جھوٹ ‘ جاسوسی اور جدید حربے

جیمزبانڈکی فلم کامنظر۔ ولن اپنی پالتو بلی کی کمر پر پیار سے ہاتھ پھیر رہا ہے ۔ سامنے بہت بڑی سکرین پر اس کے اہداف کی سرگرمیاں نمایاں ہیں۔ وہ مصنوعی ذہانت سے رابطہ کرنے والا فون اٹھاتا اور کچھ بٹن دباکرہدایات دیتاہے'' انہیں تلاش کرو‘ پکڑو اور ماردو‘‘۔ اس کے حکم پر عمل درآمد سکرین پر دکھایا جاتا ہے ۔ نہیں‘ آپ غلط سمجھے یہ جیمز بانڈ کی 70 ء کی دہائی میں ریلیز ہونے والی فلم ''You only live Twice‘‘ کا نیا روپ نہیں یہ اس دنیا میں آج کی حقیقت ہے ۔ جیتے جاگتے انسانوں کی جسمانی ‘ ذہنی اور حیاتی سرگرمیوں کی نگرانی ہورہی ہے ۔ ہر چیز پر نظر رکھی جاسکتی ہے‘ ہر چیز ہیک ہوسکتی ہے ‘ ہر چیز تک رسائی ممکن ہے ‘اور ہرچیز دستیاب بھی ہے ۔ پرائیویسی میں نقب زنی کی دنیا میں خوش آمدید۔ ففتھ جنریشن وارفیئر کی بنیاد سکستھ جنریشن سپائی ویئر ہے ۔ سکستھ جنریشن سپائی ویئر کی بنیاد ایسے سافٹ ویئر پر ہے جوکسی بھی جگہ سرایت کرسکتا ہے ۔
تازہ ترین سافٹ ویئر ‘ پیگاسس لیکس حیران کن نہیں ۔ انفارمشین وارفیئر‘ ڈیٹا لیکس‘ ہیکروں کے حملوں پر بہت بات کی جاچکی۔ پیگاسس لیکس نے ان مشکوک سرگرمیوں کی تصدیق کردی ۔ اس دنیا میں ذہنوں کو کنٹرول کرنا جغرافیائی علاقے کو کنٹرول کرنے سے کہیں زیادہ آسان ہوچکا ۔ یہ لرزہ خیز حقائق ہیں ۔ یہ یلغار ٹینکوں اور بموں کی جنگ سے بھی زیادہ تباہ کن ہے ۔ یہ نیا میدانِ جنگ ہے جہاں غیر مرئی شکاری کسی وائرس کی طرح سرایت کرجاتا ہے اور ہدف بننے والے کو پتہ بھی نہیں چلتا۔پیگاسس فون کی جاسوسی کرنے والا سپائی ویئر ہے جو بے ضرر ٹیکسٹ میسج کے ذریعے فون میں داخل ہوتاہے۔ اس شخص کے کلک کرتے ہی ہیکر فون اور اس کی ایپلی کیشنز میں داخل ہوجاتا ہے ۔ اس کے بعد ہیکر پیگاسس سپائی ویئر کے ساتھ ریموٹ کمانڈ سنٹر کے ذریعے رابطہ کرتا ہے کہ سپائی ویئرہیکر کے سرور کو کون سی معلومات بھیجے : پاس ورڈ ‘ رابطوں کی فہرست‘ واقعات کا شیڈول‘ ٹیکسٹ پیغامات‘ براہ راست وائس کالز۔ یہ درحقیقت جدید ترین حربہ ہے ۔ یہ خفیہ کوڈ ز کو بھی پڑھ لیتا ہے ‘ سکیورٹی وال سے گزر جاتا ہے ‘ اور آئی پیڈ اور اینڈرائیڈ اور دیگر سسٹم بھی اس کی شناخت کرکے اسے نہیں روک سکتے۔یہ نجی زندگی میں تاک جھانک کرنے والی غیرمرئی آنکھ ہے ۔ کوئی نامعلوم ذہانت آپ کی حرکات و سکنات اور پیغامات پر نظر رکھے ہوئے ہے اور اسے پتہ ہے کہ آپ کیا ہیں‘ کہاں ہیں اور وہ آپ کی جسمانی اور ذہنی سرگرمیوں سے آگاہ ہے ۔ آپ کہاں اور کس حالت میں تھے‘ یہ آپ کے کیمرے سے تصویر لے سکتا ہے ۔
پیگاسس کو اسرائیلی فرم ‘ این ایس او گروپ نے تیار کرکے پچیس جنوری 2010 ء میں فعال کیاتھا ۔ ان پراڈکٹس کے اعلانیہ مقاصد یہ ہیں کہ اسے '' سرکاری قانون نافذ کرنے والی اور خفیہ ایجنسیوں کو جرائم اور دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں استعمال‘‘ کیا جائے گا ۔سٹیزن لیب رپورٹ نے 2018 ء میں 45 ایسے ممالک کو شناخت کیا جہاں اسے استعمال کیا جارہا تھا۔ ان میں انڈیا‘ بحرین ‘ قازقستان ‘ میکسیکو ‘ مراکش ‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں ۔ نومبر 2019 ء میں انڈیا میں سکینڈل منظر عام پر آیا تھا کہ کارکنوں کو شک ہوا کہ حکومت ان کے ڈیٹا کی نگرانی کررہی ہے ۔ حکومت نے تین رکنی کمیٹی قائم کی جس نے نتیجہ نکالا کہ کسی قسم کی جاسوسی کاکوئی ثبوت نہیں ملا ‘ تاہم موجودہ انکشافات سے پتہ چلتا ہے کہ بھارتی حکومت اس سافٹ ویئر کو استعمال کرتے ہوئے تین سو سے زائد افراد کی جاسوسی کررہی تھی ۔ وقت آگیا ہے کہ بھارت کی منافقت‘ جھوٹ اور غیر قانونی ہتھکنڈوں کو بے نقاب کیا جائے :
1۔ عالمی میڈیا کے لیے قابل قبول خبر: یہ انکشاف دنیا کی چوٹی کی میڈیا تنظیموں بشمول واشنگٹن پوسٹ اور گارڈین وغیرہ نے کیے ہیں۔ پاکستان کے لیے قدم اٹھانے اور ان تنظیموں کے ساتھ مل کر انڈیا اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔انہیں اپنی دریافت منظر عام پر لانی چاہیے ۔ اُن کنسورشیم کے سربراہان کے ساتھ ورچوئل تعلقات کی ضرورت ہے تاکہ ان انکشافات کو استعمال کیا جاسکے‘ انہیں سیمیناروں اور مذاکرات میں شریک کرکے ان انکشافات پر روشنی ڈالنی چاہیے ۔
2۔ متاثرہونے والے میڈیا کے ساتھ ہمدردی : گارڈین کے مطابق ہیک ہونے والے صحافیوں کا تعلق ایجنسی فرانس پریس‘ وال سٹریٹ جرنل‘ سی این این ‘ نیویارک ٹائمز‘الجزیرہ‘ فرانس 24 ‘ ریڈیوفری یورپ‘ میڈیا پارٹ‘ ایسوسی ایٹڈ پریس‘ لی مونڈ‘ بلومبرگ‘ دی اکنانومسٹ‘ رائیٹرز‘ وائس آف امریکا اور ایل پائس سے تھا۔ انسانی حقوق کے ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور فرانسیسی میڈیا گروپ فوربڈن سٹوریزکی جانب سے اس ڈیٹا کا تجزیہ کرنے پر معلوم ہوا کہ این ایس او کا سافٹ ویئر استعمال کرنے والے 12 صارف ممالک نے نہ صرف 21 ممالک میں کام کرنے والے کم از کم 180 صحافیوں کی نگرانی کرنے کے لیے ان کے نمبرز منتخب کیے تھے ‘ گویا عملی طور پر تمام عالمی میڈیا سروس کا پلیٹ فورم ہیک ہوگیاتھا ‘بلکہ فون نمبرز کی اس فہرست میں حکومتی عہدے داروں‘ کاروباری شخصیات‘ جج اور دیگر انسانی حقوق کے کارکنوں کے نام بھی شامل ہیں۔ ان کے فون میں سرایت کرنا دہرا جرم ہے ۔ ایک تو نجی زندگی میں مداخلت ‘اور دوسرا دانش کے حقوق کی خلاف ورزی۔ جس طرح پاکستان میں پاناما لیکس نے بھونچا ل کھڑا کردیا ‘ اسی طرح پیگاسس لیکس کے پیچھے چھپے چہرے بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔ الیکٹرانک او ر سوشل میڈیا کے ذریعے ہیک ہونے والے صحافیوں کے انٹرویوچلائے جانے چاہئیں۔ یہ سرگرمی بالواسطہ طور پر بھارت کے دہرے چہرے کو بے نقاب کرے گی ۔
3۔ انسانی حقوق اور سول سوسائٹی: پیگاسس لیکس میں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور فوربڈن سٹوریز جیسی غیر کاروباری تنظیمیں بھی شامل ہیں ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل بہت فعال طریقے سے اُن افراد کی تفصیل فراہم کررہی ہے جو اس سافٹ ویئر سے متاثر ہوئے۔ 18 جولائی کو متعدد عالمی صحافتی اداروں میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق ایمنسٹی انٹرنیشنل اور فوربڈن سٹوریز کو 50 ہزار سے زائد فون نمبرز پر مشتمل ریکارڈ تک رسائی حاصل ہوئی جن کو جاسوس سافٹ ویئر پیگاسس کو استعمال کرتے ہوئے نگرانی اور جاسوسی کا ہدف بنایا گیا تھا۔گزشتہ سال ستمبر میں ایمنسٹی انٹر نیشنل کو مودی سرکارنے بھارت سے نکل جانے کا کہا تھا کیوں کہ وہ بھارتی حکومت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بے نقاب کررہی تھی ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے بھارت میں سینئر ریسرچ ڈائریکٹر رجت کھوسلہ نے میڈیا کو بتایا تھا کہ انہیں حکومت کی جانب سے بے مثال ہراسانی کا سامنا ہے جس میںمنظم طریقے سے کیے جانے والے حملے‘ دھمکیاں اور ہراسانی شامل ہیں ۔درحقیقت اس تنظیم نے پیگاسس کی اصل کمپنی این ایس او کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی کوشش کی تھی لیکن کیس ہار گئی ۔ کشمیر اور فلسطین میں ڈھائے جانے والے مظالم پر انڈیا اور اسرائیل کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے ایمنسٹی انٹرنیشل ایک بہترین پلیٹ فورم ہے ۔
4۔ سیاسی اور مالیاتی فورم : پیگاسس منصوبہ ‘ جیسا کہ واشنگٹن پوسٹ نے اسے قرار دیتا ہے ‘ کے مطابق بھارت میں نہ صرف صحافی بلکہ حزب مخالف کے اراکین اور پاکستان کے وزیراعظم عمران خان بھی اس کے اہداف کی فہرست میں تھے‘ جن کی نجی معلومات تک رسائی حاصل کی گئی ۔ یہ قانون اور ضوابط کی سنگین پامالی ہے ۔ اس پر پاکستان مودی حکومت کے اپنے مخالفین ‘ خاص طور پر پاکستان ‘ پر غیر اخلاقی اور غیر روایتی حملوں کو منظر عام پر لاسکتا ہے ۔ بھارتی وزیر خارجہ ‘ جے شنکر نے انکشاف کیا ہے کہ بھارت نے اس بات کو یقینی بنایا کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے فہرست میں رہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ انڈیا کس طرح تنظیموں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے ان کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہا ہے ۔
پیگاسس ایک خطرناک وائرس ہے ۔ یہ لوگوں پر چھپ کر‘ دھوکے سے حملہ کرنے کے ارادے سے چھوڑا گیا ۔ اس کے حملے اور متاثر کرنے کا سراغ بھی نہیں ملتا۔ یہ مشکوک ‘ منفی اوربدنام مقاصد کے لیے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مودی جیسے لوگ اسے اپنے جھوٹے ایجنڈے کا پرچارکرنے‘ جاسوسی اور اہداف کو ذاتی آزادی سے محروم کرنے کے لیے ایک مفید حربہ سمجھتے ہیں۔ دنیا اس کے بارے بات کررہی ہے ۔ اس کا پاکستان سے بھی ردعمل آنا چاہیے ۔ اس بازگشت کو تزویراتی ابلاغ کی صورت میں دنیا بھر کے میڈیا پلیٹ فورمز کے ذریعے پھیلانا چاہیے ۔
اس وقت چیلنج یہ ہے کہ اسے صرف انڈین ریڈار کا ایک اور سپاٹ نہ سمجھا جائے بلکہ اس کی تشہیر کرتے ہوئے اسے مجرمانہ سرگرمی کے طور پر پیش کیا جائے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سپائی ویئر اپنے اعلانیہ مقصد'دہشت گردی کے تدراک‘ کے بالکل برعکس استعمال ہورہا ہے ۔ اسے ریاستیں اور ریاستی دہشت گردی منفی مقاصد کے لیے استعمال کررہی ہیں ۔ صرف ممالک ہی نہیں بلکہ میڈیا بھی خطرے سے دوچار ہوچکا ہے ۔ عام طور پر اُن میں سے ایک کو خطرہ لاحق ہوتا ہے ‘ مگر اب چونکہ دونوں کو ایک ہی دشمن سے واسطہ پڑا ہے ‘اس لیے بھارت اور اسرائیل کی اصل حقیقت دنیا کے سامنے لانے کا اچھا موقع ہے اور یہ جنگ تمام محاذوں پر لڑی جانی چاہیے ۔کورونا کی طرح پیگاسس سپائی وئیر سے بھی تزویراتی ‘ اخلاقی ‘ عالمی اور قانونی طریقوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں