انسانیت کی آزمائش

کورونا سے پہلے کی دنیا میں مہربانی اور ہمدردی کے الفاظ متروک ہوچکے تھے ۔ انسان نہ تو مہربان تھا اور نہ ہی اُسے کسی سے ہمدردی تھی ۔وہ اپنے ماحول پر بھی رحم نہیں کرتاتھا ۔ اس ظلم اور بے رحمی کے نتائج کبھی اتنے کھل کر سامنے نہیں آئے جتنے گزشتہ آٹھ ہفتوں کے دوران آئے ہیں۔ سائنس کے میدان میں بے پناہ ترقی ہوئی لیکن انسان کے اندر کا خلاپُر نہ ہوسکا۔کوویڈ 19 کے ٹیسٹوں کی تعداد بڑھا دی گئی ہے‘ ویکسین آزمائشی مراحل میں ہے ‘ لیکن قوموں کی حقیقی جانچ کا مرحلہ باقی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس بحران کاسامنا کرتے ہوئے انسانیت کی سانس بحال ہوتی ہے ؟ کیا یہ سوچ فروغ پاتی ہے کہ اس بحران کو صرف طبی بنیادوں پر حل نہیں کیا جاسکتا ؟ بے قابو ہونے والے وائرس کے سامنے دنیا کے امیر اور طاقتور ترین ممالک بھی بے بس ہیں۔دولت اور وسائل کی اہمیت ختم ہوچکی‘ قیادت بوکھلائی ہوئی ہے۔ امریکا سے لے کر برطانیہ اور پیرس لے کر میڈرڈتک کسی خوفناک فلم کے مناظر دکھائی دیتے ہیں۔ قصبے ویران ‘ لاشوں سے بھرے ہوئے ہسپتال‘ کاروبار ختم۔ وسائل سے بھرپور معیشتیں قلاش ہوچکیں۔دنیا کے چہرے سے خوشنمانقاب اتر چکا‘ چکاچوندطرزِ زندگی کے پیچھے سنگلا خ حقیقت ابھر رہی ہے ۔ دنیا یہ دعویٰ نہیں کرسکتی کہ سب ٹھیک ہے ۔ لامحدود خواشات کے نتیجے میں ٹیکنالوجی اور معیشت نے ناقابل ِ تصور ترقی کی ‘ لیکن اس ترقی نے ممالک کے درمیان عدم مساوات بڑھائی ۔ عالمی جنگوں کے بغیر بھی دنیا امن کو ترس گئی تھی ۔ ہر خطے میں تباہی کا راج تھا۔لفظ گلوبلائزیشن استعمال تو بہت ہوتاتھا‘ لیکن کسی کو اس کی سمجھ نہیں تھی ۔دنیا پہلی ‘ دوسری اور تیسری دنیائوں میں بٹ چکی تھی ۔تقسیم دولت کی بنیاد پرتھی۔ مختلف دنیائوں میں رہنے والے افراد کے وسائل ان گروہوں کا تعین کرتے تھے ۔ پہلی دنیا دولت مند افرادکی مثالی دنیاتھی ‘ان کی زندگی آسودہ اور پرسکون تھی ‘ وہ دنیا میں دیر تک جیتے اورلطف اٹھاتے تھے ‘دوسری اور تیسری دنیابالترتیب کم اورکم تر وسائل رکھتی تھی‘ ان میں رہنے والے بھی اتنے خوش قسمت نہیں تھے ۔ پر ہجوم اور وسائل کی کمی کا شکار ہسپتال‘ مریضوں کو طبی سہولیات سے انکار‘ تابوتوں میں لاوارث لاشیں‘ طویل قطار میں کھڑے انسان امداد ی خورا ک کے منتظر ۔ یہ مناظر تو زیریں صحارا ممالک کے تھے ‘لیکن اب یہ سب کچھ افسانوی زندگی رکھنے والے شہروں نیویارک‘ لندن‘ پیرس اور میڈرڈ میں دکھائی دے رہا ہے ۔دنیا کو جگانے کے لیے یہ سب سے بڑی صدا ہے ‘ شاید سب سے خوفناک بھی ۔ مذکورہ شہر انسانی ترقی کے نمونے تھے۔ ان کا خوراک اور نگہداشت کا نظام صدی کی پہلی قدرتی آفت کا دبائو برداشت نہ کرسکا اور چٹخ گیا۔ یہ دبائو چار معمولات کی وجہ سے پڑا ہے ۔ یہ معمولات دراصل انسانی اقدار کو دیمک کی طرح چاٹ رہے تھے ۔
بلا ضرورت خریداری کا جنون : گزشتہ پانچ دہائیوں سے زیادہ سے زیادہ کمانے‘ خرچ کرنے ‘ رکھنے اور نمود ونمائش کی دوڑ لگی ہوئی ہے ۔ آزاد مارکیٹ کی حوصلہ افزائی کرنے والا سرمایہ دارانہ نظام وسائل سے بڑھ کرزندگی گزارنے کی ترغیب دیتا ہے ۔ اس نے معاشرے میں عدم توازن پیدا کردیا ۔ مغرب کے زیادہ ترقی یافتہ ممالک ایسی مہنگی زندگی کے نمونے بن گئے جہاں تمام شہری ہفتے میں پانچ دن جان توڑ محنت کرتے اور دو دن اندھا دھند خرچ کرتے ۔ مشینوں‘ ملبوسات اور دیگر اشیا کو بلاضرورت خریدنا۔ موبائل فونوں‘ کاروں‘ گھڑیوں اور جدید برانڈز نے بے کار پیداوار کو بڑھایااور اصراف کی راہ ہموار کی ۔ ان اشیا کی تیاری کے لیے فیکٹریاں چلیں ۔ زہریلے مادوں اور گیسوں نے زمین اور فضا کو آلودہ کردیا ۔ اس کے نتیجے میں وائرس نے نمو پائی ۔ 
شکستہ خاندانی نظام: کورونا وائرس سے یورپ میں سب سے زیادہ اموات اٹلی اور سپین میں ہوئی ہیں۔ اس کی ایک وجہ ان ممالک کی آبادی میں معمر افراد کی زیادہ تعداد ہے ۔کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والے 90فیصد افراد کی عمر 60سال یا اس سے زائد ہے ۔ معمر افراد کو صرف کمزور ہوتی ہوئی قوت ِ مدافعت کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ اُن معاشروں میں ایسے افراد کا خیال رکھنے کے لیے خاندانی نظام کا نہ ہونا ہے ۔ زیادہ تر بوڑھے والدین اکیلے رہتے ہیں۔ اُن کی دوسری اور تیسری نسلیں اپنی الگ زندگی بسر کرتی ہیں۔ پرانی نسل سے کرسمس یا دیگر تقریبات پر ہی ملاقات ہوتی ہے ۔ اولڈ ہومز ایسے افراد سے بھرے ہوئے ہیں جن کے اہل ِ خانہ شاید ہی کبھی اُن سے ملنے آئے ہوں۔ گزشتہ سال گرمی کی لہر سے فرانس میں بہت سے معمر افراد جاں بحق ہوگئے تھے ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اُن کے پاس نوجوان افراد نہیں تھے جو شدید گرمی میں اُن کا خیال رکھتے یا طبی امداد فراہم کرتے ۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ عمررسیدہ افراد کو وائرس سے بچائیں۔ مشرقی ثقافت میں والدین اور معمر رشتہ داروں کا خیال رکھنا نوجوان نسل کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ مغربی معاشرے میں ایسا خاندانی نظام نہیں ہوتا۔ 
بالا دستی کی رعونت : اکیسویں صدی نے قومیت پر مبنی ایسی ریاستوں کو ابھرتے دیکھا جن میں سرمائے کے ساتھ ساتھ نسلی اور مذہبی بالا دستی کا تصور بڑھا ۔ اگر ایک طرف ٹرمپ نے سفید فاموں کی بالادستی کے جذبات ابھارے تو دوسری طرف مودی نے مذہبی بالادستی کا جنون بھڑکایا۔ کہا جاتا ہے کہ کسی قوم یا فرد کی جانچ دو مواقع پر ہوتی ہے ‘جب وہ غالب ہوتے ہیں‘ یاجب وہ مغلوب ہوتے ہیں۔ مودی کی غیر معمولی انتخابی کامیابی نے بے رحم ہندوتوا انتہا پسندی کے جن کو بوتل سے آزاد کردیا۔کشمیر میں لاک ڈائون اور پھر متنازع شہریت ترمیمی بل نے مودی کے غیر انسانی ہتھکنڈوں کو بے نقاب کردیا۔حالیہ عالمی وبا کے دوران مسلمانوں کو ''کورونا دہشت گرد‘‘ قرار دے کر نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ اس دوران جنونی ہجوم کے ہاتھوں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے ۔ ہسپتالوں میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک روارکھا جارہا ہے ۔ اس نے حکمران جماعت کی فسطائیت کو نمایاں کیا ہے ۔ 
مفاد پرستی: بے رحم مسابقت کے کھیل نے تعاون اور ہم آہنگی کو ناممکن بنادیا ہے ۔ صنعتی پیداوار اور انسانی ترقی کو دیکھ کر مغربی معاشروں پر رشک کیا جاتا تھا‘ لیکن اب اُن کی خامی سامنے آئی ہے۔ اشیائے ضروریہ کی اندھا دھند خریداری نے سٹورز خالی کردیے ؛چنانچہ بہت سے افراد کو استعمال کی بنیادی اشیا بھی میسر نہ آئیں۔ اشیائے خورونوش حاصل کرنے کے لیے طویل قطاریں ترقی یافتہ ممالک کے فلاحی نظام کا بھرم چاک کرتی ہیں۔ دوسری طرف بی بی سی نے ''پاکستان میں کوویڈ 19 کے خلاف جنگ میں پاکستانی فیاضی کے قانون ‘‘ پر لکھا ہے اور مثالیں دیتے ہوئے اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ پاکستان میں سماجی اور مذہبی اقدار لوگوں کو غریب افراد کی کفالت کا درس دیتی ہیں۔ 
یہ عالمی وبا ایک غیر معمولی بحران ہے ۔ نہ تو سائنس‘ نہ صحت کا نظام ‘ نہ دولت ‘نہ ممالک اور نہ ہی افراد اکیلے دنیا کو استحکام کی راہ پر ڈال سکیں گے ۔ انسانیت کو اس غیر معمولی آزمائش سے سرخرو ہونے کے لیے اجتماعی کاوش ‘ لگن اورایک دوسرے کا خیال رکھنے کا جذبہ درکار ہوگا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں