ناکام جنگیں جاری رکھنے پر اصرار کیوں؟

مشہور امریکی مصنف جان سٹن بیک کا کہنا ہے کہ تمام جنگیں انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کی ناکامی کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ جنگیں خطرناک ‘ مہنگی‘ تباہ کن اور وحشیانہ ہوتی ہیں‘ پھر بھی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جنگوں میں اتنی سیاسی کشش ہوتی ہے کہ بہت سے سیاست دان ان کے بغیر رہ نہیں سکتے۔ طاقت اورانتہائی طاقت حاصل کرنا سیاسی طور پر پرکشش ہوتا ہے۔ طاقت کی اس راہ پر اپنی سکت کا مظاہرہ زیادہ سے زیادہ زمین ‘ وسائل اور عوام پر کنٹرول حاصل کرکے کیا جاتا ہے ‘ چاہے ا س کی کتنی ہی قیمت کیوں نہ چکانی پڑے۔ اس خبط کو پورا کرنے کا مختصر ترین راستہ جنگ ہے ‘ اگرچہ ماضی میں ایسی جنگوں کی وحشیانہ اور کھلی وجہ سیاست مانی جاتی تھی‘ لیکن عالمی جنگوں کے بعدروایتی یاہائبرڈ جنگیں معمول نہیں رہیں ہیں۔ کسی عالمی طاقت اور دیگر طاقتوں یا عالمی طاقت اور کمزور ریاستوں درمیان پائے جانیوالے جنگی جنون کی وضاحت بہت مشکل ہے۔ خاص طور پر جب آپ دیکھتے ہیں کہ امریکہ کی لڑی گئی زیادہ تر جنگیں عملی طور پر ایسی جنگیں نہیں تھیں‘ جن کے نتیجے میںکسی ملک پر قبضہ کیا جاسکے۔ 1945 ء کے بعد سے امریکہ نے کوئی بامعانی جنگی فتح حاصل نہیں کی ۔اس نے پانچ اہم جنگیں لڑی ہی؛ کوریا‘ ویت نام‘ خلیج‘ عراق اور افغانستان کی جنگیں ‘ اسے 1991 ء کی خلیجی جنگ کے سوا تمام میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔صرف اس ایک جنگ کو کسی حد تک فتح قرار دیا جاسکتا ہے۔ ان جنگ ہاری ہوئی جنگوں سے بہت سے نمونے سامنے آتے ہیں:۔
1۔ جغرافیائی ارتکاز: ان میں سے زیادہ تر جنگیں ایشیا‘ خاص طور پر مشرق ِوسطیٰ میں لڑی گئیں۔ ویت نام کی جنگ ‘ جس میں امریکہ کو شکست ِ فاش ہوئی کو انسانیت کے چہرے پر ایک بدنما داغ کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
2۔ تیل کی اہمیت: ان جنگوں ایک واضح مقصد توانائی کے اہم وسائل‘ جیسا کہ تیل کے وسائل تک رسائی تھی ۔ ایران اور عراق کے درمیان ہونے والی خلیجی جنگ امریکی پشت پناہی سے لڑی گئی ۔ عراق اور افغانستان پر حملے کے پیچھے بھی تیل اور قدرتی وسائل کی طلب کارفرما تھی ۔ ایرانی جنرل سلیمانی پر حالیہ حملے سے بھی تیل کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان دیکھنے میں آیا‘ جس سے امریکہ کے بہت سے اتحادی ممالک کو فائدہ ہوا۔ 
3۔ انتخابات : زیادہ امریکی صدور کو انتخابات سے قبل ایسا جواز چاہیے ہوتا ہے ‘جس کی وجہ سے وہ امریکہ کو ایک طاقتور ملک ثابت کرسکیں۔ معاشی گراوٹ اور مواخذے کا سامنا کرنے والے صدر ٹرمپ بالکل وہی کچھ کررہے ہیں ‘جس کا انہوں نے 2011 ء میں براک اوبامہ پر الزام لگایا تھا۔ اُس وقت ٹرمپ نے ٹویٹ کیاتھا ''ہمارا صدر ایران کے ساتھ جنگ شروع کرلے گا‘ کیونکہ وہ مذاکرات کی صلاحیت سے عاری ہے ؛ چنانچہ دوبارہ منتخب ہونے کا یہی راستہ ہے ‘ اور وہ راستہ ایران کے ساتھ جنگ شروع کرنا ہے ۔‘‘
جب جنگیں مہنگی ہوتی ہیںاور وہ ممالک جن پر امریکہ قبضہ کرنا چاہتا ہے ‘امریکی فورسز کو نکالنے کیلئے مزاحمتی جنگ شروع کردیتے ہیں‘تو پھر امریکہ ایسی ہاری ہوئی جنگوں میں خود کو الجھانے سے باز کیوں نہیں آتا؟ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ ان کے ذریعے امریکہ فوری طور پر خسارہ اٹھا کر کچھ دیر بعد معاشی طور پر بہت کچھ حاصل کر لیتا ہے ۔ اپنی کتاب ''ایک معاشی شکا ری کے اعترافات‘‘ میں جان پارکنزبتاتے ہیں کہ کس طرح ہدف بننے والے ممالک کی تباہی سے پیدا ہونے والی طلب کے ذریعے امریکہ اپنی بھاری بھرکم کمپنیوں کو بزنس کے مواقع فراہم کرتا ہے ۔ اپنی پہلی کتاب کی کامیابی کے بعد وہ مزید وضاحت سے بات کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کس طرح امریکی معیشت جنگ کے بعد شائع ہونے والی کتابوں سے فائدہ اٹھاتی ہے ۔ 
پارکنز کے نزدیک امریکی صدور اپنے چیف ایگزیکٹوز کے احکامات کے مطابق ‘ تیسری دنیا کے بدعنوان رہنمائوں کو امداد فراہم کرتے ہیںاور کس طرح وہ رہنما اہم منصوبوں کے ٹھیکے امریکی کمپنیوں کودیتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے وہ اپنی قوم کو قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیتے ہیں اور اُن کی مالی حالت بدسے بدتر ہوتی جاتی ہے ۔
درحقیقت سپرپاور کثیر ملکی کمپنیوں کوووٹ کی طاقت سے کنٹرول کرتی ہے‘ نیز جنگ مخالف اقدامات‘ پالیسیوں‘ افراد اور اقوام کو بے اثر کرتے ہوئے جنگ کے ذریعے دولت‘ فوجی اور سیاسی طاقت حاصل کی جاتی ہے ‘ تاہم جنگ کے طویل المدت اثرات نے امریکہ کے لیے اپنی طاقت کو برقرار رکھنا مشکل بنا دیا ہے ۔ اس کی کمزور ہوتی ہوئی سکت کا اندازہ 2007 ء کے مالی بحران کے دوران ہوا۔ طویل ہوتی ہوئی جنگ ایک ایسا گرداب بن جاتی ہے‘ جس سے نکلنا مشکل ہوتا جاتا ہے ۔ اس کی کلاسیکی مثال افغان جنگ ہے ۔ امریکہ اس الجھن میں ہے کہ افغان جنگ سے نکلے یا نہ نکلے ؟جس دوران دنیا ڈرامائی طور پر تبدیل ہوچکی ‘امریکی تزویراتی پالیسیاں اس تبدیلی کے ساتھ ہم آہنگ نہیں۔ ہائبرڈجنگ اور ٹیکنالوجی نے ہتھیاروں کے ذخائر ‘ براہ ِراست جنگوں اور پراکسی جنگوں کے درمیان فرق کم کردیا ہے ۔ بہت سی کم ترقی یافتہ اور غریب اقوام بھی سوشل میڈیا پلیٹ فورمز اور سافٹ ویئر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرکے امریکہ کیلئے مشکلات پیدا کرتی رہتی ہیں؛ حالانکہ امریکہ اُنہیں آسانی سے مات دے سکتاہے ۔ 
پاکستان خطے میں تزویراتی اہمیت رکھتے ہوئے اپنا کردار ادا کرسکتا ہے ‘ لیکن اس کی سب سے پہلی ترجیح قومی مفادات کا تحفظ ہونا چاہیے ۔ وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے بالکل واضح اور غیر مبہم پالیسی بیان دیا ہے کہ پاکستان خطے کی جنگ میں اب شریک نہ ہوگا؛ یہ صرف امن کے لیے ہی اپنا کردار ادا کرے گا۔ ایران‘ سعودی عرب اور امریکہ کے دورے کے بعد اسی پالیسی پر عمل ہوتا دکھائی دے گا۔ اس حوالے سے پاکستان اورنیٹو ممالک جیسے دیگر بااثر ذرائع کو مندرجہ ذیل امور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے :
1۔ امریکہ کو قائل کرنے کی کوشش کرنا کہ جنگ کے اس کی اپنی معیشت اور حکومت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ ایران نے عراق میں امریکی ٹھکانوں کو نشانہ بنا کر اپنی جنگی سکت کا مظاہر ہ کردیا ہے ۔ ایک اور نکتے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ عراق اور دیگر ممالک کے مختلف گروہوں کی امریکی جنگ میں شمولیت ہے ۔ حالیہ میزائل حملے نے ایسے گروہوں کو اکٹھا کردیا ہے ‘ اور وہ سب مل کر امریکہ کے لیے صورت ِ حال مشکل بنا دیں گے ‘ خاص طور پر اُس وقت جب خطے میں امریکی فورسز دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں اور امریکہ جنگ جیتنے کی تاریخ نہیں رکھتا ہے ۔ 
2۔ اسے افغان عمل کے ساتھ منسلک کرنا: ٹرمپ کے لیے انتخابات میں فتح حاصل کرنے لیے افغان امن مذاکرات میں پیش رفت ایک فیصلہ کن کامیابی ہوسکتی ہے ‘ جس دوران ایران اور بہت سے دیگر گروہ امریکہ کے ساتھ جنگ کے لیے اکٹھے ہورہے ہیں‘ افغان امن مذاکرات میں کامیابی یا ناکامی سکیورٹی کیلئے انتہائی اہمیت کی حامل ہوگی ۔ یہ صدر ٹرمپ کو قائل کرنے کیلئے اہم نکتہ ہے کہ وہ خطہ میں تنائوسے گریز کریں۔ 
3۔ جنگ پر اٹھنے والے اخراجات کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ ایک حالیہ جائزے کے مطابق نائن الیون کے بعد مشرق ِوسطیٰ اور ایشیا میں ہونے والی جنگوں پر امریکی ٹیکس دہندگان کے 6.4 ٹریلین ڈالر خرچ ہوچکے ہیں۔ یہ رقم اُس سے دو ٹریلین ڈالر زیادہ ہے ‘جو تمام وفاقی حکومت نے 2019 ء کے مالی سال کے دوران خرچ کی ہے ۔ امریکی حکومت نے تیس ستمبر کو ختم ہونے والی مالی سال کے دوران 4.4 ٹریلین ڈالر خرچ کیے ۔ 
برائون یونیورسٹی کے واٹسن انسٹی ٹیوٹ آف انٹر نیشنل اینڈ پبلک آفیئرز کی ایک رپورٹ کے مطابق‘ جنگ کے براہ ِراست اثرات کی وجہ سے 801,000 افراد جاں بحق ہوچکے‘ ان میں سے 335,000 افرادعام شہری تھے ۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ دنیا کی واحد عالمی طاقت اپنی جنگوں کی انسانی قیمت نظر انداز کردیتی ہے ۔ 
مارٹن لوتھر کنگ نے کہا تھا ''جو قوم سماجی فلاح سے زیادہ رقم دفاع اور عسکری تیاریوں پر خرچ کرتی ہے‘ وہ اپنی روح کی موت کا سامان اپنے ہاتھوں سے کرتی ہے ۔‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں