امریکی جمہوریت کا فیصلہ اور پاکستان

''انتخابات طے شدہ تھے‘ وہ اسٹیبلشمنٹ کا آدمی ہے‘ جعلی ووٹ ڈالے گئے‘ انتخابی نظام غیر فعال ہوگیا‘ ہم نتائج تسلیم نہیں کریں گے‘‘ یہ تو ہے پاکستانی انتخابات کے بعد معمول کی بیان بازی لیکن ٹھہریں‘ یہاں ہم پاکستانی انتخابات کی نہیں245 سال پرانی امریکی جمہوریت کی بات کررہے ہیں۔ دنیانے وہ کچھ دیکھا جو اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا ۔ امریکی سیاست کی تمام تر طاقتیں اور خامیاں بے نقاب ہوگئیں۔ یہ ایک غیر معمولی پیش رفت ہے کیونکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے امریکا کو جمہوریت کے دیوتا کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ دنیا میں ترقی کی دوڑ میں ناکام رہنے والے ممالک کو امریکی جمہوریت کے ستون کی مثال دی جاتی تھی ‘ لیکن اب ایسا نہیں ہے ۔ گزشتہ چند عشروں سے امریکی جمہوریت کے ماڈل پر سوالات اٹھنا شروع ہوچکے تھے‘ اس کی بنیادیں سرک رہی تھیں لیکن جب صدر ٹرمپ انتخابات ہارے تو اس نظام کی طاقت کو ایک مرتبہ پھر سراہا جانے لگا۔ کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ ابھی اتنی جلدی رائے قائم نہیں کرنی چاہیے ‘ کچھ دیگر کا کہنا ہے کہ پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے ۔ امریکی انتخابی نظام بہت منفرد ہے ‘ ممکن ہے کہ آپ کو مجموعی طور پر کم ووٹ پڑیں لیکن آپ پھر بھی جیت جائیں۔ صدر ٹرمپ نے 2016 ء میں اسی طرح کامیابی حاصل کی تھی ۔ براہ ِراست وو ٹ کی بجائے ایک الیکٹورل کالج اکثریتی ووٹ تشکیل دیتا ہے ۔ امریکا میں الیکٹورل کالج صدر اور نائب صدر کو منتخب کرنے والے ایک اراکین کا گروپ ہے جو آئینی ضرورت کے مطابق ہر چار سال بعدتشکیل پاتا ہے ۔ ہر ریاست اپنی آبادی کے تناسب سے الیکٹورل ووٹ رکھتی ہے ۔ کیلی فورنیا کی آبادی سب سے زیادہ ہے؛چنانچہ اس کے چالیس الیکٹورل ووٹ ہیں۔ سب سے کم آبادی رکھنے والی ریاست وومنگ (Wyoming) کے صرف تین الیکٹورل ووٹ ہیں۔ الیکٹورل ووٹوں کی کل تعداد 538 ہے اور صدر منتخب ہونے کے لیے کم از کم 270ووٹ درکار ہوتے ہیں۔ 
صدر ٹرمپ اور جوبائیڈن کے درمیان کانٹے دار انتخابی معرکہ ہوا۔ عوامی مقبولیت کا میزانیہ تبدیل ہوتا رہا ‘ جیت کی حتمی پیش گوئی ناممکن تھی ۔ نتائج سے قطع نظر اس ''اُم الانتخابات‘‘ سے پانچ اسباق سیکھے جاسکتے ہیں :
1۔ رائے دہندگان کے ارادوں سے خبردار رہیں: امریکی رائے دہندگان ووٹ ڈالنے سے پہلے سوچتے ہیں کہ اس میں میرے لیے کیا ہے ؟ حالیہ انتخابات میں ایک عام امریکی ووٹر کے سامنے دو اہم عوامل تھے ‘ معیشت اور کوویڈ 19۔ عالمی وبا سے پہلے معیشت کافی بہتر جارہی تھی اور وائرس کو ایک عارضی بحران سمجھنے والے امریکیوں نے ٹرمپ کو ووٹ دیا ۔ جو رائے دہندگان ٹرمپ کی طرف سے وائر س کے خطرے سے آنکھیں بند کرلینے اور اس سے ٹھیک طرح نمٹنے میں ناکام رہنے پر ناراض تھے اُنہوں نے جوبائیڈن کو ووٹ دیا ۔ ٹرمپ کا نسلی امتیاز ''بلیک لائف میٹرز‘‘ کی صورت میں ایک تحریک میں ڈھل گیا۔ رائے دہندگان کے سامنے نیلے اور سرخ میں کسی ایک کا انتخاب کرنے کیلئے دیکھنا تھا کہ معاشی گراوٹ زیادہ بڑا بحران ہے یا کوویڈ 19۔ 
2۔ پول اور سروے سے خبردار رہیں: انتخابات سے قبل لیے گئے جائزے 2016 ء میں بالکل غلط ثابت ہوئے تھے ۔ ایسی غلط رپورٹوں پر بہت شور مچا تھا ۔ اس مرتبہ خیال کیا جارہا تھا کہ اندازہ لگانے والے کافی ہوشیار ہوچکے ہیں لیکن ایسا نہیں تھا۔ ووٹوں کی گنتی کے پہلے تین دن کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ مقابلہ کتنا سخت تھا ۔ کسی پول سروے میں ایسے سخت مقابلے کی پیش گوئی نہیں کی گئی تھی ؛ چنانچہ کیا ہوا؟ریسرچ میں ایک عنصر ''سماجی ضرورت کا جھکائو‘‘ ہوتا ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر حقیقی رد ِعمل کو سماجی طور پر ناقابل ِقبول سمجھا جائے تواسے نظروں سے اوجھل رکھ کر جعلی لیکن معاشرے کے لیے قابل ِقبول ردعمل سامنے لایا جاتا ہے ۔ امریکا میں جہاں ٹرمپ کے حامیوں کو نسل پرست یا اس سے بھی بُرے القاب سے یاد کیا جاتا ہے‘ یہ حیرت کی بات نہیں کہ اُنہوں نے اپنے سیاسی جھکائو کو چھپائے رکھا ۔ سروے کرنے والوں کی نظروں سے ایک اور راز جو اوجھل رہ گیا وہ رائے جاننے میں ناکامی تھا ۔ فون کال کا جواب دینے کی تعداد میں شدید کمی آئی ہے کیونکہ لوگ اجنبی کال نہیں لیتے ہیں۔ پیوریسرچ سنٹر کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو عشروں کے دوران فون کال کا جواب دینے کا تناسب جو چند عشرے پہلے 36فیصد تھا اب کم ہوکر صرف چھ فیصد رہ گیا ہے۔کم مشہور کمپنیوں کی فون کال کا جواب دینے کا تناسب تین فیصد یا اس سے بھی کم ہے ۔ اس رجحان کی وجہ سے آبادی کے مجموعے رویے کی پیش گوئی کرنا بہت مشکل ہوچکا ہے ۔ 
3۔ پالیسی اثرات سے خبردار رہیں: سفید فام نسل کی طرف جھکائو رکھنے والی پالیسی‘ جس کی وجہ سے ٹرمپ منتخب ہوئے تھے‘ بلاشبہ مقبول تھی اور اس کی وجہ سے حالیہ انتخابات میں اُنہوں نے جوبائیڈن کے ساتھ سخت مقابلہ کیا ۔ طویل المدت پالیسیاں جن کا دارومدار اصولوں اور اقدار پر نہ ہو‘ منفی ردعمل کی حامل ہوسکتی ہیں۔مسلم مخالف‘ تارکین وطن مخالف اور سیاہ فام مخالف پالیسیوں کی وجہ سے ریپبلکن پارٹی کے سمجھ دار اور باشعور حامی ٹرمپ سے پیچھے ہٹ گئے ۔ا گرچہ اُن کی تعداد بہت زیادہ نہیں تھی لیکن اہم ریاستوں میں ہونے والے سخت مقابلے میں جوبائیڈن کا پلڑا جھکانے کیلئے کافی تھی ۔دوسری طرف جنگ مخالف پالیسی اور افغانستان کے ساتھ پر امن مذاکرات مقبول عام پالیسی تھی جس کی ڈیموکریٹس نے حمایت جاری رکھی۔ 
4۔ وقتی مقبولیت سے خبردار: بھڑکیلے تصورات اور گرما گرم بیانات رائے دہندگان کی حمایت حاصل کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں لیکن یہ جنون بہت جلد اپنا زورکھو دیتا ہے ۔ ووٹر محسوس کرتے ہیں کہ جو بائیڈن بہت پرکشش تو نہیں ہیں لیکن پہلی امریکی خاتون نائب صدر کے طور پر کمیلا پر کشش ہیں‘اور پھر وہ جنوبی علاقوں سے تعلق رکھنے والی سیاہ فام عورت ہیں‘ لیکن پھر بارک اوباما بھی سیاہ فام تھے جنہوں نے امن کے بلندوبانگ دعوے تو کیے لیکن کسی بھی امریکی صدر سے زیادہ اسلحہ فروخت کردیا۔ صرف یہی نہیں‘اُن کے دور میں حریفوں پر کسی بھی امریکی صدر کی نسبت فی گھنٹہ کے حساب سے زیادہ بمباری کی گئی۔ اسی طرح رائے دہندگان جانتے ہیں کہ ٹرمپ کے کوویڈ 19 کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے معیشت متاثرہوئی ۔ ان معروضات کی وجہ سے انتخابات میں فتح کافرق بہت کم رہا ۔ 
5۔ سوشل نیٹ ورکنگ کے ردعمل سے خبردار رہیں: صدر ٹرمپ نے 2016 ء میں سوشل میڈیا کی وجہ سے صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی ۔ وہ 2020 ء میں ایک بار پھر سوشل میڈیا پرتکیہ کررہے تھے ۔ صدارت کے عہدے کیلئے معلومات کی جنگ لڑی جاتی ہے ۔ اس جنگ میں بیان بازی اور تردید‘ دونوں بہت اہم ہتھیار ہیں جن کے نتائج مفید بھی ہوسکتے ہیں اور مہلک بھی۔امیدواروں کو رائے دہندگان کے ساتھ ابلاغ کرنا چاہیے لیکن سوشل میڈیا کی ریٹنگ کے مطابق اپنی سوچ کو بے لگام نہیں کرنا چاہیے ۔اگرچہ امریکیوں نے اپنی حکومت تبدیل کرلی ہے ‘ لیکن باقی دنیا کیلئے امریکہ کم وبیش ویسا ہی رہے گا۔ پاکستان جغرافیائی اور تزویراتی طورپر اہمیت رکھتا ہے ۔ ماضی میں اس کی مدد سے افغانستان میں جنگ شروع کی گئی تھی‘ اس وقت اس کی مدد سے جنگ ختم کی جارہی ہے ۔ اس وقت پاکستان کے سامنے امکانات کی ایک کھڑکی کھلی ہے ۔ اسے افغانستا ن میں امن کے داعی بلکہ سہولت کار کے طور پرخود کو امریکا کے لیے ناگزیر ثابت کرنا چاہیے تاکہ امریکا افغانستان سے رخصتی کے لیے اس پر اب اور مستقبل میں تکیہ کرتا رہے ۔ 
امریکا‘ اسرائیل ‘ بھارت کا گٹھ جوڑ بہت طاقتور رہے گا۔ کوویڈ 19 سے سب سے پہلے نکل کر بحال ہونے والے ملک چین کی راہ میں مزاحم ہونے کیلئے امریکا کا جھکائو بھارت کی طرف ہوگا۔ پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ وہ امداد نہیں تجارت کیلئے تعلقات قائم کرے ۔ اس دوران جنوبی ایشیا اور افریقہ کے ساتھ مضبوط معاشی روابط قائم کرے تاکہ امریکا پر معاشی انحصار کم ہوسکے ۔ کوویڈ 19 اور امریکی انتخابات کے بعد اگر پاکستان اپنی معیشت کو سنبھال لیتاہے تو اس کی سیاسی اہمیت میں اضافہ ہوگا۔ اس کے بعد پاکستان کے پاس خطے میں امن اور خوشحالی کے اہم فریق کے طور پر اپنے تصور کو عملی شکل دینے کا موقع ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں