قیادت کی صلاحیتوں کا امتحان

مشکل صورتحال دیر تک نہیں رہتی‘ لیکن باہمت رہنما ئوں کا نام ضرور باقی رہتا ہے۔ کورونا وائرس سے پیدا ہونے والا بحران غیر معینہ مدت تک چل سکتا ہے ‘ تو پھر کورونا کے منڈلاتے ہوئے خطرے کے سامنے عوام کی جان‘ روزگار اور مستقبل بچانے کے لیے رہنما کیا کرسکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب چند ہفتے پہلے تک دینا ناممکن تھا ۔ اب ‘اس کا جواب موجود ہے ۔ کچھ اقوام اس ہلاکت خیزآفت پر قابو پاتی دکھائی دیتی ہیں۔ جس دوران امریکہ ‘ برطانیہ ‘ فرانس ‘ اٹلی اور سپین وائر س کے سامنے بے بس ہیں‘ نیوزی لینڈ‘ آسٹریلیا‘ جنوبی کوریا اور ویت نام بحالی کے مرحلے میں ہیں۔یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جن ممالک نے بہتر کارکردگی دکھائی ہے یا جو فی الحال ناکام ہیں‘ اُن سے سیکھنے کے لیے ہمارے پاس کیا سبق ہے ۔ آخری بحران جس کا دنیا کو سامنا کرنا پڑا‘ وہ 2009ء کا معاشی بحران تھا‘لیکن درحقیقت وہ مالی سے زیادہ قیادت کا بحران تھا ۔ قیادت کے ماہر سٹیفن کووے قیادت کے بحران کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''زیادہ تر تنظیموں میں مینجمنٹ زیادہ اور قیادت کم ہوتی ہے ۔ ‘ ‘ رہنما منافع اور شیئرہولڈر کی قدر بڑھانے کے جنون میں مبتلا تھے ۔ اس کے لیے لالچ اور دکھاوے پر مبنی مصنوعی ترقی کا تاثردیا اور رسک ریزرو کے اصول کونظر انداز کردیا۔اس کے نتیجے میں مارکیٹ کریش ہوئی تو دنیا کساد بازاری کا شکار ہوگئی ۔ رہنمائوں کو مورد ِ الزام ٹھہرایا جانے لگا۔ بہت سوں کو الزام لگا کر فارغ یا جبری طور پر ریٹائر کردیا گیا ۔ بل گیٹس کی گفتگو اور جارج بش کی کچھ تقاریر سے پتا چلتا ہے کہ اس آفت کے خدشے کا اظہار کیا گیا تھا‘ لیکن دنیا نے اسے نظر انداز کردیا ۔ 
آج قیادت کے سامنے دہرے چیلنجز ہیں ؛ اُس وائر س سے جانیں کیسے بچائی جائیں‘ جس کا ابھی تک کوئی علاج ہی دریافت نہیں ہوسکا ؟ اور دوسرا کہ اگر جانیں بچانے کے لیے لاک ڈائون ہی واحد آپشن ہے تو پھر روزگار اور معیشت کوکس طرح بچایا جائے ؟ صحت اور معیشت ‘ دونوں ہی لازمی ہیں‘ لیکن موجودہ صورت ِحال میں یہ ایک دوسرے کے مقابلے پر آچکے ہیں۔ رہنمائوں کی بصیرت اور صلاحیت کا کڑا امتحان ہے۔ کیا وہ کوئی درمیانی راستہ نکال سکتے ہیں‘ جس میں صحت اور معیشت‘ دونوں کا کم سے کم نقصان ہو۔ یہ دونوں ٹانگو ں سے لگائی جانے والی دوڑ ہے۔ اس میں ایک ٹانگ پر توجہ دینے سے آپ دوڑ سے باہر ہوجائیں گے ۔ اس وقت قیادت کے سامنے یہی الجھن ہے۔لوگوں کو لاک ڈائون میں رکھنے سے وائرس کا پھیلائو کم ہوتا ہے‘ لیکن معیشت کے لا ک ڈائون ہونے سے اُس رقم کی ترسیل رک جاتی ہے ‘جو وائرس سے لڑنے کے لیے ضروری ہے ۔ اس وقت عالم یہ ہے کہ دولت مند ممالک کے وسائل بھی جوا ب دیتے جا رہے ہیں۔ کہاجاتا ہے کہ طوفان میں گھرے ہوئے جہاز میں قیادت ہی کام آتی ہے۔ موجودہ عالمی وبا بھی راہ نمائوں کے عروج وزوال کی کلاسیکی کہانی لکھ جائے گی۔ فی الحال اس وبا کے خاتمے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی‘ لیکن بہت سی دلچسپ چیزیں پیش آرہی ہیں۔ منفرد بات یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں کسی آفت نے شاید پہلی مرتبہ 200 سے زائد ممالک کو بیک وقت متاثر کیا ہے۔ سب کو ایک جیسے خطرے اور نقصان کاسامنا ہے ؛ چنانچہ معیشت ‘ وسائل اور آبادی کے فرق کے باوجود قیادت کے رد ِعمل کا موازنہ کرنا ممکن ہوگا۔کوروناوائرس سے متاثر ہونے والا پہلا ملک چین تھا۔ وہ معمول کی طرف لوٹنے والا بھی پہلا ملک ہے ۔ دیگر ممالک‘ جیسا کہ نیوزی لینڈ‘ آسٹریلیا‘ جنوبی کوریا بہت سے دیگر ممالک سے بہترطریقے سے نمٹ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قیادت کی مثالیں سامنے آنا شروع ہوگئی ہیں۔ یہ مثالیں دیگر کے لیے مشعل ِ راہ ہوسکتی ہیں: رہنما قبل ازوقت قدم اُٹھاتے ہیں۔ رہنماوہی جو آگے بڑھ کرقیادت کرے ۔ یہ سچائی موجودہ وبانے نکھار دی ہے۔رہنما حقائق کا سامنا کرتے ہیں چاہے وہ کتنے ہی عجیب و غریب کیوں نہ ہوں۔ جن ممالک نے بہتر کارکردگی کا مظاہر ہ کیا اُن میں کچھ مشترک اقدار سامنے آئی ہیں۔اسی طرح کارکردگی نہ دکھانے والوں کی مماثلت بھی نمایاں ہوئی ۔ دنیاکے دو انتہائی ترقی یافتہ ممالک ‘ امریکا اور برطانیہ میں کورونا سے دنیا میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ اسی طرح لاطینی امریکا کا ملک‘ برازیل بھی بدترین متاثر ہونے والوں میں شامل ہے ۔ ان تینوں ممالک میں جو قدر مشترک ہے وہ وائرس کے خطرے کو مسترد کرنا ہے ۔ انھو ں نے کوئی پیشگی اقدامات نہیں کیے تھے ۔ صدر ٹرمپ اسے ''چینی وائرس ‘‘ یا ڈیموکریٹک پارٹی کا پراپیگنڈا کہہ کر غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کرتے رہے ۔ اُن کا کہنا تھاکہ خودہی ختم ہوجائے گا۔بورس جانسن نے خطرے کو مذاق میں اُڑا دیا۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔''ہرڈ امیونٹی‘‘ سے اس کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے ۔ برازیل کے صدر جیر بولسونارو نے اس بیماری کو ''معمولی فلو‘‘ کہہ کرمسترد کردیا۔ اس کے برعکس سب سے پہلے چین‘ پھر جنوبی کوریا اور اب نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا نے پیشگی اقدامات اُٹھائے اور وائرس کنٹرول کرنے میں کامیاب رہے ۔ اس کی وجہ خطرے کابروقت احساس اور اس سے نمٹنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ تھا ۔ نیوزی لینڈ نے اُس وقت لاک ڈائون کردیا جب متاثرہ افراد کی تعداد بمشکل دہرے ہندسے میں داخل ہوئی تھی ۔ جنوربی کوریا نے ''سارس ‘‘ سے سبق سیکھتے ہوئے فوری ٹیسٹنگ اور ٹریسنگ کی مہم شروع کردی۔ رہنما جنگ میں اپنے آپشنز کا انتخاب کرتے ہیں۔ کسی بھی بحران میں وسائل پر دبائو آتا ہے ۔ زیرک او ر پیش بیں رہنما اپنی طاقت کا جائزہ لیتے ہوئے وسائل کو اپنے کنٹرول میں رکھتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے وہ اُن کا رخ رسک ایریاز کی طرف موڑسکتے ہیں۔ چین کے کیس میں یہ اُن کا تاریخی نظم و ضبط اور کنٹرول تھا جس کی وجہ سے دوماہ تک ووہان کومکمل لاک ڈائون کرکے وائرس کو دیگر شہروں کی طرف پھیلنے سے روک دیا گیا۔نیوزی لینڈ میں عوام کا اپنی رہنما جسینڈاارڈن پر اعتماد کام آیا۔
عوام نے اپنی قیادت سے بھرپور تعاون کرتے ہوئے لاک ڈائون کرلیا۔ جرمنی میں صحت کے وسیع نظام نے مس مرکل کو اس قابل بنادیا کہ شہریوں کو مرنے سے بچایا جاسکے ۔ دوسری طرف امریکاچین سے لے کر ڈیمو کریٹس ‘ نیویارک کے گورنر اور عالمی ادارہ صحت‘ ہر کسی پر الزاما ت کی بوچھاڑکررہا ہے ۔ اس دوران وائرس پھیلتا چلا جارہا ہے ۔ رہنما ہمت اورہمدری کامظاہرہ کرتے ہیں۔قیادت کا مقصدصرف متاثرہ افراد میں وسائل لٹاناہی نہیں ہوتا‘ مشکل وقت اُن کی دھاڑس بھی بندھانی ہوتی ہے ۔ نیوزی لینڈ کی جسینڈا ارڈن اپنے ''مہربانی کرو‘‘ کے نعرے سے ایک شفیق رہنما کے طور پر ابھری ہیں۔ اینجلا مرکل کی خدمات کو قوم کی ''مہربان ماں ‘‘ کے طور پر سراہا گیا ہے ۔ قیادت کامقصد مشکل حالات میں مشکل فیصلے کرنے تک ہی محدود نہیں ہوتا‘ بلکہ مشکل حالات کا سامنا کرنے والوں کی داد رسی بھی کرنی ہوتی ہے ۔ مصائب کا سامنا کرنے والوں کاہاتھ تھامنا ہوتا ہے۔ وباکے خلاف اگلی صفوں میں لڑنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنی ہوتی ہے ۔ جانی نقصان کا سامنا کرنے والے خاندانوں کا دکھ بانٹناہوتاہے ۔ جب دبائو کے وقت مشکل فیصلے کرنے کی ضرورت پیش آئے تو ایسی نرمی سے ایک نرم لیڈر کاتصور غلط فہمی پیدا کرسکتا ہے ۔جب جسینڈا رڈن پرتنقید ہوئی کہ وہ سخت نفاذ نہیں کرپارہی ہیں تو اُن کا کہنا تھا''لوگ کہتے ہیں کہ میں رحم دل ہوں؛ چنانچہ کمزور ہوں‘ میں اس بات کی سختی سے تردیدکرتی ہوں‘ میں اس بات کو مسترد کرتی ہوں کہ آپ بیک وقت ہمدرد اور طاقتور نہیں ہوسکتے۔رہنما کی آزمائش یہ ہے کہ جب ہرطرف سے دبائو ہو تو وہ کس طرح ٹھنڈے دل سے تمام حالات کامقابلہ کرتا اور اُنہیں اپنے کنٹرول میں رکھتا ہے ۔ جب طاقتوردھڑے کمزوروں کودبارہے ہوں تووہ کمزور اور غیر مراعت یافتہ طبقے ساتھ کھڑ ا دکھائی دیتا ہے ۔آخر میں ‘ قیادت وہ ہوتی ہے جو مقبولیت اور جارحانہ پن کی بجائے انسانیت اور ہمدردی کی فتح کا جھنڈالہراتی ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں