پاکستان اور ملائیشیا میں یکسانیت اور عدم مشابہت

قوم سازی ایک مسلسل عمل ‘ ایک نہ ختم ہونے والی جدوجہد کا نام ہے ۔ ایک صدی میں دوسروں پر حکمرانی کرنے والی بہت سی اقوام کسی اور صدی میں خودمحکوم بن گئیں۔ درحقیقت جدید دور میں تبدیلی کی رفتار روشنی سے بھی تیز ہے۔ ملک چند عشروں میں عروج و زوال کی منازل طے کرلیتے ہیں۔ صدیوں کے خواب ِ غفلت کے بعد چین کی بیداری دیگر اقوام کے لیے ایک فیصلہ کن مثال ہے ‘ اسی طرح گزشتہ صدی کی حکمران طاقتوں‘ خاص طور پر یورپی اقوام کی طرف دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ اب اُن میں سے بہت سی جمود کا شکار ہیں۔اُن کی معاشی افزائش کا عمل رک چکا ہے‘ بعض تنزلی کے دور سے گزر رہی ہیں ۔ اس طرح افراد کی طرح ممالک کو بھی نا صرف ذاتی اوصاف پیدا کرنا ہوتے ہیں‘ بلکہ ایسا نظام بھی وضع کرنا ہوتا ہے ‘جس کے ذریعے وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہتر ہوتے جائیں۔ 
حالیہ دنوں ملائیشیا کے عروج اور پاکستان کے زوال پر بہت کچھ کہا گیا۔ وزیراعظم مہاتیر محمد کے تحریر کردہ تازہ ترین بلاگ میں ان معاملات کی وضاحت کی گئی ہے ۔ اس نے پاکستان میں ایک بحث چھیڑ دی کہ پاکستان سیاسی طور پر ملائیشیا سے کس حد تک مماثلت رکھتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں ممالک کے وزرائے اعظم نے سابق حکومتوں کی بدعنوانی اور چھوڑے گئے بھاری قرضوں کو مسلے کی جڑبتایا۔ وزیراعظم مہاتیر محمد کا چبھتا ہوا بلاگ کہتا ہے ''برس ہا برس تک قومی دولت لوٹنے‘ مالیاتی سکت اور انتظامیہ تباہ کردینے ‘ قوانین پامال کرنے اور قرضے لے کر کام چلانے والی بدعنوان حکومت نے ملک کو دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچا دیاتھا۔رشوت ستانی عام ہونے کی وجہ سے عوام کی مالی اور اخلاقی سکت جواب دے چکی تھی ۔‘‘پاکستان میں بھی صورت ِحال اس کے برعکس نہیں ۔ 
تاہم ملائیشیا‘ جس اتھاہ گہرائی میں گرا‘ وہ اُس سے مختلف تھی ‘جس کا پاکستان شکار ہوا۔ 1990ء کی دہائی میں مالی اور معاشی بحران کا شکار پاکستان گزشتہ دہائی میں اس نہج تک پہنچ گیا‘ جہاں خرابی نے اس کی معیشت کی بنیادیں تباہ کردیں اور اس کے لیے اپنا بچائو کرنا بھی مشکل ہوگیا۔ دونوں ممالک کی تاریخ یکساں خطوط پر آگے بڑھتی ‘ کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد مختلف سمتیں اختیار کرلیتی ہے ۔ ملائیشیا نے بھی پاکستان سے دس سال بعد ‘ 1957 ء میں برطانیہ سے آزادی حاصل کی ‘ اسی طرح دونوں ریاستوں نے اپنا ایک ایک حصہ کھو دیا۔ پاکستان نے 1971 ء میں مشرقی پاکستان‘ جو اب بنگلہ دیش ہے‘ جبکہ 1965 ء میں سنگا پور ملائیشیا سے الگ ہوگیا‘ تاہم دونوں ریاستوں کی معیشت نے مختلف راہ اختیار کی ۔ 
پاکستان کی فی کس آمدنی 1960 ء میں صرف 90 ڈالر تک تھی۔ یہ 1980 ء میں بڑھ کر 490 ڈالر‘ اور آخر کار 2019ء میں 1357 ڈالر ہوگئی ۔ دوسری طرف مہاتیر محمد کے وزیر ِاعظم بننے سے پہلے ملائیشیا کی کل قومی پیداوار (جی ڈی پی)محض 12بلین ڈالر تھی۔ گزشتہ سال تک اس کا حجم 210بلین ڈالر ہوچکا تھا ‘جبکہ فی کس آمدنی 3,540 ڈالر تھی ‘ جو کہ جنوب مشرقی ایشیا میں تیسری سب سے زیادہ فی کس آمدنی ہے ۔ 
معاشی فرق دیگر سے بہت سے مالیاتی امور میں بھی واضح دکھائی دیتا ہے ۔ دو اہم فرق دونوں ممالک کی برآمدات اور بچت کے حجم میں ہیں۔ پاکستان کی کل قومی بچت 9.6 فیصد ‘ جبکہ ملائیشیا کی 26.6 فیصد ہے ‘ اسی طرح ملائیشیا کی 274 بلین ڈالر کی برآمدات کے مقابلے میں پاکستان کی کل برآمدات محض 24 بلین ڈالر ہیں۔ 
ملائیشیا نے ایسا کیا کیا ہے‘ جو پاکستان نہ کرسکا؟ ہمیں یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ملائیشیا میں مہاتیر محمد 1980 ء کی دہائی میں آئے اور کم و بیش دو عشروں تک ملک کی مبادیات درست کرنے پر توجہ مرکوز رکھی اور اسے ترقی کی راہ پر ڈالا۔ انہوں نے صنعت کو ترجیح اور برآمدات میں اضافے کو اپنا ہدف بنالیا۔ دوسرے وہ جانتے تھے کہ انسانی وسائل کو ترقی دینے کے لیے تعلیم اور افرادی قوت کی مہارت پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے ۔ ان پالیسیوں کانتیجہ یہ ہے کہ آج ملائیشیا 94 فیصد شرح خواندگی رکھتا ہے ۔یہ منزل اُس وقت حاصل ہوئی‘ جب مہاتیر پہلی مرتبہ وزیر اعظم بنے تھے ۔ 
اس وقت ملائیشیا ترقی کی نئی منازل کی تلاش میں ہے ۔ وزیراعظم مہاتیر نے ملائیشیا کو درپیش 9 چیلنجز کی شناخت کرتے ہوئے 2020 ء وژن پیش کیا ہے کہ اگر ملائیشیا ترقی کرنا چاہتا ہے ‘تو ان خطوط پر کام کرنا ہوگا۔ پہلا چیلنج متحد ملائیشیا کا قیام ہے ۔ دوسرا چیلنج افراد کو ترقی یافتہ ‘ لبرل‘ پر اعتماد اور جدید سوچ رکھنے اور اپنی قوم پر فخر کرنے والا انسانوں میں ڈھالنا ہے ۔ تیسرا‘ ایک مستحکم اور ترقی پسند جمہوری معاشرے کا قیام ہے ‘جو ترقی پذیر اقوام کے لیے ایک رول ماڈل ہو۔ چوتھا‘ بااخلاق اور صاحب ِکردار معاشرے کا قیام ہے ۔ پانچواں چیلنج ایک لبرل اور روادار معاشرے کا قیام ہے‘ جس میں تمام افراد اپنے اپنے عقائد پر آزادی سے عمل پیرا ہوتے ہوئے ملک اور قوم کے ساتھ وفادار رہ سکیں۔ چھٹا‘ ایک سائنسی اور ترقی پسند معاشرے کا قیام ہے‘ جو نا صرف ٹیکنالوجی استعمال کرے‘ بلکہ اسے تخلیق بھی کرے ۔ ساتواں چیلنج ایک ہمدرد معاشرے اور کلچر کا قیام ہے ۔ آٹھواں چیلنج مساوات پر مبنی معاشرے کا قیام ہے ‘جہاں مالیاتی وسائل کی یکساں تقسیم یقینی بنائی جائے ۔ نواں اور آخری چیلنج ایک خوشحال معاشرے کاقیام ہے ‘جو مسابقت‘ متحرک اور مستحکم معیشت رکھتا ہو۔ 
ان چیلنجز کے بارے میں دلچسپ بات ان کی ترتیب ہے ۔ خوشحالی اور معیشت آخری چیلنجز ہے ۔ پہلے پانچ چیلنجز کا تعلق سماجی اور ثقافتی تبدیلی سے ہے ۔ ان کا تعلق اتحاد‘ رواداری‘ احترام‘ اخلاق اور وسیع الذہنی سے ہے ۔ یہ وہ امور ہیں‘ جن پر پاکستان کو توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ جب 1980 ء کی دہائی میں مہاتیر محمد ان اقدار کے بیج بو رہے تھے‘ پاکستانی ثقافت میں مذہب کے مسخ شدہ نظریات کے ذریعے تنگ نظری کے بیج بوئے جارہے تھے ‘ اگر آمروں نے معاشرے کو تقسیم کردیاتو جمہوری حکومتوں کی اقدار اور قانون کی حکمرانی بھی محض دکھاوا ہی تھی ۔ اس طرح پاکستان کی سماجی اور معاشرتی ترقی جامد اور مفلوج رہی ۔ 
ڈاکٹر مہاتیر کی حکومت میں ملائیشیا نے جن امور پر ترجیحی بنیادوں پر توجہ دی‘ وہ برآمدات میں اضافہ اور جدید تعلیم کا حصول ہے ۔ پاکستانی حکومت کو بھی یہی اہداف طے کرنے کی ضرورت ہے ۔ سرکاری اور نجی سکولوں اور مدرسوں کا یکساں نصاب اس سلسلے کا پہلا قدم ہے‘ لیکن ان اقدامات کو معاشرے کی تعمیر ترقی کے ساتھ ساتھ اُن اقدار کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہونا چاہیے ‘جو اسلام اور تمام مذاہب سکھاتے ہیں۔ ایک معاشرے میں جہاں مسائل کے فوری حل‘ ردعمل‘ رجعت پسندی‘ قانون شکنی اور نظم و نسق کا فقدان پایا جائے ‘ وہاں سب سے پہلے نظام کی تبدیلی ضروری ہے ۔ 
ضروری ہے کہ مہاتیر محمد کے ڈسپلن‘ ثقافت کی ترقی‘ نظام اور اداروں کی تعمیر پر توجہ کو سامنے رکھا جائے ۔جو لوگ مسائل کا فوری حل چاہتے ہیں‘ اُنہیں یاد رکھنا چاہیے کہ مہاتیر محمد نے یہ منزل دو عشروں میں حاصل کی تھی ۔ حقیقی اور دیر پا تبدیلی تکلیف دہ‘سست اور غیر مقبول ہونے کے علاوہ مزاحمت کاسامنا بھی کرتی ہے ۔ فرق یہ ہے کہ جب وزیر ِاعظم مہاتیر محمد ملائیشیا کے شہریوں سے مخاطب ہوتے ہیں تو وہ تعلیم یافتہ‘ صابر اور روشن خیال ہیں اور اُنہیں اپنے رہنما پر یقین بھی ہے ۔ دوسری طرف اوسط پاکستانی کی سوچ ایک لگے بندھے دائرے میں بند ہے۔ کسی بھی تبدیلی سے پہلے اس سوچ کو تبدیل کرنا ہے ‘ تاکہ تبدیلی کو قبول کیا جائے‘ نہ کہ اس کے سامنے مزاحمت کی جائے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں