین سروے چشم کشا ہے ۔ یہ چین کی کامیابی کی کہانی سناتا ہے ۔ کیلی فورنیاکے ایک تعلیمی محقق ٹام لولیس کا کہنا تھاکہ سروے کے دوران چینی صوبوں کا سکور بڑھتا دکھائی دیا۔ اُن کا کہنا ہے کہ چینی حکومت خود صوبوں کا تعین کرتی ہے ‘جن کی جانچ مقصود ہوتی ہے ۔سروے میں دو امور مستقل دکھائی دئیے ۔ پہلا یہ کہ چین بچوں کی تعلیم میں مستقل مزاجی سے پیش قدمی کررہا ہے ؛ دوسرا یہ کہ امریکہ تعلیمی میدان میں اوسط درجے پر ہے ۔ 
جس دوران امریکہ چینی مصنوعات پربھاری ٹیرف عائد کرکے اُنہیں روکنے کی کوشش کررہا ہے‘ امریکہ چینی بچوں کی دماغی صلاحیتوں میں اضافے کو کیسے روکے گا؟ امریکہ اس کے راستے میں کون سی رکاوٹ کھڑی کرے گا؟ تبدیل ہوتے ہوئے اس میزان پر امریکہ اوسط درجے ‘ جبکہ چین ذہانت اور جدت کے عروج کی طرف بڑھ رہا ہے ۔یوں چین درحقیقت دنیا میں علم کی فیکٹری ثابت ہوگا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں