امتیازی سلوک کے رنگ

کبھی سرخ فہرست میں توکبھی سرمئی فہرست میں۔ کہتے ہیں کہ اس کاکوئی میرٹ ہے ... کیا واقعی؟ خیرمیرٹ تو کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن آپ کو اچھا لگے یا برا‘ اس وقت پینٹ اور برش اُن کے ہاتھ میں ہے ۔ ایک سٹروک سے وہ آپ کو سیاہ بھی کرسکتے ہیں اور سفید بھی... ''جوچاہے آ پ کا حسن ِ کرشمہ ساز کرے۔‘‘آپ کسی بھی رنگ کی فہرست میں شامل کیے جا سکتے ہیں اور خارج بھی ۔ پاکستان کو برطانیہ نے کووڈ کے حوالے سے سفری پابندیوں والی سرخ فہرست میں برقرار رکھا۔ اس سے پہلے پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی سرمئی فہرست میں رکھا گیا تھا۔ اس کی وجہ باریک بینی سے کی گئی جانچ اور کچھ قوانین کو مزید سخت کیا جانا ہے ۔ ان وجوہات کی کوئی منطق دکھائی نہیں دیتی۔ یہ منطق بذات خود غیر منطقی ہے ۔ ان دلائل میں کوئی دلیل نہیں ۔ لیکن پھر عالمی نظام ایسا ہی ہے۔ قوانین کی تشریح اور نفاذ کی یہی رسم ہے۔ قانون بنانے والوں اور ختم کرنے والوں کا مروجہ انداز یہی ہے ۔
دور ِ جدید کے لٹریچر میں مساوات اور دولت کی حمایت محض رسمی ہے‘ عملی نہیں ۔ دنیا میں ہر گزرتے دن کے ساتھ عدم مساوات اوردولت کی ناہمواری بڑھ رہی ہے ۔ آکسفیم (Oxfam ) کے جائزے کے مطابق دنیا کے ایک فیصد انتہائی دولت مند افراد کے پاس باقی 99 فیصد (6.9 ارب) انسانوں سے دگنی دولت ہے ۔2153 ارب پتی افراد کے پاس موجود دولت دنیا کی 60 فی صد آبادی کی مجموعی دولت سے زیادہ ہے۔ انتہائی خوش حال افراد اپنی دولت کی مناسبت سے ٹیکس بھی ادا نہیں کرتے ۔ دنیا کے 6.9 ارب افراد سے دگنی دولت رکھنے والے کھرب پتیوں کا بطور ٹیکس وصول کردہ ہر ڈالر میں حصہ صرف چار سینٹ ہوتا ہے ۔ یہ وسیع فرق صحت‘ تعلیم ‘ صفائی وغیرہ کی سہولیات تک رسائی میں واضح دکھائی دیتاہے ۔آکسفیم کی رپورٹ کے مطابق اگر دنیا کے صرف ایک فیصد امیر ترین افراد اپنی دولت پر 10 سال تک صرف اعشاریہ پانچ فیصد اضافی ٹیکس ادا کریں تو اس سے بزرگوں اور بچوں کی دیکھ بھال‘ ان کی تعلیم اور صحت کے شعبے میں 11 کروڑ 70 لاکھ نئی ملازمتیں پیدا کرنے کے لیے درکار سرمایہ کاری کی کمی دور ہو سکتی ہے۔
دنیا میں ناہمواری بڑھنے کے پیچھے بہت سی اساطیری کہانیاں ہیں‘ کوویڈ 19 نے اس فرق کو مزید واضح کردیا :
1۔ گلوبلائزیشن سب کو فائدہ پہنچائے گی: گوبلائزیشن کے بارے میں فرض کیا گیا تھا کہ وہ ایک مارکیٹ پیدا کرے گی‘ جغرافیائی حدود سے ماورا ہوگی‘ مواقع ابھریں گے اور کم ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دنیا کو مدد اور یکساں مواقع حاصل ہوں گے ۔ رواں صدی کے دو عشرے بیت چکے لیکن ہم نے اس کے برعکس ہوتے دیکھا ۔اجارہ رکھنے والے ممالک نے اپنی معیشت کو تحفظ دینے کے لیے قانون سازی کی ۔ خوش حال ممالک مارکیٹ اور پالیسی سازی کا اختیار اپنے پاس رکھتے ہیں ۔ یورپی یونین میں توسیع ہونے کی بجائے اس سے برطانیہ بھی باہر نکل گیا۔ سابق صدر ٹرمپ نے شمالی امریکا سے تجارتی معاہدہ منسوخ کردیا۔ وہ میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کرنے کا منصوبہ بھی رکھتے تھے۔ کوویڈ کی وجہ سے سفری پابندیوں نے مارکیٹوں تک رسائی کے امکانات مزید معدوم کردیے۔
2۔ عالمی ادارے مساوات بحال کریں گے: ترقی یافتہ دنیا نے عالمی فیصلہ سازی کے لیے بین الاقوامی بندوبست ترتیب دے رکھا ہے ۔ اقوام متحدہ‘ عالمی ادارہ صحت‘ عالمی بینک‘ آئی ایم ایف وغیرہ وہ مالیاتی اور عالمی ادارے ہیں جو عالمی پالیسیاں طے کرتے ہیں۔ ان اداروں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ رکن ممالک جو زیادہ مالی تعاون کرتے ہیں‘ وہی زیادہ مالی اور سیاسی اثرورسوخ رکھتے ہیں ۔ اس سے اُنہیں دہری اجارہ داری حاصل ہوجاتی ہے ۔ اس میں جی سیون ممالک ہیں ۔ دنیا کے امیر ترین سات ممالک دیگر دو سو ممالک کے فیصلے کرتے ہیں ۔ایسا ہی ایک کیس ایف اے ٹی ایف بھی ہے ۔ پاکستان کا شمار اس کی شرائط جلد از جلد پوری کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے اس کے باوجود پاکستان گرے فہرست میں ہے کیونکہ بھارتی لابی اس کی میرٹ اور شفافیت پر اثر انداز ہوتی ہے ۔بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کے بیان نے اس شبہے کو تقویت دی ہے ۔ انہوں نے اسی سال جولائی میں بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ'' ہماری وجہ سے ایف اے ٹی ایف پاکستان پر نظر رکھے ہوئے ہے اور اسی لیے پاکستان کا نام تنظیم کی گرے لسٹ میں برقرار رکھا گیا ہے۔
3۔ جمہوریت اور امن کی بحالی: ایک اور خوش فہمی کے غبارے سے ہوا نکل گئی کہ مغربی جمہوریت کشمکش زدہ ممالک میں امن لائے گی۔ امریکا اور اس کے نیٹو اتحادیوں نے ایران‘ عراق‘ شام‘ لیبیا اور افغانستان میں انتہا پسندی ‘ دہشت گردی اور آمریت کا جواز پیش کرتے ہوئے عشروں تک عسکری مداخلت کی۔ کم و بیش ہر مداخلت کی وجہ سے جنگ کا دائرہ مزید پھیلا‘ مزید خون بہا اور دہشت گردی کو فروغ ملا ۔ افغانستان گزشتہ چالیس برس سے حالتِ جنگ میں ہے ۔ بیرونی مداخلت کبھی بھی مسائل کا حل نہیں رہی اور نہ ہی آئندہ ہو گی۔ دراصل یہ مداخلت نہ تو جمہوریت لانے یا بحال کرنے کے لیے تھی اور نہ ہی مقامی افراد نے اُسے اس نظر سے دیکھا تھا۔ یہ محض قبضہ کرنے اور کنٹرول کرنے کے لیے کی گئی تھی۔ اس سے مزاحمتی قوتوں کو جواز مل گیا اور مزاحمت کا دائرہ پھیلنے سے تشدد اور خونریزی میں اضافہ ہوا۔
بین الاقومی تھنک ٹینکس کے لیے گئے ہر جائزے نے ان حماقتوں کا پردہ چاک کیا ہے ۔ اس کے باوجود دنیا تاریخ دہرانے میں دلچسپی لیتی ہے ۔ تجزیہ کار یہ دیکھ کر مایوس ہیں کہ عشروں سے انہی ناقص پالیسیوں کا اعادہ ہورہا ہے جن کے وہی جانے پہچانے افسوس ناک نتائج برآمد ہورہے ہیں ۔ تو کیا ترقی پذیر دنیا کے لیے کچھ بھی باقی نہیں رہا؟ کیا افغانستان یا پاکستان جیسے ممالک ہمیشہ امتیازی سلوک کا نشانہ بنتے رہیں گے ؟ضروری نہیں ۔ ہر خرابی میں کوئی نہ کوئی موقع چھپا ہوتا ہے ۔ کچھ مشکل سبق سیکھنے اور انہیں نافذ کرنے کی ضرورت ہے :
1۔ راہ نمائوں کا انتخاب: ہدف بنا کر حملہ کرنے اور قبضہ کرنے کی امریکی پالیسی کا دارومدار نشانہ بننے والے ملک کے راہ نمائوں کے تعاون پر ہے ۔ استحصالی طاقتوں کو کٹھ پتلی حکمرانوں کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کی کھینچی ہوئی لکیر کے فقیر بن جائیں اور امداد اور مراعات کے عوض ملک کا کنٹرول اُن کے ہاتھ میں تھما دیں ۔ چاہے یہ اشرف غنی ہوں یا صدام حسین یا زرداری یا پرویز مشرف‘ سب نے اصولوں پر سمجھوتاکیا۔راہ نمائوں کا انتخاب یا اُن کا احتساب کرنا ملک کے عوام کی ذمہ داری ہے ۔ ضروری ہے کہ عوام ایسے راہ نمائوں کا انتخاب نہ کریں جن کے مفادات اور اثاثے ملک سے باہر ہوں۔ ایسے لوگ امریکی امداد سے ذاتی فائدہ اٹھائیں گے ۔جب حالات مشکل ہوں گے تو وہ اپنا بیگ اٹھا کر چلتے بنیں گے ۔
2۔ معاشی خود مختاری : ایک اور سبق یہ ہے کہ غیر ملکی قرضوں پر انحصار کرنے والے ممالک کبھی بھی آزاد پالیسیاں نہیں بنا سکتے ۔ آئی ایم ایف‘ عالمی بینک اور دولت مند ممالک کو ہمیشہ اپنا مفادعزیز ہوتاہے ۔ چین‘ انڈیا اور ایران کی مثال لے لیں ۔ ان ممالک نے اپنے وسائل خود پیدا کیے ہیں۔ چین اورانڈیا صنعت کاری اور مارکیٹنگ کی صلاحیتیں بروئے کارلاتے ہوئے ابھرتی ہوئی معیشتیں بن گئے ۔ معاشی پابندیوں کے باوجود ایران نے امریکی دبائو کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کردیا۔ ترکی کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ پاکستان کے لیے بھی ان مثالوں سے سبق سیکھتے ہوئے معاشی استحکام اور خود انحصاری حاصل کرنا ضروری ہے تاکہ وہ قرض لینے اور شرائط ماننے کی مجبوری کے جال سے نکل سکے ۔
3۔ سیاسی اہمیت : چاہے ممالک چھوٹے ہی کیوں نہ ہوں‘ اُن کی تزویراتی اہمیت ہوسکتی ہے ۔ پاکستان نے کبھی اپنی جغرافیائی اہمیت سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھایا۔ افغان جنگ نے بتایا کہ پاکستان کی کیا اہمیت ہے ۔یورپ میں پی آئی اے کی پروازیں بند کرنے کے بعد اب یورپی یونین اسی سے درخواست کرنے پر مجبور ہوئی کہ اس کے سٹاف کو کابل سے انخلا میں مدد دی جائے ۔ اگر اپنے پتے درست کھیلے تو پاکستان بہت اہم ملک بن سکتا ہے۔ مغرب کو افغانستان میں اپنی موجودگی برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کی ضرورت ہوگی ۔ اس کے علاوہ پاکستان‘ افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان تجارتی راہ داری قائم ہونے کے بعد پاکستان کی اہمیت بڑھے گی۔
یہ ایک بے انصاف دنیا ہے ۔ عالمی طاقتیں دنیا کے بارے میں مخصوص زاویہ نگاہ رکھتی ہیں ۔ وہ ممالک کو اپنے مفادکی عینک سے دیکھتے ہیں۔ نیلسن منڈیلا 2008 ء تک سی آئی اے کی دہشت گردوںکی فہرست میں تھے ‘ لیکن اُنہیں ہمارے دور کے
عظیم ترین راہ نمائوں میں سے ایک کے طور پر یاد کیا جاتا ہے ‘ اور کیا جاتا رہے گا۔ بھارتیوں نے عشروں تک پاکستان کو ایک خطرناک ریاست کے طور پر پیش کیا۔ بڑی مارکیٹ ہونے کی وجہ سے مغرب نے بھی پاکستان کو بھارت کی نظروں سے دیکھنا شروع کردیا تھا۔ اس کا حل یہ نہیں ہے کہ ہم انتظار کرتے رہیں کہ دنیا کب پاکستان کے بارے میں اپنا انداز فکر تبدیل کرے گی۔ ہمیں اپنی اہمیت اتنی بڑھانی ہوگی کہ مغرب ہماری دی ہوئی عینک پہنے ۔ اس کے لیے ملک کی اہمیت اجاگر کرنے والا طاقتور بیانیہ تخلیق کرنا ہوگا‘ معاشی بازو مضبوط کرنے ہوں گے ‘ سماجی اور سیاسی کارکردگی کا گراف بڑھانا ہوگا۔ یہ تین رنگ مل کر دنیا کے سامنے پاکستان کا سنہری منظرنامہ تخلیق کریں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں