سرکاری پالیسی اور انسانی رویہ

مصیبت کبھی اکیلی نہیں آتی۔ انتہائی اقدامات انتہائی ردعمل کو دعوت دیتے ہیں۔ خوف وہراس منفی رویے ابھارتے ہیں۔ آج کی دنیا میں یہ حقائق اپنی عملی شکل میں موجود ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ ممالک میں کورونا وائرس اپنی انتہاتک پہنچ چکا ہو‘ لیکن اس کے ضمنی اثرات نے سر اٹھانا شروع کردیا ہے ۔ بہت سی پابندیوں کی جکڑ کے ساتھ معیشتوں کو کام کرنا شروع کرنا پڑا ۔ حکومتیں زندگیاں اور روزگار بچانے کی کوشش میں توازن تلاش کررہی ہیں۔ اس دوران عوام کے لیے اپنے غصے اور مایوسی پر قابوپانا مشکل دکھائی دیتا ہے ۔ دنیا میں امریکا کے سوا شاید ہی کسی ملک کو تحفظ‘ معیشت اور مساوات کی مثلث کو متوازن کرنے کی مشکل کا سامنا ہو۔ ہوسکتا ہے کہ ادویات بیماری کو دبا دیں لیکن اُن کے ضمنی اثرات دیگر بیماریوں کا باعث بن سکتے ہیں جو خود بیماری سے کہیں بڑھ کر ضرررساں ثابت ہوسکتے ہیں۔ وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے انسانی نقل وحرکت محدود کی جانی تھی‘ یہی سب سے محفوظ حل تھا‘ تاہم اس سے انسانی فطرت نے خود کو ایک کونے میں گھرا ہوا پایا۔ ملنے والے موقع سے طوفان برپا کردیا۔ کسی بھی بحران سے نمٹنے کے لیے پبلک پالیسی‘ گورننس اور حکومت اہم ترین عناصر ہوتے ہیں۔ پبلک پالیسی کی کامیابی کا سنگ ِبنیاد انسانی رویہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ صحت ِعامہ کے امور کا انحصار نہ صرف میڈیکل سائنس پر بلکہ رویے کی سائنس پربھی ہوتا ہے ۔ 
جیسا کہ موجودہ عالمی وبا میں دیکھا گیا ‘ فی الحال اس کی روک تھام یا علاج کیلئے کوئی دوا دستیاب نہیں۔ اس وائرس کو پھیلنے سے روکنے کا واحد ذریعہ احتیاط اور حفاظتی اقدامات ہیں۔ ان اقدامات کو اختیار کرنے کا دارومدار اس پر ہے کہ عوام کس حد تک باخبر ہیں ؟ وہ معلومات کی بنیاد پر اپنے رویوں میں کس حد تک تبدیلی لانے پر قادر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہی پالیسی کے دنیا بھر میں مختلف نتائج دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ جنوبی کوریا میں جزوی لاک ڈائون کامیاب رہا جبکہ بھارت میں مکمل لاک ڈائون بھی کام نہیں دے رہا۔ اسی طرح نیوزی لینڈ نے اس وبا پر قابو پالیا ہے جبکہ برطانیہ اور فرانس ابھی تک وبا کی انتہائی شدت کا سامنا کررہے ہیں۔لیکن یکساں پالیسیاں اور مختلف نتائج رویوں کے مطالعے اور تجزیے کی دعوت دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صحت ِعامہ کی پالیسیاں ایسے پیچیدہ عناصر ہوتے ہیں جن پر ہر ملک میں ردِعمل مختلف ہوتا ہے ۔ اس تنوع کی سب سے بڑی مثال چین تھا۔ اس نے ووہان میں مکمل لاک ڈائون کرکے اس وبا پر قابو پالیا جبکہ بہت سے دیگر ممالک میں لاک ڈائون ایسے نتائج دینے میں ناکام رہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پالیسی اور حکمت ِعملی یکساں تھیں لیکن عوامی رویہ مختلف تھا۔ جس دوران لاک ڈائون ہی صحت ِعامہ کی واحد تدبیر بتائی جاتی ہے ‘ اس کے نفسیاتی مضمرات خارج ازامکان نہیں۔ لفظ لاک ڈائون بذات ِخود منفی تاثر دیتا ہے ۔ انسان جبلتی طور پر آزادی پسند ہے‘ وہ اپنی مرضی کرنا چاہتا ہے۔ ہر قسم کا جبر منفی سوچ پیدا کرتااور ایسے اقدامات پر اکساتا ہے جس میں جان کا خطرہ بھی لاحق ہوسکتا ہے ۔بیرونی محرکات کی موجودگی میں انسانی رویے کا عمل اور ردِعمل مختلف ہوتا ہے ۔ اپنے ارد گرد پیش آنے والے اچھے بُرے واقعات پر لوگوں کا رویہ کیا اور کیوں ہوتا ہے ؟ یہ سوال صحت ِعامہ کا لازمی حصہ ہونا چاہیے ۔ رویے کی سائنس نفسیات سے رہنمائی لیتے ہوئے دیکھتی ہے کہ انسانوں کے رویے کس چیز سے متاثر ہوکر تبدیل ہوتے ہیں۔ ہاورڈ لا سکول کے ایک شہرت یافتہ امریکی سکالر Cass Sunsteinنے پابندی یا جبر کی بجائے رویے سے مطابقت رکھنے والی ''ترغیب‘‘ (Nudge)کی پالیسی کی وکالت کی ہے ۔ اُنہوں نے معاشیات پر نوبل انعام یافتہ رچرڈ تھیلر کے ساتھ مل کر 2008 ء میں اسی نام 'Nudge‘ سے شائع ہونے والی کتاب میں یہ اصطلاح متعارف کرائی تھی ۔ اس کتاب میں اُنہوں نے حکومتوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ عوام کا رویہ بہتری کی طرف تبدیل کرنے کے لیے ہلکے پھلکے‘ دوستانہ انداز میں مداخلت کریں۔ حکومتیں اکثر اوقات اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے سختی سے پابندیاں لگاتی ہے ‘لیکن اس سے انسانی رویوں میں مثبت تبدیلی نہیں آتی ۔ 
طویل لاک ڈائونز کے بعد دنیا میں پیش آنے والے واقعات کو سمجھنا مشکل نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کے تعلیم یافتہ اور سمجھدار افراد سماجی فاصلے کا خیال رکھے بغیر ساحلوں اور پارکوں میں جمع ہیں۔ پاکستان میں لوگ دکانوں اور گلیوں میں اس طرح جمع ہوگئے جیسے جیل سے رہاہو کر آئے ہوں‘ یا کل نہیں ہونی ۔ چاہے ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پذیر‘ عوام خواندہ ہوں یا ناخواندہ‘ حکومت کے قوانین کی پامالی واضح دکھائی دی۔ رویوں کی سائنس اس کی وضاحت کرتی ہے ۔ جب بھی کوئی نجی یا سرکاری ادارہ متبادل آپشن ختم کرتا ہے ‘ یا کوئی ایجنسی مداخلت کرتی ہے تو کچھ لوگ بغاوت کردیتے ہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کنٹرول کرنے سے کوئی فائدہ نہ ہویا ممکن ہے کہ مزید نقصان ہوجائے ۔ رویے کی تبدیلی کے لیے ایک متفرق حکمت ِعملی کی ضرورت ہے :
1۔ تبدیلی کا پیغام اس طرح پہنچائیں کہ عوام اسے مرضی سے قبول کرلیں۔ یک لخت اور مکمل پابندی لوگوں کو خوفزدہ کردیتی ہے ۔ یورپی اور امریکی رہنمائوں نے پہلے تو وائرس کے بارے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا لیکن پھر عوام کوتیار کیے بغیر یک لخت لاک ڈائون مسلط کردیا‘ مگرانتہائی غیر سنجیدگی کے بعد انتہائی سختی نے خوف کی فضا قائم کردی۔ 
2۔ سختی نہیں ترغیب دیجئے۔ مختصر مدت میں رویے کی تبدیلی کے لیے حکومت کے قواعد وضوابط انتہائی ضروری ہیں ‘ لیکن دیر تک ان کا نفاذ بغاوت کے جذبات پیدا کرتا ہے ۔جارج فلائیڈ کی ہلاکت پر پھوٹ پڑنے والے ہنگامے نہ صرف سیاہ فام شہریوں سے امتیازی سلوک روا رکھنے والے نظام ِ انصاف کے خلاف جذبات کا اظہار ہیں بلکہ ان کی آڑمیں عوام نے لاک ڈائون کی خلا ف اپنے دل کی بھڑاس بھی نکا لی ہے ۔ 
3۔ معاشرے پر اثر انداز ہونے والے عوامل کی اہمیت مسلّم ہے ۔ مقامی حکومتیں اور گلی محلے کی رضاکارتنظیمیں طے شدہ ضوابط پر پابندی کی نگرانی کے لیے بہتر بندوبست ہیں۔ پاکستان نے ٹائیگرفورس بنائی ہے کہ یہ فورس عوام سے رابطے میں رہ کر اُنہیں بات سمجھائے‘ مگرپیغام عوام کی اپنی زبان میں‘ عام فہم لہجے میں دیا جانا چاہیے۔ 
لاک ڈائونز غیر فطری ہیں۔ ان سے انسانی رویے غیر فطری راہ پر چل نکلتے ہیں۔ ان سے نمٹنے کے لیے سرکاری پالیسی اور ضابطے کام نہیں دیں گے ۔ ہم نے سنگاپوراور جاپان جیسے ممالک میں دیکھا کہ جیسے ہی پابندی نرم کی گئی‘ لوگ اپنی پرانی ڈگر پر چل نکلے ۔وائرس سے متاثرہ افرادکی تعداد میں اضافہ ہونے لگا؛ چنانچہ ضروری ہے کہ رویے اور ردعمل کی سائنس کو سمجھا جائے اور ایسے نرم اور دوستانہ عوامل استعمال کیے جائیں جو دیرپا تبدیلی کا باعث بنیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں