زمین اور جرم کاساتھ

زمین دولت ہے ‘ زمین طاقت ہے‘ زمین اختیارہے‘ زمین حیثیت دیتی ہے ۔ زمین ایک طرح کا نشہ ہے ۔ زمین کا مالک ہونا اختیار کی سب سے بڑی علامت ہے ۔ ممالک دوسرے ممالک کی زمین پر قبضہ کرنے کے لیے حملے کرتے رہے ہیں ۔ کاروباری افراد بھی وسیع جائیدادیں حاصل کرکے اپنی دولت کا تحفظ کرتے ہیں ۔ زمین آپ کی دولت اور طاقت کی علامت ہے ۔ پاکستان میں پراپرٹی بزنس گزشتہ چند عشروں سے سب سے بڑا کاروبار بن چکاہے ۔ بچت کیا گیا ہر پیسہ کسی نہ کسی سوسائٹی میں سرمایہ کاری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ پراپرٹی ڈیلر وں کی دولت آسمان کو چھو رہی ہے ۔ زمین کی قیمت ‘ خاص طور پر اہم مقامات پر ‘ بہت کم وقت میں لگائی گئی رقم کا سو فیصد منافع دیتی ہیں ۔ رقم اُسی طرف لگائی جاتی ہے جہاں سے زیادہ منافع حاصل ہو۔
ہائوسنگ سوسائٹیوں کی گروتھ نے رقم کا بہائو اس شعبے کی طرف کردیا۔ اس کی وجہ سے پیشہ وراداروں اور کاروباری افراد کو اس طرف کشش محسوس ہوئی ۔ کسی فیکٹری میں سرمایہ کاری کا اتنی ہی رقم سے زمین میں سرمایہ کاری سے موازنہ کریں ‘ ایک عام بزنس بمشکل دس فیصدسالانہ منافع دیتا ہے اور اس کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی ہے ۔ پھر کاروبار میں نقصان کا اندیشہ اپنی جگہ موجود ہوتا ہے۔ اتنی ہی رقم کسی اچھی سی زمین پر لگائیں اور کسی محنت اور خسارے کے اندیشے کے بغیر چالیس فیصد سے زیادہ منافع کمائیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دو عشروں سے اس شعبے میں بہت سوں کی چاندی ہوگئی ۔
آسانی سے حاصل ہونے والی رقم ہمیشہ جرم کے لیے کشش رکھتی ہے ۔ مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے راتوں رات دولت سمیٹنے کی دھن میں رہتے ہیں ‘ اس کے لیے وہ یاتو لوگوں سے رقم چھینتے ہیں یا اُن کی زمین ۔ دولت مند ہونے کا آسان طریقہ زمین پر قبضہ کرنا ہے ۔کچھ عرصے سے پاکستان میں لفظ ''لینڈ مافیا ‘‘عام سننے میں آتا ہے ۔ اس لینڈ مافیا کے کچھ خواص ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ نمایاں ہوئے ہیں :
1۔جعلی سوسائٹیوں کے ہاتھوں سماج کی تباہی : پاکستان میں کچھ رہائشی کالونیاں بدعنوان لین دین کا گڑھ ہیں ۔ بظاہر تو ان میں منظم طریقے سے جائیداد کی خریدوفروخت کرنے والے دفاتراور کاروباری افراد کے نام دکھائی دیتے ہیں ۔ سادہ لوح شہری‘ خاص طور پر بیرونی ممالک میں رہنے اور کام کرنے والے پاکستانی ان میں سرمایہ کاری کرتے ہیں ۔بعد میں پتہ چلتا ہے کہ وہ رہائشی کالونی جعلی تھی اور اُن کے ساتھ فراڈ ہوگیا ہے ۔ یہ کالونیاں پیشہ ور فریب کار افراد کی خدمات رکھتی ہیں جو اپنے ہدف کو تاڑتے ہیں ۔ اہم مقامات پر عام شہریوں کی زمین پر قبضہ کرلیا جاتا ہے۔ زمین کے اصل مالک بیچارے یا تو پٹواریوں کے ہیرپھیر کے ذریعے لٹ جاتے ہیں یا پھر وہ عدالتوں میں عمر بھر دھکے کھاتے رہتے ہیں اور اُنہیں اپنا حق نہیں ملتا۔ سرکاری کاغذات کے مطابق 8767 رہائشی کالونیوں میں سے 6000متعلقہ اداروں کے پاس رجسٹرڈ ہی نہیں۔ پانچ سو سے زیادہ کالونیوں پر چار ہزار سے زیادہ فراڈ کے مقدمات درج ہیں اور ان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں آرہی ۔ ان میں ہونے والے فراڈ کاحجم تین سو ارب روپوں سے زیادہ ہے۔
2۔ سکیموں میں شراکت دار: سوال پیدا ہوتا ہے کہ رہائشی کالونیوں کی تعداد میں اتنی تیزی سے اضافہ کیوں ہوا ہے ؟ یہ غلیظ نیٹ ورک سرکاری اور بدعنوان عناصر کی ملی بھگت قائم ہوتا ہے ۔ قوانین اور قواعد وضوابط کی پامالی اور قانون کے ناقص نفاذ سے ہزاروں رہائشی کالونیوں کی فریب کاری پرمبنی مارکیٹ وجود میں آتی ہے ۔ اس کی ایک مثال رائے ونڈ میں شریف فیملی کے خلاف سڑکوں کی تعمیر ‘ شہباز شریف کے خلاف آشیانہ ہائوسنگ سکیم فراڈ‘ سعدرفیق پر پیراگون ہائوسنگ سوسائٹی کیسز ہیں ۔ ایل ڈی اے کے سابق ڈائریکٹر ‘ احد چیمہ جیسے سرکاری افسران ان کالونیوں میں زمین رکھتے ہوئے اس لوٹ مار میں شریک تھے۔ یہ شراکت داری باہمی انحصار کا ماحول پیدا کرتی ہے ۔ وہ ایسے قوانین بناتے ہیں جس سے غیر قانونی کام قانونی ہوجاتا ہے ۔
3۔ سسلین مافیا نیٹ ورک: جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پاناما لیکس پر اپنے تاریخ ساز فیصلے میں کہا تھا کہ یہ سیاست دان سسلین مافیا کی طرح کام کرتے ہیں۔ سسلین مافیا اطالوی جرائم پیشہ گروہ تھے جو تمام اداروں میں سرایت کرچکے تھے ۔ اُن کا تعلق چوٹی کے سیاست دانوں سے ہوتاتھا یا وہ خود بھی اہم سیاسی فورمز کے رکن تھے ۔ پولیس اُن کے پے رول پر ہوتی ۔ میڈیا پر بھی بھاری بھرکم سرمایہ کاری کرتے ہوئے اُسے اپنے خلاف خبریں شائع کرنے سے روک دیا جاتا ۔ پاکستان میں لینڈ مافیا نے اسی طرح سیاسی سرپرستی رکھتا ہے ۔ سیف الملوک کھوکھر لاہور کی ایک نامی گرامی شخصیت ہے ۔ ان پر جائیدادوں اور زمین پر قبضوں کے الزامات ہیں ۔ ان کے بھائی افضل کھوکھر قومی اسمبلی کے رکن ہیں ۔ان پر یہ الزام ہے کہ سیاسی سرپرستی کی وجہ سے انہوں نے قیمتی سرکاری زمین کوڑیوں کے مول حاصل کرکے اس پر عمارتیں اور مارکیٹیں قائم کرلیں ۔ان سے واپس لی گئی صرف اڑتیس کنال زمین کی قیمت سوا ارب روپے تھی۔ وہ سیاسی سرپرستی کے بدلے سیاسی رہنما کی قانونی ضمانتوں سے لے کر مہنگے دوروں کے اخراجات تک برداشت کرتے ۔ بعض کالم نگاروں ‘ اینکروں اور نام نہاد دانشوروں کو پرکشش عہدوں سے نوازتے ہوئے سیاست دان اپنی مرضی کا بیانیہ تخلیق کرلیتے ہیں ۔ یہ اُن کے خلاف آنے والی رپورٹس کو بے بنیاد قرار دینے کا ہنر جانتے ہیں ۔ پولیس‘ عدلیہ اور سرکاری افسران بھی سسلین مافیا کا حصہ ہوسکتے ہیں ۔ اُن سب کو رہائشی کالونیوں‘ تقرریوں یا تبادلوں میں اپنا حصہ مل جاتا ہے یا یہ حصہ نقد رقوم کی صورت میں بھی ہوتا ہے ۔
آسان طریقوں سے پیسہ بنانے کی سہولت کی وجہ سے پاکستان کو صنعت کاری اور پائیدار ترقی کے شعبوں میں نقصان ہوا ہے۔ جب رقم کاروبار سے نکال لی جاتی ہے تو اس سے ملازمت کے مواقع پیدا نہیں ہوتے ۔ ترقی کی جگہ صرف جائیداد کی خریدوفروخت کا کام ہی ہوتو معیشت بیماراور مفلوج ہوجاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی برآمدات آگے نہیں بڑھ پائیں ‘ ملازمت کے مواقع پیدا نہیں ہوئے اور ذہین لوگ پاکستان سے باہر چلے جاتے ہیں۔ بلامحنت‘ فوری طور پر آسودگی حاصل کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے ۔ اسی وجہ سے ایسے تصورات کا قحط ہے کہ پاکستان کوعالمی مارکیٹ کی مسابقت کے قابل کس طرح بنایا جائے ۔زمین کی قدر بڑھنے سے نواب بننے والے افراد سیاست دانوں ‘ پولیس اور اراکین اسمبلی کو خرید سکتے ہیں ۔ ان کی وجہ سے معاشرے میں طبقاتی لکیر پکی ہوئی ہے ۔ امیر اور غریب کا فرق بڑھا ہے ۔سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی رئیل اسٹیٹ کے سرمایہ کارتھے۔ انہوں نے امریکا سے زیادہ خود کو تحفظ دینے کی پالیسی اپنائی تھی ۔ ان کی بیٹی اور داماد ڈیل میکر بن چکے تھے ۔ اسی طرح پاکستان میں بھی حکمران سیاست اور کاروبار میں اپنا حصہ رکھتے ہیں ۔ شریف اپنی بیٹی اور زرداری اپنے بیٹے کے ذریعے آسانی سے ہاتھ آئی دولت کے تحفظ کی کوشش میں ہیں۔ ان کے جعلی بینک اکائونٹس اور ہزاروں ایکڑ جائیداد کی داستانیں بیان سے باہر ہیں ۔
لینڈ مافیا کے خلاف آپریشن ضروری ‘ لیکن بہت کٹھن ہے ۔ یہ حکومت کے عزم کا بھی امتحان ہے کہ وہ کس طرح سیاسی اور قانونی پیچیدگی پر قابو پاتے ہوئے اور تعصب سے بالا تر ہوکر قانون کی عملداری یقینی بناتی ہے ۔ یہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سکت کی بھی جانچ ہے کہ کیا وہ ترغیبات کو رد کرسکتے ہیں یا چشم پوشی کی پالیسی اپناتے ہیں؟ دیکھا جانا ہے کہ اس آپریشن کے سامنے لینڈ مافیا اپنی کتنی سکت‘ طاقت اور دھونس دھمکی دکھاتا ہے ۔ سب سے اہم ‘ یہ عوام کے کردار کی جانچ ہے کہ وہ اس مافیا کے خلاف کس طرح اکٹھے کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ مافیا جس نے معاشرے سے سماج چھین لیا ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں