ریفرنڈم تمام شد؟

یہ ایک ریفرنڈم ہے‘ ایک فیصلہ کن ریفرنڈم‘ بس آر یا پار۔لاہور جلسے سے پہلے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے یہی اعلانات تھے ۔ پیدا کیا گیا ہیجان واقعی متاثر کن تھا لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ مایوسی۔ مینار ِپاکستان میں تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع کرنے کی دعویدار پی ڈی ایم کو وضاحت کے الفاظ نہیں مل رہے ۔ اب اس کے توشہ خانے میں نہ کوئی تدبیر ہے نہ تدبر۔حیران پریشان‘ سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا کرے ۔ گزشتہ دو ہفتے اُنہوں نے اس وضاحت میں ضائع کردیے کہ جلسے میں لوگ تو بہت تھے لیکن میڈیا دکھانے میں ناکام رہا ۔ ایسا کرتے ہوئے وہ خوداس تاثر کو تقویت دے رہے ہیں کہ ریلی ناکام ہوگئی تھی ۔ 
بڑے جلسۂ عام کی منصوبہ بندی اور عوامی طاقت کے مظاہرے کیلئے توجہ درکارہوتی ہے ۔ جہاں تک منصوبہ بندی کا تعلق ہے تو جلسے کے چنائو کامقام درست تھا۔ یہ بھی غلط نہیں کہ ملک میں ریلیوں کا ماحول بنا ہوا تھا اور پھر لاہور کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کا گڑھ سمجھاجاتا ہے ۔ اس جماعت نے 2018 ء میں اس شہر کی 13 میں سے 9 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی ۔ اس کے علاوہ صوبائی اسمبلی کی یہاں سے 20نشستیں انہی کے پاس ہیں۔ یہ اعدادوشمار بہت واضح اور سادہ ہیں۔ ہر حلقے سے چند ہزار لوگ گرائونڈ کو بھر دیتے ۔ پھر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے کارکن بھی تھے ۔ حساب کے مطابق تو جلسہ بہت کامیاب ہونا چاہیے تھالیکن حیران کن طور پر ایسا ہوا نہیں۔ کم و بیش 70 فیصد پنڈال خالی تھا ۔ لاہوریوں کی اس بے اعتنائی نے پی ڈی ایم کے قدموں تلے سے زمین نکال دی ۔ وہ بہانے تلاش کرتے ہوئے سوچ رہے تھے کہ اب کیا کیا جائے ؟ اپنے مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے شہر سے مسترد ہونے کے بعد لانگ مارچ کا جوکھم ایک تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا تھا؛ چنانچہ اعلان کیا گیا کہ اب فروری کے آغاز میں اعلان کیا جائے گا کہ اگلاجلسہ کب ہوگا۔ اس احتجاجی تحریک کے غبارے سے ہوا نکلنے کی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں:
1۔ جوشیلے اندازوں کی غلطی: اس سے پہلے ملتان ریلی نے پی ڈی ایم کو غلط فہمی کا شکار کردیا تھا۔ حکومت نے اس سے نمٹنے کیلئے غلط طریقہ اپنایا۔ قاسم باغ سٹیڈیم میں جلسے کی اجازت نہ دی اور راستے میں ہرقسم کی رکاوٹیں کھڑی کردیں۔ ا س کے ردعمل نے ملتان ریلی کو کامیاب بنا دیا ۔ میڈیا نے کئی دنوں تک حکومت کے ہر اقدام کی کوریج کی ۔ اس وجہ سے بہت سے لوگ ایک تنکا تک دہرا کیے بغیر ہیرو بن گئے ۔ اس سے پی ڈی ایم کو یقین ہوگیا کہ حکومت یہی غلطی لاہور میں بھی دہرائے گی اور اس سے تاثر جائے گا کہ حکومت پی ڈی ایم کو ملنے والی عوامی حمایت سے خائف ہے ۔ مریم نواز نے لاہور کے مرکزی حلقوں میں ریلی نکالی جن میں کافی ہجوم دیکھنے میں آیا۔ اس نے پی ڈی ایم کی توقعات بڑھا دیں کہ ایک تاریخی جلسہ ہونے جارہا ہے ‘ لیکن اس کے دونوں اندازے غلط نکلے ۔ حکومت نے عقل مندی سے کام لیتے ہوئے ملتان والی غلطی نہ دہرائی اور پی ڈی ایم کو فری ہینڈ دے دیا ۔ سڑکوں پرعوام کے رش نے مریم نواز کو غلط فہمی کا شکار کردیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ سڑکوں پر ہونے والے واقعات میں مقامی افراد اکٹھے ہوجاتے ہیں ۔ وہ دراصل اپنے گھروں کے باہر ہی کھڑے ہوتے ہیں جس سے ''بھرپور استقبال‘‘ کا ماحول بن جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بہت زیادہ ہیجان برپا کرنے کے باوجود اقبال پارک ویرانی کا منظر پیش کررہا تھا ۔ 
2۔ بامعنی نعرے کا فقدان : کسی بھی تحریک کو زندہ رکھنے کیلئے عوام کو متحرک کرنا ضروری ہے تاکہ وہ کسی نعرے کو بامقصد سمجھتے ہوئے گھروں سے نکلیں۔ لاہور جلسے میں سچائی بے نقاب ہوگئی ۔ نہ صرف یہ کہ شرکا کی تعداد بہت مایوس کن تھی بلکہ مرکزی قائدین کی تقاریر بھی بے جان تھیں۔ وہ عوامی جذبات ابھارنے میں ناکام رہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی سیاسی رقابت اور اچکزئی کے پنجاب مخالف بیانیے نے عوام کو بدظن کردیا ۔ درحقیقت اُنہیں جلسے کے بعد اگلے اقدامات کا پھر سے اعلان کرنا پڑا۔ اس سے عوام کو بھی پتہ چل گیا کہ پی ڈی ایم کے تلوں میں اب تیل نہیں رہا ۔ 
3۔ بہت زیادہ رہنما: پی ڈی ایم کے ساتھ ایک اور مسئلہ بہت زیادہ رہنمائوں کی سٹیج پرموجودگی ہے ۔ ہر پارٹی کے اپنے لیڈر اور اپنا ایجنڈا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے پاس پی ڈی ایم کی قیادت ہے لیکن ضروری نہیں کہ تمام پارٹیاں اُن کے ایجنڈے سے متفق ہوں۔ ہر پارٹی کے اندر اور پارٹیوں کے درمیان دراڑیں پڑتی دکھائی دے رہی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کی پارٹی کے اہم رہنما جیسا کہ حافظ حسین احمد اور مولانا شیرانی پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی بھی خاموشی سے خود کو جمعیت علمائے اسلام سے دور کررہی ہے ۔ بلاول مردان جلسے میں نہ گئے جبکہ مولانا نے 27 دسمبر کو لاڑکانہ جانے سے گریز کیا ۔ اس دوران پاکستان مسلم لیگ (ن) مریم نواز کے سلگتے ہوئے بیانات کی تمازت محسوس کررہی ہے ۔ لاہور میں پارٹی کی کارکردگی کے بھی مسائل ہیں۔ پرویز ملک اور ایاز صادق‘ دونوں نے مسلم لیگ( ن) لاہور کا صدر بننے سے معذرت کرلی ۔ اس سے( ن) لیگ کے رہنمائوں کے درمیان اختلافات ظاہر ہوگئے ۔ پی ڈی ایم کی کاٹھ کی ہنڈیا بیچ چوراہے کے پھوٹنے کاوقت قریب دکھائی دیتا ہے ۔ 
حکومت کا طرز ِعمل بہت عمدہ رہا ‘ اس نے لاہور جلسے میں مداخلت نہیں کی ؛ چنانچہ اپوزیشن ناکام جلسے پر حکومت پر الزام لگانے کی'' سہولت‘‘ سے محروم ہوگئی ۔ اُنہوں نے اپوزیشن کے مستعفی ہونے کی دھمکی کے غبارے سے ہوا نکالنے کیلئے سینیٹ کے انتخابات جلدی کرانے کا بھی اعلان کردیا ۔ فروری میں ہونے والے ضمنی انتخابات کی وجہ سے عین ممکن ہے کہ پی ڈی ایم اپنی تحریک کو قدرے التوا میں ڈال دے ‘ جس کا رانا ثنا اللہ نے عندیہ دے دیا ہے ۔ یہ تمام اشارے بکھرے ہوئے ‘ بے سمت ‘ پریشان ہجوم کو ظاہر کرتے ہیں ۔ وہ اُس انتخابی عمل میں شریک ہونے کیلئے بے قرار ہیں جس میں وہ مداخلت کا الزام لگاتے ہیں۔ 
حکومت کیلئے اصل چیلنج اپوزیشن کی مخالفت نہیں بلکہ اس کے اپنے حامیوں کی ناراضی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت لوگوں کی توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کررہی ہے ۔ برس ہا برس تک عوام کو روشن مستقبل کی جھلک دکھاتے ہوئے فوری تبدیلیوں کا یقین دلایا گیا تھا۔ان دعوؤں کی بنیاد یہ تاثر تھا کہ ملک کی خرابی محض سابق حکومتوں کی بدعنوانی اور بدانتظامی تک محدود ہے لیکن اب پتہ چلا ہے کہ اس خرابی کی جڑیں کہیں گہری اورپھیلی ہوئی ہیں۔ عوام کی خواہشات پوری کرنے کیلئے حکومت اس طاقتور مافیا سے نمٹنے کی کوشش کررہی ہے ۔ سیاسی حریفوں کے برعکس سرکاری افسران کو آسانی سے عہدوں سے نہیں ہٹایا جاسکتا یہی وجہ ہے کہ گندم‘ چینی اور گیس کی قلت بار بار سراٹھا لیتی ہے ۔ 
خوش قسمتی سے کوویڈ 19 نے حکومت کو ایک موقع دے دیا ہے ۔ جانیں اور روزگار بچانے کی وزیر اعظم کی حکمت عملی کی وجہ سے پاکستان برآمدات کی بحالی میں خطے کی دیگر ریاستوں جیسا کہ انڈیا اور بنگلہ دیش سے سبقت رکھتا ہے ۔ کوویڈ19 کی وجہ سے آئی ایم ایف پروگرام کی عارضی معطلی نے بھی پاکستان کو سکون کا سانس لینے کا موقع فراہم کردیا ۔ اس کی وجہ سے حکومت سود کے نرخ کم کرکے معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کا موقع دے سکتی ہے ۔ 
حکومت کے سامنے حقیقی چیلنج 2021 ء ہوگا جب قرض میں ملنے والے ریلیف کا دور ختم ہوگا۔ اگلے اڑھائی سال تک حکومت کو ایسے منصوبوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جن سے ملازمت کے مواقع پیدا ہوں اور رہائش‘ سماجی بہتری‘ تعلیم اور صحت کی سہولیات میں بہتری آئے ۔ اپوزیشن کے احتجاج کو غیر اہم اور ناکام بنانے اور لوگوں کی توقعات کو پورا کرنے کا سب سے بہتر راستہ یہی ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں