تحریک چلانے کیلئے درکار عوامل

تحریکوں کا مقصد عوام کو متحرک کرنا ہوتا ہے ۔ اُنہیں جسمانی‘ ذہنی‘ جذباتی اور روحانی طورپرابھارا جاتا ہے ۔ تمام کامیاب تحریکیں وقت گزرنے کے ساتھ تبدیلی سے گزرتی ہیں۔ احتجاج سے لے کر مزاحمت اور جدوجہد تک کے سفر کیلئے تحریک کو ایک ردھم کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد کے دل و دماغ کو اپنی طرف کھینچتے ہوئے اپنے اہداف حاصل کرسکے ۔ تحریکیں سماجی ہوں یا مذہبی یا سیاسی ‘ سب کا مقصد تبدیلی لانا ہوتا ہے ۔تبدیلی بذات ِخود ایک مشکل امر ہے ۔ اس کیلئے پرانی‘ راسخ عادات اور تصورات کو ترک کرنا ہوتا ہے‘ اپنے آرام و سکون کو خیر آباد کہہ کر میدان ِعمل میں آنا اور جامد روایات کو چیلنج کرنا ہوتا ہے ۔ تبدیلی مہنگی ہی نہیں غیر یقینی بلکہ خطرناک بھی ثابت ہوسکتی ہے ؛ چنانچہ کسی احتجاج کو تحریک کی شکل اختیار کرنے کیلئے بہت سے عوامل کی ضرورت ہوتی ہے ۔ 
احتجاج کی وجہ سماجی بھی ہوسکتی ہے اور معاشی بھی ۔ فرانس کی پیلی جیکٹ تحریک صدر میکرون کی طرف سے کفایت شعاری کے اقدامات کے خلاف تھی ۔ دوسری طرف ''بلیک لائف میٹرز‘‘ کے عوامل سماجی تھے ۔ احتجاج کی کامیابی کا پیمانہ حاصل کردہ مقاصد ہوتے ہیں۔ اگرچہ کورونا وبا کے دوران فرانس میں پیلی جیکٹ تحریک اپنا زور کھو بیٹھی لیکن'' بلیک لائف میٹر ز‘‘شروع ہی کورونا کے دوران ہوئی تھی۔اس نے عوام پر گہرا اثر چھوڑا۔ ''بلیک لائف میٹر ز‘‘تحریک 26 مئی کوMinneapolisسے شروع ہوئی۔ اس کی وجہ ایک سیاہ فام امریکی جارج فلائیڈکی ایک پولیس افسر کے ہاتھوں ہلاکت تھی ۔ پولیس افسر نے جارج کی گردن اپنے گھٹنے کے نیچے آٹھ منٹ تک دبائے رکھی یہاں تک کے اُس کی موت واقع ہوگئی ۔ اس سفاکیت پر ہونے والے احتجاجی مظاہرے امریکا کی پچاس ریاستوں سے لے کر یورپ تک پھیل گئے ۔ دوسری طرف پیلی جیکٹ تحریک کا دائرہ سمٹتے سمٹتے محدود او ر معدوم ہوگیا۔ 
پاکستان میں بھی ہم نے بہت سے احتجاجی مظاہرے دیکھے ہیں لیکن اُن میں سے بہت کم کسی تحریک کی شکل اختیار کرسکے ۔ موجودہ حزب ِ اختلاف نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم ) کے عنوان سے الائنس تشکیل دیا۔ اس گیارہ جماعتی اتحاد کا دعویٰ ہے کہ حکومت کو ہر صورت ہٹایا جائے گا کیونکہ اُن کے خیال میں یہ حکومت ''سلیکٹڈ‘‘ ‘ اور کارکردگی دکھانے میں ناکام ہوچکی ہے ۔ اُن کا اعلانیہ دعویٰ ہے کہ یہ تحریک اتنی طوفانی ہوگی کہ حکومت 2021ء کے آغاز ہی میں گر جائے گی ۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کسی تحریک کو کون سے عناصر کامیاب بناتے ہیں اورموجودہ تحریک اس معیار پر کہاں کھڑی ہے؟
1۔ مقصد کی اہمیت: کسی تحریک میں شرکت کیلئے لوگوں کوا بھارنا سب سے اہم ہے ۔ صرف اسی صورت تحریک کا اعلانیہ مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے جب اس میں عوام کی کثیر تعداد شریک ہو۔ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ مقصد اتنا اہم ہو کہ لوگ اپنے روز مرہ کے معمولات بالائے طاق رکھتے ہوئے تحریک میں شریک ہوجائیں ۔ یہ مقصد معاشی‘ سماجی یا سیاسی ہونا چاہیے۔ معاشی حالات‘ جیسا کہ مہنگائی ‘ بے روزگاری‘ ٹیکسز‘ اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ وغیرہ عوام کو احتجاج کی راہ دکھاتے ہیں ۔ یہ احتجاج عام طور پر ایسے گروہوں کی طرف سے ہوتے ہیں جو ان سے براہ ِراست متاثر ہوں ‘ یا آبادی کا ایک بڑا حصہ ان کی وجہ سے پریشانی کا شکار ہو۔ عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ جب پٹرول کی قیمتیں بڑھتی ہیں یا لوگوں کو روزگار نہیں ملتایا نئے ٹیکسز عائد کیے جاتے ہیں تو لوگ جمع ہوکر احتجاج کرتے ہیں۔ پاکستان میں ہم نے دیکھا کہ جب تاجر وں سے کہا گیا کہ وہ پچاس ہزار کی خریداری پر رسید کے ساتھ شناختی کارڈ کی کاپی لگائیں تو اُنہوں نے احتجاج کیا اور چند دنوں کیلئے ہڑتال کردی ۔ عام طور پر معاشی وجوہات کی بنا پر احتجاج ہوتا ہے ‘ پھر مذاکرات ہوتے ہیں اور زندگی معمول پر آجاتی ہے ۔ 
طویل المدت تحریکوں کیلئے ضروری ہے کہ ان کی وجوہات عالمی اصولوں کی بنیاد پر ہوں۔ اصولوں کی بنیاد پر تحریکیں دیر تک اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہیں کیونکہ وہ انسانی اقدار کے قریب ہوتی ہیں؛ چنانچہ ناانصافی‘ عدم مساوات ‘ نسلی امتیاز یا مذہبی جذبات کی بنیاد پر چلنے والی تحریکیں عالمگیر اور دیرپاہوتی ہیں‘ جیسا کہ کشمیر میں حقوق کی پامالی کے خلاف تحریک ۔ پی ڈی ایم کی شروع کردہ حالیہ تحریک کے تسلسل کا دارومدار اس پر ہے کہ اس تحریک کا بیانیہ عوام کو کس حد تک متاثر کرتا ہے ۔ اگر موجودہ نظام کی بجائے یہاں مارشل لاہوتاتو احتجاج میں کافی جان پڑجاتی ‘ لیکن ایک جمہوری حکومت ‘ جسے وہ اپنے تئیں سلیکٹڈ قرار دیتے ہیں‘ کے خلاف ایسی تحریکیں دیر تک قائم نہیں رہ سکتیں کیونکہ احتجاج کرنے والے خود اسی نظام سے استفادہ کررہے ہوتے ہیں۔ لیکن اگر احتجاج کا جواز ذاتی مفادسمجھا جائے تو پھر اس غبارے سے بہت جلد ہوانکل جائے گی۔ 
2۔ مقاصد کا واضح ہونا: تحریک کی طرف لوگوں کے متوجہ ہونے کیلئے ضروری ہے کہ اس کے مقاصد واضح ہوں کہ تحریک کیا ہے ‘ یہ کیا حاصل کرنا چاہتی ہے اور اس کا بنیادی ہدف کیا ہے؟ تحریک ِ پاکستان کا مقصد مسلمانوں کیلئے ایک الگ سرزمین کا حصول تھا۔ نیلسن منڈیلا کی نسل پرستی کے خلاف تحریک کا مقصد سیاہ فاموں کیلئے مساوی حقوق یقینی بنانا تھا ۔ یہ واضح مقاصد تھے ۔لوگ اُنہیں دیکھ اور سمجھ سکتے تھے ۔ پی ڈی ایم کے اعلانیہ مقاصدمیں ہم آہنگی کا فقدان ہے ۔مسلم لیگ( ن) کی قیادت کہہ رہی ہے کہ یہ تحریک حکومت نہیں بلکہ حکومت لانے والوں کے خلاف ہے ‘ پیپلز پارٹی حکومت کو نہیں ہٹانا چاہتی کیونکہ اس صورت میں اس کی اپنی سندھ حکومت بھی چلی جائے گی ‘ جمعیت علمائے اسلام (ف) نئے انتخابات چاہتی ہے کیونکہ ان کے رہنما انتخابی شکست کے بعد اسمبلی سے باہر ہیں‘ وہ واپس اسمبلی جانے کے لیے بے تاب ہیں۔ گویا تحریک کا نعرہ غیر واضح ہے؛ چنانچہ یہ عوام کے ذہنوں کو متاثر نہیں کرپائے گی ۔ اگر وہ پی ڈی ایم کو کامیاب کرنا چاہتے ہیں تو اُنہیں تحریک کے مقصد میں ہم آہنگی لانا ہوگی ۔ 
3۔ ولولہ انگیز قیادت: کسی بھی تحریک کی کامیابی کیلئے شاید سب سے فیصلہ کن عنصر اس کے لیڈر کی ساکھ ہے ۔ قائد ِاعظم محمد علی جناح کے ساتھ وہ لوگ بھی نکل کھڑے ہوئے جو اُن کی زبان نہیں سمجھتے تھے ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ لوگوں کو ان کے کردار اور ساکھ پر یقین تھا ۔ ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ کی مشہور تقریر‘ ''میرا ایک خواب ہے ‘‘ انسانی تاریخ کی شاہکار تقریر قرار پائی۔ اس تحریک نے سیاہ فاموں کی قسمت تبدیل کردی۔ بدترین جبر کے باوجود لوگ ڈاکٹر کنگ کے ساتھ کھڑے رہے ۔ ڈاکٹر کنگ نے بھی اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر سامنے آکر قیادت کی ۔ مگریہاں پی ڈی ایم کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ان میں سے کسی رہنما کی بھی ساکھ نہیں‘ اور نہ ہی وہ عوام کے دل میں جوش و ولولہ پیدا کرکے اُنہیں اپنے ساتھ چلنے یا قربانیاں دینے کیلئے ابھار سکتے ہیں۔ مسلم لیگ( ن) کی مرکزی قیادت نے لندن سے تقریر کرتے ہوئے بلاشبہ ہلچل مچا دی لیکن جب کوئی لیڈر ہزاروں میل دور بیٹھا ہو تو لوگ اُس کی خاطر مزاحمت کیلئے باہر نہیں نکلیں گے ۔ 
تحریکوں کو شروع کرنا آسان‘ لیکن انہیں مقصد کے حصول تک جاری رکھنامشکل ہوتا ہے ۔ دوسری طرف یہ بات درست ہے کہ کسی بھی تحریک کے اثر‘نوعیت اور نتائج کا قبل از وقت اندازہ نہیں لگایا جاسکتا اور نہ ہی وہ طے شدہ راستے پر چلتی ہیں۔ اگر پی ڈی ایم کو اپنے احتجاج کا سلسلہ جاری رکھنا ہے تو ضروری ہے کہ یہ اپنے مقصد میں ہم آہنگی پیدا کرے ۔ نیز اس کی قیادت ایسے رہنما کے ہاتھ میں ہوجو اپنی زندگی خطرے میں ڈالنے کیلئے تیارہو۔ لوگوں کے دل و دماغ کو متاثرکرنے کیلئے یہ عوامل درکار ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتو یہ گزشتہ موسم سرما کی طرح اس مرتبہ بھی حکومت کو چلتا کرنے کی بجائے خودبے نقا ب ہوجائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں