غیر محفوظ تحفظ

''افسوس جس سنگین اخلاقی گراوٹ کے آثار دکھائی دے رہے تھے اس کا تدارک کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا‘‘یہ کہنا ہے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ڈائریکٹر جنرلTedros Adhanom Ghebreyesus کا ۔ زیادہ سے زیادہ ویکسین پر قبضہ کرنے کی دوڑ شروع ہوچکی ہے۔ ویکسین میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کی جا رہی ہے‘ وہ اسے تیار کررہے ہیں یا خرید رہے ہیں ‘ یہ وہ ہیں جن کے پاس دولت زیادہ ہے ۔ مگر اس میں غلط بات کیا ہے ؟
بظاہر تواس میں کچھ بھی غیر قانونی نہیں لگتا‘ لیکن یہ خود غرضی ضرور ہے ۔ دولت مند ممالک اپنے بوڑھوں اور جوانوں کو وسیع پیمانے پر ویکسین لگا رہے ہیں لیکن غریب ممالک اپنے اُن طبقات کو بھی ویکسین فراہم نہیں کرپارہے جو خطرے کی زد میں ہیں۔ معقولیت کہتی ہے کہ صحیح یا غلط‘ جس کے پاس پیسے ہوتے ہیں وہ سہولت کا حقدار ہوتا ہے ‘ لیکن معقولیت یہ بھی کہتی ہے کہ دولت کی ناہمواری سماجی تفریق کی لکیر کھینچتی ہے اور یہ وہ تفریق ہے جو عدم تحفظ کا باعث بنتی ہے ۔
کوویڈ نے انسانیت کی کمیابی‘ اخلاقیات کے فقدان اور سکیورٹی کے دکھاوے کو بے نقاب کردیا ہے ۔ طاقتور دکھائی دینے والی معیشتیں سایوں کی طرح سمٹ رہی ہیں ۔ ملازمتوں کے بے پناہ مواقع رکھنے والے ممالک اُجڑے ہوئے قصبوں کی طرح دیوالیہ ہوچکے ہیں ۔ کسی دور میں دنیا اس پیمانے پر عدم تحفظ کا شکار نہیں ہوئی جتنی اس وبا کی وجہ سے ہوئی ہے ۔ یہ مقام ِفکر ہونا چاہیے تھا ۔ اپنا محاسبہ کرنے ‘ انسانیت کا حقیقی جذبہ بیدار کرنے کا وقت تھا ۔مگر اس کی بجائے یہ تقسیم ‘ خود غرضی‘ کوتاہ بینی کا دور دکھائی دیتا ہے ۔ ہر کسی کو مزید بحران اور ممکنہ چوتھی لہر سے اپنا بچائو کرنے کی فکر ہے ۔ اس ماحول میں سکیورٹی پر مذاکرات ضروری ہیں لیکن وہ ترجیحی فہرست میں سب سے اوپر نہیں ۔ ضرورت ہے توتذبذب کیوں؟ شاید دکھائی نہ دینے والے وائرس کے مستقل خوف نے دیگر خدشات کو پس منظر میں دھکیل دیا ہے ۔خود کو ویکسین لگوانے کی دوڑ نے دیگر تمام پالیسی فیصلوں کو نگل لیا ہے ۔ سکیورٹی کی تفہیم کا مطلب یہ جاننا ہے کہ یہ ہر شخص کی زندگی کے ہر پہلو کو کس طرح متاثر کرتی ہے‘ لیکن اس وقت اس کا اظہار نہیں ہورہا ۔ جب اسلام آباد نے پہلا پالیسی مکالمہ کیا تو شاید ہی کسی کا خیال تھا کہ یہ پاک بھارت تعلقات پر روایتی طور پر دہرائے جانے والے بیانیے کے علاوہ بھی کچھ ہوگا۔ شہ سرخیوں اور عام بحث سے پتہ چلتا ہے کہ سکیورٹی سے صرف سرحد اور لائن آف کنٹرول کا تحفظ مراد لی جاتی ہے ۔ اس پر مزید مذکرات کی ضرورت ہے ۔ سکیورٹی پر مذاکرات سے پہلے بات چیت ضروری ہے کہ کس طرح وائر س اور دیگر خطرات کو دیگر خطرات کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے۔ جامع سکیورٹی مذاکرات وہ مکالمہ ہے جو کسی ایک یا تمام اقوام کو انفرادی یااجتماعی طور پر سکیورٹی ضروریات کے ساتھ ہم آہنگ کردے ورنہ کورونا جیسے کسی اور حملے کا انتظار کریں ۔ یہاں کچھ امور ہیں جنہیں دنیا کے سکیورٹی پالیسی بیانیے کا حصہ ہونا چاہیے ۔
1۔ معاشی عدم تحفظ : بڑے بڑے نام منہ کے بل گر چکے ہیں۔ جو مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں ‘ا س سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئے تھے ۔ امریکی معیشت میں کئی گنا گراوٹ آچکی ۔ گزشتہ برس سے یورپ بند ہے ۔ ایسٹر بھی گھروں میں گزرتا دکھائی دیتا ہے ۔ دکانیں ‘ ریستوران ‘ سنیما اور دیگر عوامی مقامات بند ہیں حتیٰ کے دولت مند ممالک میں درمیانی طبقہ غربت کی لکیر کی طرف بڑھ رہاہے۔ پیو ریسرچ سنٹر کے مطابق عالمی درمیانی طبقہ ‘ جس کی یومیہ آمدنی دس سے پچاس ڈالر ہے ‘ کی تعداد گزشتہ سال 90 ملین سے بڑھ کر 2.5بلین ہوگئی ۔ اس دوران غریب افراد ‘ جو یومیہ دو ڈالر یا اس سے بھی کم کماتے ہیں ‘ کی تعداد 131 ملین ہوگئی ۔
2۔ ماحولیاتی تبدیلی کا خطرہ : ماحولیاتی تبدیلی شاید ہمارے دور کا سب سے بڑا خطرہ ہے ۔ موجودہ عالمی وبا کو انسان کی فطرت کے ساتھ ممکنہ چھیڑ خانی کا نتیجہ بتایا جاتا ہے ۔ کورونا کے بعد کے سال میںہونے والے لاک ڈائون نے فضائیں صاف کردیں ‘ آسمان کا رنگ نکھر گیا لیکن جب انسان دوبارہ معاشی دوڑ میں سرپٹ ہوئے تو ایک مرتبہ پھر فضائیں مکدر ہوگئیں ۔ حال ہی میں سڈنی سیلاب میں ڈوب گیا ۔ میلبورن اور کیلی فورنیا کی پہاڑیوں میں لگی آگ بجھانے میں چھ ماہ لگ گئے ۔ پاکستان گلیشیرز پگھلنے اور بارشوں سے شہری علاقوں میں سیلاب آنے کے خطرے سے دوچار ہے ۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران 3.8 بلین ڈالر نقصان اٹھانے والا پاکستان درحقیقت ماحولیاتی عدم تحفظ کی بد ترین قسم کا شکار ہے ۔
3۔ سرحدیں اور جنگیں : دنیا اگر ایک طرف جنگوں کی مذمت کررہی ہے تو دوسری طرف ان میں اُلجھ بھی رہی ہے ۔ بھارت کی کشمیر میں یک طرفہ کارروائی جاری ہے اور چین کے خلاف اس کی جارحیت کم و بیش بھرپور جنگ میں تبدیل ہوتے ہوتے رہ گئی ۔ افغانستان میں افغان طالبان کے ساتھ پرامن سیاسی تصفیے کی ذمہ داری ابھی بھی کشمکش کا شکار ہے ۔ وہاں ہونے والے دہشت گرد حملے امن کے عمل کی بے بسی کو ظاہر کرتے ہیں ۔ عدم مساوات بڑھنے سے تشدد میں اضافہ لازمی ہے ۔
4۔ علم کی برتری : عدم مساوات ہر قسم کے عدم تحفظ کا باعث بنتا ہے ۔ عالمی وبا تمام اقوام کی سائنسی تحقیق کی صلاحیتوں کی جانچ تھی ۔ ترقی یافتہ اقوام نے علم اور تحقیق کے میدان میں برتری کی بنا کورونا وائرس کے خلاف ویکسین تیار کرلی ۔ اس کی وجہ سے دنیا میں غیر منصفانہ فضا قائم ہوچکی ہے جس میں دولت مند ممالک نہ صرف وسیع پیمانے پر ویکسین تیار کررہے ہیں بلکہ انہیں دنیا سے خرید کر دوسروں سے پہلے اپنی آبادی کو لگوا بھی رہے ہیں ۔ اس سے غیر قانونی سرگرمیوں ‘ خاص طور پر سمگلنگ کی راہ ہموار ہوگی ۔ منافع خور غریب ممالک میں غیر قانونی طور پر ویکسین لا کر مہنگے داموں فروخت کریں گے ۔ ا س سے کالے دھن کی مارکیٹ وجود میں آئے گی ۔ بے رحم منافع خور ویکسین سے دام کھرے کریں گے ۔ اس کے ساتھ ساتھ جعلی ویکسین ‘ فراڈ ‘ ہلاکت خیز انجکشن بھی مارکیٹ میں آجائیں گے ۔
امید کی کرنیں البتہ موجود ہیں۔ تاریک راتوں ہی میں ستارے زیادہ روشن دکھائی دیتے ہیں ‘ اس لیے امید کے چراغ ابھی گُل نہیں ہوئے ہیں خاص طور پر پاکستان میں ۔ ناقابل یقین پریشانی ‘ اخلاقی گراوٹ اورظلم کی رات میں روشنی کی کرنیں ہویدا ہیں ۔ کورونا کو ہمدری کے ساتھ کنٹرول کرنے والا پاکستان سٹڈی کیس بن چکا ۔ بھارت کو کورونا کو غلط انداز میں ہینڈل کرنے والے ملک کے طور پر دیکھا جارہا ہے تو دوسری طرف پاکستان کو دو محاذوں پر کامیابی سے لڑنے کی وجہ سے عالمی سطح پر سراہا گیا ۔ پہلا ‘ غریب افراد کے لیے سماجی تحفظ کا پروگرام اور دوسرا وباکے درمیان گرین انقلاب ۔ احساس کیش پروگرام کا عالمی پالیسی سنٹر میں ذکر کرتے ہوئے اسے غریب افراد کو بچانے والا ایک مثالی پروگرام قرار دیا گیا ۔ اس پروگرام کے تحت انتہائی غربت کا شکار 14.8 ملین خاندانوں میں 1.1 ارب روپے تقسیم کیے گئے ہیں ۔
دنیا کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ صورتحال ایسی ہی صورتحال کو جنم دے سکتی تھی ۔ لالچ‘ خودغرضی‘ نفع نقصان دنیا کو مزید ناہواری کا شکار کردیں گے۔ دنیا جتنی عدم مساوی ہوگی‘ اتنی ہی غیر محفوظ بھی ہوگی ۔ اس سے پہلے انسان کو مساوات کا سبق اتنے پرزور طریقے سے نہیں ملا تھا ۔ عالمی وبا نے سب کو ایک صف میں کھڑا کردیاہے۔ امیر ممالک تمام وسائل سمیٹ رہے ہیں۔ شاید وہ کورونا وبا سے حاصل ہونے والا بنیادی سبق بھول گئے ہیں ۔ جب تک ہر کوئی محفوظ نہیں ہو گا‘کوئی بھی محفوظ نہیں ہوگا۔ وہ اپنے ممالک میں ہر کسی کو ویکسین لگا سکتے ہیں لیکن جنوبی افریقہ ‘ نائیجریا اور کولمبیا میں وائرس کی اقسام موجود رہیں گے جو باقی دنیا میں پھیل کر ویکسین کو غیر مؤثر کرسکتی ہیں ۔ دنیا کو محفوظ بنانے والی بہترین ویکسین دوسروں کا خیال رکھنا ‘ دوسرے کے ساتھ ہمدردی‘ مہربانی ‘ شفقت اور محبت سے پیش آنا ہے ۔ ان اقدار پر عمل کرنا ہی وائرس کے پھیلا ئو کے خلاف بہترین تحفظ ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں