لسانی رعونت

زبان کسی بھی ثقافت کی عکاسی کرتی ہے۔ زبان میں ہی تعلیم دی جاتی ہے۔ امتحان زبان میں ہی ہوتا ہے۔ اسی میں ترقی ملتی ہے۔ بلاشبہ زبان ہی انسانوں کو جوڑتی اور تقسیم کرتی ہے۔ کسی زبان کو بولنے اور اس کی ترویج کرنے کے فائدے بھی ہیں اورنقصانات بھی۔ زبان کو بوجھ بھی سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان شروع سے ہی لسانی بحثوں کی زد میں رہا ہے۔ نو آبادیاتی دور کے بہت سے ممالک کی طرح پاکستانیوں کے لیے بھی یہ حقیقت تسلیم کرنا مشکل ہے کہ انگریزی غیر ملکی زبان ہے جس کی قدرکی جا سکتی ہے، جسے سیکھا جا سکتا ہے لیکن اسے اپنا خبط بنانے کی ضرورت نہیں۔ زیادہ تر افراد اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ارد و کی ترویج کی جانی چاہیے۔ اسے ایک مقبول زبان بنایا جائے۔ حکومتوں، سول سوسائٹی اور عوام کو ذہنی رویوں، مہارتوں اور طریقِ کار میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے تاکہ پورے دل و جان سے اس کے لیے یکسوئی اختیار کی جا سکے۔
دولت، خاندان، سماجی حیثیت، پیشہ اور جلد کی رنگت طبقاتی فرق پیدا کرتے ہیں؛ تاہم پاکستان میں بیشتر طبقاتی فرق کا تعلق بولی گئی زبان سے ہے۔ انگریزی اشراف کی زبان ہے، اردو کی ضرورت ہے، لیکن پنجابی یا دوسری علاقائی بولنے والے کو احمق سمجھا جاتا ہے۔ زبان، تلفظ اور روانی سماجی حیثیت کا تعین کرتی ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ وہ شخص کس طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کا کن لوگوں سے میل جول یا اُٹھنا بیٹھنا ہے۔ بدقسمتی سے یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ کم مراعات یافتہ طبقوں کو آگے بڑھنے کے لیے جس سب سے بڑی رکاوٹ عبور کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، وہ انگریزی بولنا ہے۔ اردو میڈیم میں پڑھنا زندگی میں ناکامی کا پیش خیمہ سمجھا جاتا ہے۔ انگریزی نہ بول سکنے یا اس میں مشکل محسوس کرنے سے پیدا ہونے والا کمپلیکس شرمندگی اور بے وقعتی کا احساس پیدا کرتا ہے۔
پاکستان میں زبان سے پیدا ہونے والے طبقاتی فرق کی بہت سی کہانیاں ہیں۔ طبقاتی فرق کو ایک نظام کے طور پر جنوبی افریقہ میں جلد کی رنگت کی بنیاد پر تقسیم کے قانونی نظام کے طور پر دیکھا گیا تھا۔ بالکل اسی طرح انگریزی زبان نے پاکستان میں صاحبِ حیثیت اور بے حیثیت عوام کے درمیان لکیر کھنچ رکھی ہے۔ سرکاری ذریعہ تعلیم اردو ہے جبکہ نجی سکولوں میں انگریزی میں تعلیم دی جاتی ہے۔ عملی زندگی میں انگریزی میں مہارت طلب کی جاتی ہے۔ دورانِ انٹرویو دیکھا جاتا ہے کہ آپ انگریزی میں کتنا اچھا ابلاغ کر سکتے ہیں۔ اسی پر آپ کے مستقبل کی ترقی اور امکانات کے دروازے کھلنے کا دار ومدار ہوتا ہے۔
حالیہ دنوں اس کی جھلک ایک وڈیو سے ہوئی جس میں ریستوان کی دو مالکنیں خراب انگریزی بولنے پر اپنے منیجرکی توہین کر رہی تھیں۔ وہ یہ کہتی سنی گئیں کہ وہ اس منیجر کو خراب انگریزی کے باوجود بھاری تنخواہ دیتی ہیں۔ گویا مذکورہ منیجر کی محنت، کام سے لگن، جانفشانی اور پیشہ ورانہ امور میں مہارت پر بہتر انگریزی نہ بول سکنے کی خامی نے پانی پھیر دیا۔ ہمیں اردو کی ترویج کے لیے ایک مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ اس کی وجہ صرف قوم پرستی نہیں بلکہ یہ ہے کہ ہم اپنی تعلیم اور مہارت کے شعبے میں حائل زبان کی رکاوٹ کو ہٹا کر اسے بہتر بنا سکیں۔
1۔ آپ سمجھے بغیر سیکھ نہیں سکتے۔ بچہ زیادہ تر سن کر سیکھتا ہے۔ وہ جو کچھ سیکھتا ہے، وہ اس کے ابلاغ کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ بچہ زیادہ تر اپنی ماں کو سنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محققین کا کہنا ہے کہ سیکھنے کے لیے ماں بولی سب سے مؤثر ثابت ہوتی ہے۔ جب ماں بولی سکول میں ذریعۂ تعلیم ہو تو سیکھنا آسان ہو جاتا ہے۔ اس اصول کی بنیاد پر دنیا کے بہت سے ممالک نے ترقی کی۔ اس کی ایک مثال تو چین ہے۔ ایک اور مثال یورپ کا سب سے ترقی یافتہ ملک جرمنی ہے۔ ایشیا کی زیادہ تر ترقی یافتہ ریاستیں، جیسا کہ جنوبی کوریا بھی اس کا ایک ثبوت ہیں۔ بھارت میں انگریزی کے ساتھ ساتھ مقامی زبانوں کی ترویج کی جاتی ہے، اس طرح آپ دیکھ سکتے ہیں کہ انگریزی لکھی، لیکن مقامی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ پاکستان انگریزی، اردو اور مقامی زبانوں کی اہمیت کے درمیان الجھا ہوا ہے۔ اس سے فکری ابہام کے علاوہ تعلیم اور شناخت کا بحران پیدا ہوتا ہے۔ کیفے کا ملازم اس کی ایک بڑی مثال ہے۔ وہ ایک اچھا کام کرنے والا ہو گا لیکن تعلیمی میدان میں تین زبانوں سے پیدا ہونے والے ابہام کا شکار ہو گیا۔
2۔ غیر ملکی زبان سیکھنا آسان بنائیں۔ تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ ابتدائی برسوں میں جب بچہ اپنی مادری زبان میں پُراعتماد اور پُرسکون ہوتا ہے تو اس میں غیر ملکی زبان سیکھنے کی صلاحیت بھی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم اپنے والدین کی طرف دیکھتے ہیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ اردو میڈیم میں تعلیم حاصل کرنے کے باوجود اُن میں سے بہت سے کہیں زیادہ روانی اور سہولت سے انگریزی بولتے ہیں۔ پاکستانی دیگر اقوام سے زیادہ ملکی زبانیں سیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ صوتی اعتبار سے اردو دنیا کے زرخیز ترین حروف رکھتی ہے۔ یہ کئی زبانوں کا امتزاج ہے، مثال کے طور پر عربی زبان میں ''پ‘‘ کی آواز موجود نہیں، یہی وجہ ہے کہ عرب پاکستان کو باکستان اور دوسرے پ سے شروع ہونے والے الفاظ کو ب سے بولتے ہیں۔ اسی طرح ہندی میں ''ز، ذ، ظ، ض‘‘ کا تلفظ موجود نہیں۔ وہ ان کی جگہ ''ج‘‘ بولتے ہیں۔ فرانسیسی زبان میں ''ایچ‘‘ خاموش ہے۔ انگریزی میں ''ھ‘‘ اور ''غ‘‘ کی آواز نہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اردو بولنے والوں کے لیے دیگر زبانیں سیکھنا اور درست لہجے میں بولنا مشکل نہیں۔
3۔ اعتماد رکھیں۔ ذہن اور منہ کے درمیان ربط کمزور ہونے سے ہکلانے اور رک کر بولنے کا عارضہ پیدا ہوتا ہے۔ جب آپ ایک زبان میں سوچتے لیکن بولتے کسی اور زبان میں ہیں تو اس سے پیدا ہونے والی کشمکش رکاوٹ اور الفاظ کے غلط تلفظ کا باعث بنتی ہے۔ اس سے ہچکچاہٹ، شرمندگی اور احساسِ کمتری پیدا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بہترین سوچ رکھنے والے کئی ایک افراد اپنے خیالات کے اظہار پر قادر نہیں۔ اس وجہ سے وہ اپنی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا کر ترقی نہیں کر سکتے ہیں۔ یہ صورتِ حال معاشرے میں فکری بحران کا باعث بنتی ہے۔
موجودہ حکومت نے ایک دلیرانہ فیصلہ کیا ہے۔ اس کے مطابق سرکاری اور نجی سکولوں میں یکساں نصاب پڑھایا جائے گا اور ابتدائی تعلیم اردو میں ہو گی؛ تاہم مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کاوش کی حمایت کرنے کے لیے ہمیں ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جس میں معلموں کی خصوصی تربیت کی جائے۔ اُنہیں تدریس کے جدید طریقوں سے روشناس کرایا جائے۔ وہ طلبہ کوسوچنے اور تنقیدی مضامین، شاعری اور نثر پارے لکھنے کے قابل بنائیں۔ ہمیں ایسی درسی کتب کی ضرورت ہے جنہیں پڑھنا اور سمجھنا آسان ہو لیکن سب سے بڑھ کر‘ ہمیں اپنا اندازِ فکر بدلنا ہو گا۔ اپنی قومی اور مقامی زبانوں کو اہمیت دینا ہو گی۔ غیر ملکی زبانوں کو غیر ملکی ہی سمجھیں۔ اُنہیں ضرورت اور ذوق کے مطابق سیکھنے میں کوئی حرج نہیں لیکن اس کی بنیاد پر طبقے، حیثیت، شخصیت، ثقافت، شناخت اور اہمیت کا تعین کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ غیر ملکی زبان میں ترقی کرنے کی دھن نے تعلیم اور ابلاغ میں امتیازی گروہ پیدا کر دیے ہیں۔ غیر ملکی زبان دراصل مستعار لیے گئے الفاظ ہیں جنہیں ہم نہیں اپنا سکتے۔ یہ آپ کی اپنی زبان ہے جو آپ کو شناخت اور ملکیت کا احساس دلاتی ہے، جیسا کہ جیک ایڈورڈز کا کہنا ہے، ''ماں بولی کے بغیربھی کوئی قوم ہے‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں