خاموش ابلاغ

خاموش بولتی ہے۔صوت و صداکے بغیر بھی ابلاغ ہوتا ہے ۔ الفاظ دھوکہ دے جاتے ہیں اوراظہار کی قدرت جواب دے جاتی ہے‘ ایسے مواقع پر آنکھیں تکلم کرتی ہیں۔کتنی مرتبہ ہم یہ الفاظ پڑھ اور بول چکے ہیں لیکن ہم نے بار ہا دیکھا ہے کہ جب لوگ ‘ خاص طور پر مشہور لوگ ایسا کرنے میں ناکام رہے ہوں۔ الفاظ کے بغیر تکلم ایک سائنس ہے اور ضروری ہے کہ سائنس کو سمجھا اور اس میں مہارت حاصل کی جائے‘ لیکن یہ مشق درست باڈی لینگوئج اور لہجے کے بارے میں نہیں بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے ۔ خاموش تکلم بھی ابلاغ کی سائنس ہے اور اسے سیکھا جاسکتا ہے لیکن اس کی بہت سی خامیوں کود ور نہیں کیا جانا چاہیے۔ اس وقت جب ہم 2021 ء میں داخل ہو چکے ہیں ‘ قیادت کے خاموش ابلاغ کے کچھ دلچسپ نمونے سامنے آرہے ہیں۔ 
عام کو خاص سے ‘ کامیابی کو ناکامی سے اور قائد کو عوام سے ممتاز کرنے والی چیز ابلاغ ہی ہے ۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے ‘ ایک رہنما کے سامنے چیلنج صرف حیرت انگیز ویژن ہی نہیں بلکہ اسے عوام کے سامنے اتنے واضح اور متاثر کن انداز میں رکھنابھی ہوتا ہے کہ وہ اس پر یقین کرلیں‘ اسے دوسروں کے علم میں لائیں اور اس کو اپنی سوچ میں شامل کرلیں۔ یہ ایسا ہی جیسے ایک سیلز مین اپنی پراڈکٹ یا سروس فروخت کرنے یا ایک والد اپنے بچے کو کوئی مخصوص شعبہ اختیار کرنے یا کوئی سیاست دان عوام کو اپنا مؤقف سمجھانے کی کوشش میں ہوتا ہے ۔ جس دوران متاثر کن ابلاغ ایک مشکل فن ہے ‘ اس میں اصل مشکل بولے گئے الفاظ سے زیادہ خاموش تکلم کو پرکشش بنانا بھی ہے ۔ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح الفاظ اہمیت رکھتے ہیں لیکن ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ کب اور کیسے الفاظ بے معانی ہوجاتے ہیں۔ قیادت کا ابلاغ تقریر اور اجلاس سے بہت پہلے شروع ہوجاتا ہے۔ خاموش ابلاغ کو متاثر کن بنانے والے اہم عوامل مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ مقناطیسیت: ہمارا جسم پراسرار سگنلز اور اشارے خارج کرتا ہے ۔ کچھ لوگوں میں مقناطیسیت مثبت ہوتی ہے‘ کچھ میں منفی۔ اس کا تعلق جسم سے خارج ہونے والی توانائی سے ہوتا ہے ۔ توانائی کا دارومدار افکار اور اعمال پر ہوتا ہے ۔ یہ ایک ایسی نادیدہ شخصیت ہے جو اس شخص کے زبان کھولنے سے پہلے ابلاغ کرچکی ہوتی ہے ۔ صدر کلنٹن اتنی جاذب مقناطیسیت رکھتے تھے کہ چاہے وہ کمرے میں دور کھڑے ہوں لوگ اُن کی موجودگی کا طاقتور احساس کرلیتے تھے ۔ قائد ِاعظم محمد علی جناح کی شخصیت بھی پرعزم مقناطیسیت رکھتی تھی ۔جب وہ عدالت میں داخل ہوتے تو وکلا‘ججز اور دیگر حاضرین اُن کی شخصیت کا رعب محسوس کیے بغیرنہ رہ سکتے تھے ۔ ذوالفقار علی بھٹو میں جذباتی جارحیت کی مقناطیسیت تھی ۔موجودہ سیاسی قیادت ‘ جیسا کہ نواز شریف اور آصف زرداری غیر شفاف مقناطیسیت رکھتے ہیں۔ اُن سے ابھرنے والا تاثر ویسا نہیں جیسے وہ جسمانی طور پر دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری طرف اُن کی اولاد سے ابھرنے والا تاثر ابہام اور غیر یقینی پن لیے ہوئے ہے ۔ یہ درست ہے کہ اُن کے جلسوں میں ہجوم ہوتا ہے لیکن اس کی وجہ کھوکھلی کشش ہے نہ کہ حقیقی اثر۔اس کا ثبوت گلگت بلتستان کے انتخابات اور لاہور جلسے میں دیکھا جاچکا ہے ۔ مریم نواز اشتعال انگیز مقناطیست رکھتی ہیں ۔ دیکھنایہ ہے کہ کیا یہ کشش پارٹی کے حامیوں کو جانثار کارکنوں میں تبدیل کر سکتی ہے؟
2۔ شخصیت: ایک لیڈر کی شباہت اہمیت رکھتی ہے ۔ اُس کا لباس عوامی ہونا چاہیے ۔ جب قائد ِاعظم محمد علی جناح عدالت میں مقدمات لڑتے یا انگریزوں سے مذاکرات کرتے تو بہترین لباس زیب تن کرتے تھے ۔ انگریز افسران بھی اُن کی شخصیت سے سحرزدہ ہوئے بغیر نہ رہتے ۔ اُن کا بہترین لباس اور اُن کی شخصیت کے دیگر پہلو ایک تاثر پیدا کرتے جس سے ان کی گفتگو سے پہلے سامعین پر ان کا سحر طاری ہوجاتا۔ قیام ِپاکستان کے بعد آپ نے قومی لباس پہننا شروع کردیاتاکہ عام آدمی کے ساتھ تعلق قائم ہوسکے ۔ اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو نے بھی عام آدمی کے ساتھ اپنائیت کا احساس پید اکرنے کے لیے روایتی لباس کی جگہ عوامی لباس پہننا شروع کردیا تھا ۔ وہ ایک محنت کش کی طرح اپنی آستینیں چڑھا لیتے تھے ۔ بے نظیر بھٹو نے بھی اپنے والد کے اس دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد شلوار قمیص کے ساتھ سادہ سی جیکٹ اورسفید دوپٹہ لینا شروع کر دیا تھا ۔ ملتان جلسے میں آصفہ بھٹو کو بھی اپنی والدہ کی طرح سادہ لباس میں دیکھا گیا ۔ عوام کی ایک معقول تعداد نے اُس سے اچھا تاثر لیا ۔ دوسری طرف مریم نواز نے مہنگے ڈیزائنر ملبوسات‘ قیمتی کوٹ اور برانڈڈ جوتے پہنے ہوتے ہیں ۔ وہ اس لباس میں بے شک اچھی لگتی ہیں لیکن وہ عام شہری سے دور ہوتی ہیں۔ 
3۔ وراثت: شاید سب سے بڑا تکلم وہ کہانی ہے جو آپ کے پاس ہوتی ہے ۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے‘ آپ کی شہرت آپ کی گفتگو سے پہلے ابلا غ کرچکی ہوتی ہے ۔ ہر کسی کی غیر مرئی وراثت تشکیل پا رہی ہوتی ہے چاہے وہ اس سے باخبر ہویا نہ ہو اورا س سے ابھرنے والا تاثر اُسے پسند ہو یا ناپسند۔ آپ کی ماضی کی کارکردگی اور افعال لوگوں کے ذہن میں آپ کا منفی تاثر بھر دیتے ہیں یا لوگ آپ کے خلاف ہو جاتے ہیں۔ قائد اعظم پیشہ ورانہ اور سیاسی ساکھ رکھتے تھے جس کی وجہ آپ کی عشروں پر محیط راست بازی‘ دیانت ‘محنت اور پیشہ ورانہ مہارت تھی ۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے بھی اپنی سیاسی ساکھ بنانے کے لیے بہت محنت کی تھی ۔ موجودہ سیاسی رہنمائوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اُن کی سیاسی وراثت اُس پیغام سے لگا نہیں کھاتی جو وہ عوام کو دینے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کے پاس اپنے والد کی سیاسی وراثت تھی جس پر قدم رکھ کر وہ آگے بڑھ سکتی تھیں۔ بلاول بھٹو کے لیے اپنے والد کی وراثت نقصان دہ ہے ۔ درحقیقت یہ وارثت اُن کی سیاسی راہوں کو تاریک کیے ہوئے ہے جبکہ مریم نواز کے لیے 'انقلابی‘ بیانیے کا پرچار مشکل ہے۔ اُن کے پاس ایسا کوئی ماضی نہیں جس کی وجہ سے لوگ اُن پر آنکھیں بند کرکے یقین کرلیں۔ 
آج کی معلومات سے لبریز دنیا میں آپ کی حرکات وسکنات سوشل میڈیا پر نشر ہوجاتی ہیں ۔ ضروری ہے کہ آپ کی باڈی لینگوئج وہی ہو جیسی شخصیت ہونے کے آپ دعویدار ہیں ۔ آپ جو دراصل ہیں‘ دوسروں کی گفتگو میں آپ کی اصل شخصیت کی جھلک ملنی چاہیے۔ آپ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں‘ اس کی نظیر آپ کی ماضی کی زندگی سے بھی ملنی چاہیے ۔ مستعار لی ہوئی وارثت ایک خاص حد تک ہی کام دیتی ہے ۔ بھٹو کی وراثت نے بے نظیر بھٹو کے لیے کام کیا‘ لیکن بلاول کے لیے زرداری کی وراثت کو اپنے سیاسی دعوؤں کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ممکن نہیں ہے ۔ 
وزیر اعظم عمران خان کو حاصل سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ اُنہوں نے ناممکن کو ممکن کردکھاتے ہوئے اپنی وارثت خود تخلیق کی۔ عالمی کپ سے لے کر شوکت خانم ہسپتال ‘ نمل یونیورسٹی اور انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے تک اُنہوں نے ہر جگہ اپنے ناقدین کو غلط ثابت کیا ۔ اُنہیں پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے خطرے کا شکار بحران زدہ معیشت ملی تھی ۔ اُن کے ارد گرد کی دنیا پر مافیاز پنجے گاڑے بیٹھے تھے ۔ اس وقت تک وزیر اعظم پاکستان نے بہت ثابت قدمی سے اُن کا مقابلہ کیا ہے جو اُنہیں اقتدار سے رخصت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ حکومت کو درپیش اتنی مہیب رکاوٹوں کے باوجود وزیر اعظم کی استقامت نے 2021 ء میں پاکستان کے سامنے امید کی شمع روشن کردی ہے۔ مایوسی کا اندھیرا چھٹ رہا ہے۔ مخالفین اسے دیوانگی سمجھتے تھے لیکن ‘ جیسا کہ البرٹ آئن سٹائن کاکہنا ہے ‘ ''دیوانگی کا مظاہرہ کرنے والے ہی ناممکن کو ممکن کر سکتے ہیں ‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں