ویکسین اور انسانیت کی حقیقی جانچ کا آغاز

بالآخروہ بڑادن آن پہنچا۔ کوویڈ 19 کی ویکسین منظور ہوچکی۔ تادم ِ تحریر اس کی دستیابی شروع ہے ۔ دنیا سکون کا سانس لے سکتی ہے ۔ امید کی شاخ ہری ہونے لگی ہے‘ تاہم گلستان ابھی خزاں کے خدشات کی زد میں ہے ۔اس دوران سازش کی تھیوریاں بھی انگڑائی لے کر جاگ چکی ہیں۔ کہا جارہاہے کہ آزمائشی تجربات ابھی نامکمل تھے ‘ ویکسین میں کوئی تباہ کن چپ لگائی گئی ہے ‘ یہ قبل ازوقت ہے ‘ یا اب دیر ہوچکی ‘ یہ ابھی جانچ کے مراحل میں ہے ‘ یہ زائد المیعاد ہے وغیرہ۔
جس طرح کوویڈ 19 صیغہ ٔراز تھا‘اس کی ویکسین بھی پراسراریت میں لپٹی ہوئی ہے ۔ ویکسین تیار کرنے کی دوڑ ‘ اس کے درست نتائج کی شرح‘ وسیع پیمانے پر تیاری کی مسابقت‘ اورکثیر آباد ی کے لیے اسے خریدنے کی سرتوڑ کوششیں جاری ہے ۔ ویکسین تیار کرنے کی دوڑ کا تجرباتی مرحلہ چوہوں کے بعداب انسانوں تک پہنچ چکا ۔ اصل آزمائش اس بات کی ہوگی کہ کیا انسان اس تجربے کا مفعول بنتے ہیں یا انسانیت اپنی پہچان برقرار رکھ پاتی ہے ؟دنیا کے بہت سے انسان سمجھتے ہیں کہ کوویڈ 19 دنیا پر مالی اور سیاسی غلبہ حاصل کرنے کی ایک اور کوشش تھی ۔ ویکسین کی تیاری میں پہل کرنے سے حاصل ہونے والا فائدہ اور اس کے نتیجے میں کمائی جانے والی دولت دنیا میں مزید عدم مساوات کا باعث بنے گی ۔ 
امریکا‘ برطانیہ‘ روس اور چین ویکسین تیار کرنے کی دوڑ میں شامل ہیں۔ دنیا بھر میں ایک سو پچاس سے زائد کورونا وائرس ویکسین تجرباتی مراحل میں ہیں۔ درحقیقت ویکسین کی تیاری میں عشرے لگ جاتے ہیں ۔ عام طور پر کسی ویکسین کو مارکیٹ میں لانے کے لیے دس سے پندرہ سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے ۔ اب تک دنیا میں تیز ترین تیار کی گئی ویکسین وہ تھی جو 1960 ء کی دہائی میں گلے کی سوجن (mumps) کے مرض کی روک تھام کے لیے تھی ۔ اسے صرف چار سال میں تیار کرلیا گیا تھا ۔ ویکسین کی تیاری تین مراحل سے گزرتی ہے ‘ لیب اور کلینکل تجربات سے گزار کراسے منظوری کے لیے ریگولیٹری اداروں کے پاس بھیجا جاتا ہے جس پر بذات ِخود بہت وقت صرف ہوتا ہے ۔ کورونا ویکسین نے ان مراحل میں وقت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ جن ویکسینز کی دستیابی بھی ممکن ہوچکی ‘ان میں سب سے پہلی BioNTech Modernaکو میسا چوسٹس سے تعلق رکھنے والی ایک بائیو ٹیک کمپنی نے امریکہ کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے تعاون سے تیار کیا ۔اسے برطانیہ میں استعمال کیا جارہا ہے ۔ آکسفورڈ یونیورسٹی بھی ایک ادویہ ساز کمپنی آسٹر ا زینکا کے تعاون سے اگلے چند ہفتوں کے دوران اپنی ویکسین متعارف کرانے جارہی ہے۔چین کی ادویہ ساز کمپنی شینو ویک (SinoVac) برازیلی ریسرچ سنٹر بیوتنتان کے ساتھ مل کر ویکسین کی تیاری کے آخری مراحل میں ہے ۔ روسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے سرکاری ادارے رشین ڈائریکٹ انوسٹمنٹ فنڈ کے اشتراک سے ملک میں ویکسین متعارف کرادی ہے ۔ اب روس یہ ویکسین باقی دنیا کے لیے بھی دستیاب بنانے جارہا ہے ۔ بھارت کی بائیو ٹیکنالوجی کی کمپنی کوویکسن (COVAXIN) انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ اینڈ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف وائرالوجی کے تعاون سے ویکسین کی تیاری کے حتمی مراحل میں ہے ۔ 
جب انسان ویکسین تیار کرلیں گے تو پھر انسانیت کی جانچ کا مرحلہ درپیش ہوگا ۔ ویکسین کی دستیابی کے حوالے سے دنیا کو تین چیلنجز کا سامنا ہے :
1۔ ویکسین کی ترجیحی بنیادوں پر فراہمی : ویکسین کو سب سے پہلے حاصل کرنے کی لائن لگی ہوئی ہے ۔ ممالک اپنی ترجیحات طے کرچکے ہیں۔ کئی سطح پر فہرستیں مرتب ہوچکیں ۔ برطانیہ میں ون اے لیول پر 21 ملین ہیلتھ کیئرورکرز اور تین ملین دیگر طبی عملے ‘ جیسا کہ نرسوں کو ترجیحی بنیادوں پر ویکسین دی جائے گی کیونکہ یہ افراد وائرس سے متاثر ہونے کے خطرے سے دوچار ہوتے ہیں۔ ون بی لیول پر دیگر اہم سٹاف جیسا کہ سکولوں کے تدریسی عملے کو ویکسین دی جائے گی ۔ون سی لیول پر 65 سال سے بڑی عمر کے افراد‘ جنہیں صحت کے دیگر مسائل کا بھی سامنا ہے اور جنہیں کوویڈ مزید پیچیدہ کرسکتاہے ‘ کے لیے ویکسین دستیاب بنائی جائے گی ۔ پاکستان میں ہمیں تمام منصوبے میں شفافیت کو یقینی بنانا ہوگا۔ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ بھاری مقدار میں ویکسین کی بکنگ کرالے کیوں تمام دنیا اسے خریدنے کی دوڑ میں لگ چکی ہے ۔ 
2۔ استحصال کا تدارک: کوروناکے متعلق سب سے زیادہ پھیلنے والی سازش کی تھیوری یہ تھی کہ وائرس کو ایسی کمپنیوں نے پھیلایا ہے جو اس کی ویکسین سے بے اندازہ دولت کمانے کا منصوبہ رکھتی ہیں۔ ادویہ سازکمپنیاں اپنے سٹاک سے بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ سماجی سطح پر دولت مند افراد خود کواور اپنے اہل ِخانہ کو وائرس سے محفوظ بنانے کے لیے رقم خرچ رہے ہیں۔ کاروبار‘ طبقے اور دیگر امتیازات کو استحصال سے طرح روکا جائے؟ حکومت کو اس افراتفری کی پیش بینی اور وائرس سے بچائو کے لیے طریق کارکا میرٹ طے کرنا چاہیے ۔ 
3۔ دولت اور انسانی ہمدردی کی جانچ : ویکسین کی تقسیم کے اس اہم ترین مرحلے میں صرف ادویہ ساز کمپنیوں کو ہی نہیں بلکہ تمام کاروبارکوکردارادا کرنا چاہیے ۔ اسے تین سطحوں پر فراہم کرنے کی ضرورت ہے ‘ یعنی حکومت ‘ کمپنیاں اور کمیونٹی۔ کوویڈ کے پھیلائو کے دوران ہم نے دیکھا کہ پاکستان سے زیادہ فیاض شاید ہی کوئی معاشرہ ہو۔ وہ دوسروں کی مدد کرنا اپنا مذہبی اور روایتی فرض سمجھتے ہیں۔ بی بی سی نے اس پر مضامین شائع کیے ہیں کہ کس طرح پاکستان میں خوراک کی تقسیم کی روایت کے ذریعے لاک ڈائون کے دوران بہت سے افراد کو بھوکوں مرنے سے بچالیا گیا ۔ 
ہمیں انسانی جانیں بچانے کے لیے فیاضی کے اسی جذبے کو بروئے کار لاتے ہوئے ویکسین کو دوسرے کے ساتھ شیئر کرنا ہوگا۔ کاروباری تنظیمیں اسے اپنی سماجی ذمہ داری کے پروگرام میں شامل کرکے اپنے ملازمین اور اُن کے اہل ِخانہ کو ویکسین لگوائیں۔ گھرمیں کام کرنے والے ملازمین اور اُن کے اہل ِخانہ کی ذمہ داری گھر کے مالکوں پر ہے ۔ جس طرح انہیں خوراک فراہم کی جاتی ہے ‘ انہیں ویکسین بھی لگوائیں۔ ایک وسیع تر مقصد کے لیے تعاون کی فضا لوگوں کو بے غرض اور مخلص ہوکر انسانیت کو سربلند ہونے کا موقع فراہم کرے گی۔ 
تیسرے مرحلے کی آزمائش عام طورپر حتمی مرحلہ سمجھی جاتی ہے ۔ اس میں ویکسین کی اثرانگیزی کی جانچ ہوتی ہے ۔ تاہم کوویڈ میں جانچ کا چوتھا مرحلہ بھی انتہائی اہم ہے تاکہ اس پر انسانوں کا ردِعمل دیکھا جاسکے کہ کیا وہ دولت کمانے کی حرص کو دبا کر فیاضی اور کھلے دل سے کام لیتے ہوئے ویکسین کم وسائل رکھنے والوں کے ساتھ بھی شیئر کرنے کے لیے تیار ہیں یا نہیں ۔ نومبر میں Pfizer کی ویکسین کو 90فیصد مؤثر قرار دیا گیا۔ اس کی قیمت بڑھنے سے اس کے سی ای او نے اس کے شیئرز 5.56 ملین ڈالر کے فروخت کردیے ۔ ممکن ہے کہ فروخت قواعد وضوابط کے مطابق ہی ہو لیکن اس سے پتہ چلتا ہے کہ شیئرز کی قدر انسانی اقدار پر غالب آگئی ۔ ایک طرف دولت ہے تو دوسری طرف لاکھوں دم توڑتے اور وائرس سے نیم جان ہوتے انسان۔ 
ہم سب 2020 ء کو پیچھے چھو ڑ کر آگے بڑ ھ رہے ہیں‘ لیکن اس سال نے ہمیں یہ احساس شدت سے دلایا ہے کہ انسانی جان کتنی نازک ہے اور انسان چاہے امیر ہو یا غریب‘ وہ بہرحال عدم تحفظ کا شکار ہے ۔ شروع میں بہت سے دولت مند افراد نے طیارے حاصل کرکے دوافتادہ جزائر پر جانا شروع کردیا تھا۔ اُن کا خیال تھا کہ وہاں وائرس نہیں پہنچ پائے گا۔ لیکن وہ وہاں بھی انفیکشن کا شکار ہوگئے ۔ بکنگھم محل سے لے کر وائٹ ہائوس تک کوئی مقام بھی وائرس کے حملوں سے محفوظ نہ رہا ۔وائرس نے نہ دولت دیکھی اور نہ سیاسی اور سماجی حیثیت ۔ اس سے سبق ملتا ہے کہ جب تک ہر کوئی محفوظ نہیں ہوگا‘ کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں