انتخابات میں انسانوں کی تجارت

انسانی تجارت ایک سنگین جرم ہے ۔ اس سے مراد غلامی یاجسم فروشی جیسے قبیح مقاصد کیلئے انسانوں کی خریدوفروخت ہے ۔ اقوام ِمتحدہ اسے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیتی ہے کیونکہ یہ انسانی جسم کے وقار اور شخصی آزادی کے منافی ہے ۔ اس تعریف کی رُو سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو کچھ سینیٹ کے انتخابات میں اور کسی قدر مختلف انداز میں عام انتخابات میں ہوتا ہے ‘ وہ کسی سنگین جرم سے کم نہیں ۔ سینیٹ کے انتخابات میں اسے ''ہارس ٹریڈنگ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس سے مراد صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کی خریدوفروخت ہے ‘ جیسا کہ پاکستان میں ہوتا ہے ‘ ایوان ِ بالا کی رکنیت حاصل کرنے کیلئے ووٹوں کی بولی لگتی ہے۔ سب سے اونچی بولی لگانے والے کو اس ایوان کی رکنیت کا حق دیاجاتا ہے ۔ ووٹوں کی یہ خریدوفروخت خفیہ‘ پوشیدہ‘ غلیظ اور انتہائی بیہودہ ہے ۔
ہارس ٹریڈنگ کو ایک جانی پہچانی حقیقت سمجھ کر قبول کیا جاتا ہے ۔ سیاسی جماعتیں وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کیلئے نرم گوشہ رکھتی ہیں ۔ سینیٹ انتخابات سے پہلے اور بعد میں اس پر شور مچایا جاتا ہے لیکن انتخابات کے دوران یہ محض دکھاوا ہوتا ہے ۔ ہر کوئی اس کی مذمت کرتا ہے ‘ ہر کوئی کہتا ہے کہ اس پر پابندی ہونی چاہیے ‘ یہ بدعنوانی کی جڑ ہے ۔ ہر کوئی اسے دھاندلی قرار دیتا ہے ۔ پھر بھی کم و بیش ہر سیاسی جماعت اس میں ملوث ہوتی ہے ۔ سب سے پہلے انسانی بولی کو ''چھانگا مانگا ڈیل‘‘ کے دوران شہر ت ملی۔ 1990 ء کی دہائی میں شریف خاندان نے ہر اہم انتخاب‘ خاص طور پر سینیٹ الیکشن کے دوران اپوزیشن کے اراکین ِ پارلیمنٹ کے ووٹ خریدنے کیلئے اُن کی میزبانی کا رواج متعارف کرایا ۔ اس کیلئے خوب صورت تفریحی مقامات کا انتخاب کیا جاتا۔ ووٹوں کے ممکنہ طلب گار وہاں بولی کو حتمی شکل دیتے ۔ چھانگا مانگا اس وقت کا اہم تفریحی مقام تھا ۔ پیپلز پارٹی نے ووٹوں کی خریداری کیلئے مری اور سوات جیسے پہاڑی مقامات کا انتخاب کیا ۔ ووٹوں کی خریدوفروخت اپنے تسلسل کی وجہ سے ایک غیر تحریری روایت بن چکی ہے ۔
سینیٹ انتخابات روایتی طور پر بڑی مارکیٹ کی بولی جیسے ہوتے ہیں ۔ ایوان ِبالا کے ووٹ ہر صوبے کو متناسب نمائندگی کی بنیاد پر سنگل قابل ِ انتقال ووٹ کے مطابق مختص کیے جاتے ہیں۔ سینیٹ کو تحلیل نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے اراکین کی مدت چھ سال ہوتی ہے ۔ اس کی سیٹ طاقت اور حیثیت کی علامت ہے ۔ مخصوص نشستیں ‘ خاص طور پر ٹیکنوکریٹ‘ سیاسی جماعتوں سے وابستہ کاروباری افراد کو دی جاتی ہیں ‘ حالانکہ یہ نشستیں انتہائی ماہر افراد کیلئے ہوتی ہیں تا کہ ایوانِ بالا میں اُن کی موجودگی سے بحث اور قانون سازی کا معیار بہتر ہوسکے ۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم نے سینیٹ میں شاید ہی کبھی ایسے ہوتے دیکھا ہو۔ یہ سیٹیں ہوش ربا حد تک مہنگے داموں فروخت کر دی جاتی ہیں ۔ حالیہ سینیٹ انتخابات کی اہمیت مندرجہ ذیل وجوہ کی بنیاد پر پہلے سے کہیں بڑھ چکی ہے :
1۔ ویڈیو کی دہشت: آنکھوں دیکھی چیز پر انسان یقین کر لیتا ہے ۔ سیٹوں کی نیلامی کی کہانیاں تو عشروں سے سنتے چلے آرہے تھے لیکن اب انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے ۔ مقدس حلف اُٹھا کر دیانت داری کا وعدہ کرنے والے ان نام نہاد اراکین ِپارلیمنٹ کو پیسے لے کر بکتے دیکھنا قابلِ نفرت ہے ۔ مردوںاور عورتوں کو نوٹوں کے ڈھیر گنتے اور تھیلوں میں بھرتے دیکھ کر انسان کا دل دہل جاتا ہے ۔اس تمام کارروائی کو معمول کے انداز میں ہوتے دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں مگر خریدار قریب بیٹھ کر اطمینان سے سگریٹ پی رہا ہوتا ہے ۔ انداز ایسا جیسے سامنے نوٹوں کے انبار کی اُس کے نزدیک کوئی اہمیت نہ ہو ۔ کئی برسوں بعد اس خریدوفروخت کا ثبوت سامنے آنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیاست دان کس حد تک گر سکتے ہیں ۔ مزید قہر یہ کہ اس سے سبق سیکھنے کی بجائے حزب اختلاف تہیہ کرچکی ہے کہ خفیہ رائے شماری کو تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ مزید مایوس کن بات یہ ہے کہ وہ اس ویڈیو میں دکھائی دینے والی اخلاقی گراوٹ کی بجائے اس کی ٹائمنگ کے بارے میں فکر مند ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ انتخابات نہ صرف شو آف ہینڈز بلکہ دل اور روح کی جانچ کامیزان بن چکے ہیں۔
2۔ امیدواروں کا چنائو: روایتی طور پر سینیٹ کے امیدواروں کا چنائو نمائندگی کی ضرورت اور مالی سرپرستی کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اس روایت کی وجہ سے ایوان ِ بالا میں ذہانت کا معیار بہت پست ہوچکا ہے۔مختلف جماعتوں سے کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں کہدولت مند شخصیات کی سیاسی جماعتوں سے قربت کے ساتھ ان کا نیٹ ورک وسیع ہوتا گیا اور دولت کی ریل پیل ہوتی گئی ۔ اُنہوں نے یہ دولت پارٹیوں پر خرچ کی اور اس کے عوض اُنہیں سینیٹ کے ٹکٹ مل گئے ۔ سینیٹر بننے کے بعد ان کے وسائل میں مزید اضافہ ہونے لگا۔ بعد میں ان کے بیٹوں کو بھی ٹکٹ دیے گئے ۔ حالیہ الیکشن میں بھی یہ فارمولا مستعمل دکھائی دیا ۔ مسلم لیگ( ن) نے ایک صاحب کو ٹکٹ دیا اس کی وجہ یہ تھی کہ شریف خاندان کو ان کا مسلسل تعاون حاصل رہا ہے ۔ ان صاحب نے بعد میں سینیٹ کی سیٹ سے اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے لیے۔ دوسری جانب تحریک انصاف بلوچستان نے ایک کاروباری شخصیت کو نامزد کیا اورتحریک انصاف کے کارکنوں نے اس پر احتجاج کیا تو ٹکٹ واپس لے لیا گیا ۔ یہ الیکشن اہم ہے کیونکہ اس میں دولت مند افراد کا مقابلہ نظریاتی افراد سے ہوگا۔ ایوان ِ بالا کا مرتبہ الیکشن جیت کر اس کی رکنیت حاصل کرنے والے افراد کے معیار کے مطابق ہوگا۔
3۔ ادارے کی طاقت: سیاسی جماعتوں کے علاوہ یہ متعلقہ اداروں کی سکت کی بھی جانچ ہے ۔ حکومت نے کھلی رائے شماری کیلئے تجویز پیش کی ۔ الیکشن کمیشن نے اسے ماننے سے انکار دیا ۔ اب فاضل عدالت پوچھ رہی ہے کہ موجودہ قوانین کے ذریعے الیکشن کمیشن کس طرح انتخابی عمل میں شفافیت لاسکتا ہے ۔ ویڈیو کے علاوہ بھی کچھ سابق اراکین صوبائی اسمبلیوں کے رقم لینے کے اعتراف موجود ہیں ۔ کیا یہ اعتراف سامنے آنے کے بعد نیب اور ایف آئی اے کو کارروائی کیلئے حکومت کی ہدایت کی ضرورت ہے ؟اصل بحران اخلاقی بے حسی ہے ۔ ہارس ٹریڈنگ پر شور مچانے اور اس کے خاتمے کا عہد کرنے والی جماعتیں کس طرح کہہ سکتی ہے کہ نہیں اب بہت دیر ہوچکی ہے ۔یا ابھی اس کا وقت نہیں آیا ؟ جو افراد ویڈیو میں رقم لے رہے ہیں ‘ وہ بہت واضح طور پر پہچانے جاسکتے ہیں۔وہ کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ ہاں ہم نے یہ رقم لی تھی ‘ لیکن کسی اورشخص سے ۔ سیاسی جماعتیں کس طرح فخر سے دعویٰ کرسکتی ہیں کہ وہ اپنے نمبروں سے زیادہ ووٹ حاصل کرلیں گی ؟قانون نافذ کرنے والے اور آئینی ادارے کس طرح خاموش تماشائیوں کا کردار ادا کرسکتے ہیں ؟ کیا واضح جرم ہوتا دیکھ کر بھی اُنہیں ہدایت کی ضرورت ہے ؟ میڈیا اور مبصرین کس طرح خریدوفروخت کرنے والے افراد کو سیاسی طور پر ماہر اور دانا قرار دے سکتے ہیں؟ ڈرادینے والی بے حسی ‘ خوفناک بے ضمیری کسی سانحے سے کم نہیں ۔ انسانی جسموں کی خریدوفروخت ایک جرم ہے ۔ تو کیا انسانی روح اورانسانی ضمیرکی قیمت لگانا انتہائی سنگین جرم نہیں؟ انسانوں کی خریدوفروخت میں جبر ہوتا ہے‘ اُنہیں مجرمانہ طور پر پابند کردیا جاتا ہے ‘ انتخابی کامیابی کیلئے کی جانے والی خریدوفروخت میں وہ اس معاشرے کا اخلاقی اور تہذیبی ڈھانچہ تباہ کردیتے ہیں جس کا وہ خود حصہ ہوتے ہیں اور جس میں وہ ترقی کرتے جاتے ہیں ۔ دوسرے لوگ سمجھتے ہیں کہ اس معاشرے میں کامیابی کا یہی راستہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ووٹوں کی خریدوفروخت کو جرم قرار دے کر ختم کرناچاہیے ۔ایس او ایس کال دینا پڑے گی۔معاشرے کو بچانے کیلئے وقت ہاتھ سے نکلا جارہا ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں