چند ماہ بعد دوسری دنیا کی تیاری!

یہ سچ ہے کہ موجودہ دنیا لرزہ براندام‘ شکنجے میں جکڑی‘ بند گلی میں پھنسی‘ جذباتی طو ر پر بے حال اورذہنی طور پر نڈھال ہے ‘جبکہ اس کی متلاشی نگاہیں بچائو کے لیے ادھر اُدھر دیکھ رہی ہیں۔ ادھر کووڈ 19 کے دور میں جینے والے افراد کے یہی احساسات ہیں۔ دنیا پہلے کبھی اس طرح مفلوج نہیں ہوئی تھی ۔ بچائو کا کھیل اتنا سنسنی خیز ہے کہ اس نے ہر دوسرے کھیل پر سے توجہ ہٹالی ہے ۔ غیریقینی پن کی وجہ سے تمام منصوبے بے کار ‘ جبکہ مستقبل دھندلا دکھائی دیتا ہے ۔ ناگہانی پن اور ناگزیر کی گرفت بہت کڑی ہے ۔ یہ جال پہلے سے ہی سوچوں میں گرفتارذہن پر اپنی جکڑ مزیدسخت کررہا ہے اوریہ وہ شکنجہ ہے‘ جس سے فہم اور ادراک کو بھی رہائی نہیں ۔ 
غیر یقینی پن کے اس دور میں دو چیزیں یقینی ہیں۔پہلی یہ کہ ویکسین تیار ہونے اور عام استعمال میں آنے کے بعد کورونا وائرس کا مسلہ حل ہوجائے گا۔ اس میں یہی کوئی بارہ سے اٹھارہ ماہ لگ سکتے ہیں۔ دوسری یہ کہ اُس وقت تک روایتی بزنس اور کاروباری حکمت ِعملی متروک ہو جائے گی۔ ان کے ساتھ جڑے رہنے کا نقصان ہوگا ۔تخلیقی سوچ رکھنے والے رہنما اور تنظیمیں دستیاب چھوٹے چھوٹے روابط سے استفادہ کرتے ہیں۔ خطرہ یہ ہے کہ جب تک ویکسین تیار ہو کر دستیاب ہوگی‘ تنظیمیں اور تزویراتی منصوبے غیر فعال ہوچکے ہوں گے ۔ اس کے علاوہ روابط کا روایتی نمونہ بکھر چکا ہوگا۔
ایک غلطی دوسری غلطی کا جواز نہیں بنتی۔ ہم نے کئی برسوں تک اس عالمی وبا کے لیے منصوبہ سازی کی پلاننگ کا وقت ضائع کردیا۔ اب‘ دنیا حیران پریشان کھڑی ہے ۔ اگر کووڈ 19 کے بعد کی دنیا میں بھی اسی رویے کا اعادہ کیا گیا تو ایک اور تباہی ہماری منتظر ہوگی ۔ زندگی بچانا ہر بات پر مقدم ہے ۔ فی الحال وبا کے علاج اور کنٹرول کی بابت کوئی ٹھوس پیش گوئی نہیں کی جاسکتی ۔ تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے اس کے پھیلائو کو کم سے کم رکھناہی معقولیت ہے۔ متاثرہ افراد کے علاج ‘ اُن کے بچائو اور بحالی کی کوشش ضروری ہے۔ اسی طرح بیمارمعیشت کے لیے بھی آئی سی یو چاہیے ۔اس کی جان بچانے کے بعد اسے بحالی کے راستے پر گامزن کرنا ہوگا۔ 
معیشت کی بحالی کے لیے عالمی سطح ‘ قومی سطح اور معاشرے اور انفرادی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ عالمی سطح پر بہت سے ماہرین اس وباسے ہونے والی معاشی تباہی کا اندازہ لگانے کی کوشش کررہے ہیں۔ عالمی بینک اور آئی ایم ایف نے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ دنیا اس صدی کے بدترین معاشی بحران کا سامنا کرنے جارہی ہے ۔ سپلائی کا نظام بری طرح بگڑ چکا ۔ دوسری طرف طلب بھی بہت کم ہوچکی ہے ۔ اشیائے صرف کی ضرورت کا احساس دلانے اور خریدنے میں سہولت فراہم کرنے والے سرمایہ داری کے نظام کی حرکیات ساکت ہوچکی ہیں۔ ملکی سطح پر دنیا بھر کی حکومتیں کورونا وبا سے نمٹنے کے لیے ہاتھ پائوں مارہی ہیں۔ فی الحال وائرس تمام تر سائنسی پیش رفت اور تزویراتی حکمت ِعملی کے لیے ایک معما بنا ہوا ہے ۔ معاشرے کی سطح پر انتہائی انسانی رویے اس بحران کی فضا کومزید زہریلا کررہے ہیں۔ دولت مند معاشرے روزمرہ کی اشیائے ضروریہ کو اندھا دھند ذخیرہ کررہے ہیں۔ دوسری طرف کم وسائل رکھنے والے بہت سے ممالک اپنی گنجائش سے زیادہ فیاضی دکھارہے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ صدمے کی پہلی لہر کے گزرنے کے بعدان چار امور کی پلاننگ کرنی ہوگی‘ تاکہ مستقبل کے تازہ امکانات کی طرف بڑھا جاسکے ۔ 
1۔ عالمی سطح پر از سر ِنو ڈیزائننگ اور پلاننگ: عالمی تنظیمیں پہلے ہی خطرے کی گھنٹی بجاچکی ہیں‘ تاہم جس چیز کی کمی محسوس کی جارہی ہے وہ مسائل کا حل ہے ۔ عالمی معاشی جمود سے کس طرح نکلا اور کووڈ19 کے بعد کی دنیا میں تجارتی بہائو کو کس طرح رواں دواں کیا جائے ۔ عالمی بینک‘ آئی ایم ایف اور علاقائی سطح پر پلاننگ کرنے والی ہر ایجنسی کو عالمی صنعت اور معاشی شعبوں کے لیے سہ پہلو منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ۔ انتہائی مایوس‘ حوصلہ افزا؛ تصوراتی اور حقیقت پسندانہ معروضات کے لیے ممکنہ منصوبہ بندی درکار ہے ۔ ہر جہت میں مسائل کے حل کی سمت نئی دنیا‘ نیا عالمی نظام اورپیدا ہونے والے نئے امکانات ہونے چاہئیں۔ صرف اس پیش بینی کے ساتھ ہی منصوبہ بندی کی گائیڈ لائن ترتیب دی جاسکے گی۔ 
2۔ علاقائی شراکت داری اور باہمی تعاون : حکومتوں کا کام صرف روزانہ کی بنیادوں پر کورونا سے متاثر اور جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد بتانا نہیں ۔ اُنہیں ہر ممکنہ طریقے سے امکانات کی نئی دنیا کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ ایک ایسی دنیا کا تصور کرنا ہوگا‘ جس میں لاک ڈائون قائم رہنا چاہیے یا اس میں نرمی کرنی چاہیے یا اسے مکمل طور پر ختم کردینا چاہیے ۔ خطہ اور خطے کے ممالک انفرادی طور پر معاشی‘ سماجی اور سیاسی طور پر ہر کیس کو کس نظر سے دیکھیں گے ؟ سر اٹھانے والے نئے بحران سے نمٹنے کے لیے کیا پیش بندی کی جائے گی؟ علاوہ ازیں کس طرح یقینی بنایا جائے گا کہ کورونا وبا کے حوالے سے جو کوتاہی ہوئی‘ اس کا اعادہ معاشی منصوبہ بندی میں نہ ہونے پائے ؟
3۔ پاکستان کا ممکنہ ترقیاتی منصوبہ: ڈیرھ سال کے دوران لیے گئے مشکل فیصلوں کے بعد پاکستانی معیشت درست سمت میں بڑھنا شروع ہوگئی تھی‘ تجارتی خسارہ کم ہوچکا تھا ‘جبکہ سمندر پار پاکستانیوں کی بھیجی جانے والی رقوم میں خاطر خواہ اضافہ ہورہا تھا۔کووڈ 19 نے بحالی کے اس عمل کو بریک لگا دی۔ حکومت کو دو ایشوز پر توجہ دینے کی ضرورت ہے‘ قبل اس کے کہ یہ معاشی وبا میں تبدیل ہوجائیں۔ بحالی کے بعد مارکیٹس یک لخت فعال نہیں ہوجائیں گی ۔ امریکہ اور یورپ کی مارکیٹس کریش ہورہی ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ سے بھجوائی جانے والی رقوم کا تسلسل بحال ہونے میں بہت وقت لگے گا ‘کیونکہ وہاں تما م کام بند پڑے ہیں اور محنت کش گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔ تو یہاں سے آگے بڑھنے کا ہمارے پاس کیا راستہ ہے ؟ مارکیٹ میں تنوع لانے کی منصوبہ بندی کرنا ہوگی ۔وسطی ایشیاکے مارکیٹوں تک ای سی او (معاشی تعاون کی تنظیم)کے ذریعے رسائی حاصل کی جائے ۔ کووڈ 19 کے بعد کی صورت ِحال کا جائزہ لینے کے لیے ای سی او کا آن لائن اجلاس بلایا جائے اور دوطرفہ تجارت کو محض چھ فیصد سے بڑھانے کے لیے اقدامات تجویز کیے جائیں۔ 
4۔ سماجی تبدیلی: کہاجاتا ہے کہ اگر آپ کسی قوم یا فرد کا کردار دیکھنا چاہتے ہیں تو اُن کی دبائو کے زمانے میں جانچ کریں۔ گزشتہ عشروں کے کنزیومرازم نے افراد کو اشیا میں تبدیل کردیا ہے ۔ بے تحاشا خریداری نے بہت سی عمدہ اقدار کی جگہ لے لی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ سے لے کر یورپ اور آسٹریلیا تک عوام اندھادھند خریدار ی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اُنہیں دوسروں کی کوئی پروا نہیں۔ خریداری کے اس جنون نے انسانی اقدار کو بے وقعت کردیا ہے ۔ کورونا کے بعد کی دنیا میں انسانوں کو جو سب سے بڑا سبق سیکھنے کی ضرورت ہے ‘ وہ یہ ہے کہ نہ تو بھاری بھرکم بینک اکائونٹ اور نہ ہی فول پروف سیکورٹی سسٹم آپ کو دکھائی نہ دینے والے ایک نیم جان مادے سے تحفظ دے سکا تھا‘ جو چیز آپ کو بچا سکتی ہے‘ وہ دوسرے انسانوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے ‘ ڈاکٹروں‘ نرسوں کادلیر ی سے انسانی جانیں بچانے اور ضرورت کے وقت اپنی اشیا اور وینٹی لیٹرز وغیرہ دوسروں کو استعمال کرنے کی اجازت دینے کا جذبہ ہے ۔ قدرتی آفات کے وقت بینک بیلنس سے زیادہ یہ چیز یں کام آتی ہیں۔ 
الغرض انفرادی اور سماجی سطح پر اس طرح کی اقدار کو عام طور پردوسری دنیا میں جنت میں جگہ حاصل کرنے کے لیے اس دنیا میں کی گئی سرمایہ کاری کہا جاتا ہے اس حوالے سے یہی کہا جا سکتا ہے کہ کر بھلا سو ہو بھلا۔ موجودہ بحران نے یہ سبق سکھایا ہے کہ یہی اقدار کووڈ 19 کے بعد کی دنیا کی بحالی کے لیے بھی درکار ہوں گی اور اس کا موقع ابھی چند ماہ بعد آنے والا ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں