افغانستان کی اتنی اہمیت کیوں ہے ؟

یہاں سے نکل چلیں اور بھول جائیں۔ راہِ فرار اختیار کرلیں اور وقت ملے تو پچھتا بھی لیں۔ افغانستان کے حوالے سے زیادہ تر ممالک کا طرزِ عمل انہی دو رویوں کا حامل ہے۔ ان ممالک کا پہلا ردعمل صدمے اور انکار کا پہلو لیے ہوئے تھا۔ یہ جلد ہی گھبراہٹ اور ابہام میں ڈھل گیا۔ انتہائی پریشانی کے عالم میں ہونے والے ریسکیو آپریشن نے کچھ بہادری اور کچھ المناک کہانیاں دیکھیں۔ فوجی دستوں کی واپسی ہو یا شہریوںکا انخلا‘ ہر دو سے فرار کا تاثر ملتا تھا۔ افراتفری سے ہر چیز واضح ہو رہی تھی۔ جو بات سمجھ میں نہیں آتی وہ ہے ان غلطیوں کو روکنے کے لیے کوئی واضح حکمت عملی تیار کرنے میں ہچکچاہٹ ۔ یہی غلطی سوویت یونین نے افغانستان سے نکلتے ہوئے کی تھی۔ اگر دہشت گردی سے پاک پرامن افغانستان اس بات کو یقینی بنائے گا کہ امریکہ اور دیگر ممالک پر مزید دہشت گردانہ حملے نہ ہوں تو پھر ان کی مالی اور قانونی زندگی کو مسدود کرنا اس یقین دہانی کے منافی ہے۔ ان لائف لائنز کو کاٹنا اتنا ہی برا ہے جتنا کہ ڈرونز سے معصوم شہریوں کو مارنا یا انسانی وجود کو نیست و نابود کرنے کے لیے بمباری کرنا ۔
افغانستان ایک ایسا ملک ہے جسے اندرونی اور بیرونی طور پر 20 سال سے جاری جنگ نے برباد کردیا ہے۔ تباہی‘ تصادم اور دہشت گردی کے ہوتے ہوئے ملک کبھی ترقی نہیں کر سکتے۔ افغانستان نے تقریباً ہر وقت تینوں کا سامنا کیا ہے۔ تنازعات قومی استحکام کے لیے زہر قاتل ہوتے ہیں۔ غیر یقینی صورتحال ملک کی پیداواری سکت کے لیے ایک کینسر ہے۔ افغانستان ایک کیس سٹڈی ہے کہ کس طرح امن اور استحکام اپنے لوگوں کے لیے محض ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ غیر ملکی تجربات ناکام ہو چکے ہیں‘ خانہ جنگی نے تقسیم پیدا کر دی ہے‘ اور کٹھ پتلی حکومتوں نے مزید ناراضی اور بدعنوانی کو جنم دیا ۔جب ہر طرح کی تزویراتی تدابیر ناکام ہوچکیںتو ظاہر ہے کہ اس کا حل اس کے برعکس امکانات تلاش کرنے میں پنہاں ہے‘ لیکن یہ دیکھ کر عقل مائوف ہوجاتی ہے کہ ہم وہی مناظر دیکھ رہے ہیں جو ہم اس سے پہلے دیکھ چکے ہیں۔ اس لیے صورتحال بہت حوصلہ افزا نہیں۔یہی وجہ ہے کہ افغانستان کے لیے اس مرتبہ مختلف لائحہ عمل اپنانے کی ضرورت ہے:
1۔ کورونا میں ترجیحات اور حکمت عملیوں کی تبدیلی: کورونا نے معیشتوں کو تباہ کر دیا ۔گراوٹ کا یہ عالم ہے کہ بڑی بڑی طاقتیں اور خوش حال ممالک کرسمس ٹری سجانے اور ٹرکی مرغی حاصل کرنے کی تگ و دو میں ہیں ۔ امریکہ مزید جنگوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ موسمیاتی تبدیلیوں اور اگلی وبائی بیماری کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتا۔ نہ امریکہ اور نہ طالبان۔ موجودہ طالبان نئے اور پرانے ادوار کا امتزاج ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر وہ لوگوں کو کھانا کھلانے اور امداد حاصل کرنے سے قاصر رہے تو ان کی حمایت تیزی سے ختم ہو جائے گی۔ وہ جانتے ہیں کہ افغانوں کی نئی نسل ان سے توقع رکھتی ہے کہ وہ ایک جامع حکومت اور لڑکیوں کی تعلیم پر اپنی بات پر قائم رہیں۔ دنیا سے کٹ کر الگ تھلگ رہنے اور عدم تعاون کا رویہ اپنانے سے نہ صرف افغانوں کو نقصان پہنچے گا بلکہ افغانستان ملنے والی عالمی توجہ کو بھی کھو دے گا۔ کورونا نے مغرب کی شروع کردہ جنگوں اور تنازعات پر غلط ترجیحات کو بے نقاب کیا۔ وہ بم گرانے کے لیے ریڈار کے استعمال میں مصروف تھے جبکہ ٹاپ ریڈار سے باہر کورونا وائرس سب سے بڑا قاتل بن کر ہر گھر میں داخل ہو گیا۔ مستحکم افغانستان دنیا کو اپنے لوگوں کو سب سے بڑے سکیورٹی خطرے یعنی اگلی وبائی بیماری اور موسمیاتی تبدیلی سے بچانے میں مدد دے گا۔
2۔ افغان استحکام پر عالمی استحکام کا دارومدار: افغانستان دنیا کے سب سے زیادہ امداد پر انحصار کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ عطیہ دہندگان نے 2002ء سے اب تک گرانٹس کی مد میں 65 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔یہ امداد افغان جی ڈی پی کا تقریباً چالیس فیصد اور حکومتی اخراجات کا تین چوتھائی حصہ ہے۔ورلڈ فوڈ پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ''افغانستان اب دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک ہے ۔ خوراک کی فراہمی غیر یقینی ہوچکی ہے۔ اگر افغان معیشت بحال نہ ہوسکی یا ہم ضروری امداد میں اضافہ نہ کرسکے تو رواں موسم سرما میں لاکھوں افغان ہجرت یا فاقہ کشی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور ہوں گے۔فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن اور ورلڈ فوڈ پروگرم نے ایک مشترکہ تحقیقی جائزے میں کہا ہے کہ خشک سالی‘ تنازعات اور اقتصادی انحطاط کے مشترکہ اثرات نے زندگیوں‘ معاش اور افغانوں کی خوراک تک رسائی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ خطرے میں مبتلا افراد میں سے32 لاکھ پانچ سال سے کم عمر بچے ہیں جن کے بارے میں خدشہ ہے کہ وہ سال کے اختتام تک غذائیت کی شدید قلت کا شکار ہو سکتے ہیں۔ڈیوڈ بیسلی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کا بحران اس وقت اگر دنیا کا بد ترین بحران نہیں تو دنیا کے بد ترین بحرانوں میں ضرور شامل ہے اور وہاں خوراک کی شدید قلت ہے۔اُن کا کہنا تھا کہ اگر ہم افغانستان میں جان بچانے والی امداد نہ بڑھا سکے اور وہاں معیشت بحال نہ ہو سکی تو اس موسم سرما میں لاکھوں افغان ہجرت اور فاقہ کشی میں سے کسی کا انتخاب کرنے پر مجبور ہوں گے۔غیر ملکی امداد کے بغیر ایک قحط زدہ‘ غیر صحت مند افغانستان کے پاس تین راستے ہوں گے : فرار‘ زبردستی یا لڑائی۔ پہلے ہی مہاجرین کے بحران نے اُن لوگوںکے لیے دروازے بند کر دیے جو فاقہ کشی سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوسرا انتخاب یہ ہے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے جرائم اور لوٹ مار کی راہ اپنائیں ۔ تیسرا‘ دہشت گرد تنظیموں میں شامل ہوکر مغرب کے خلاف بغاوت کردیں ۔ یہ تینوں دنیا کے لیے پہلے سے کہیں بڑی تباہی کا پیشہ خیمہ ہوں گے ۔
3۔ افغانستان نے تجارتی منڈیوں کے لیے پورے خطے کو کھول دیا : معیشتوں کے انہدام سے یورپ اور امیر ممالک کو محدود وسائل اور غیر فعال منڈیوں کا سامنا ہے۔ معاشی احیا کے لیے نئی منڈیاں ضروری ہیں۔ امریکہ اور یورپی یونین نے انڈیا کو اپنے مستقبل کے لیے ایک بڑی مارکیٹ کے ساتھ ساتھ چین کے خلاف سٹریٹجک پارٹنر کے طور پر چنا ہے۔ یہ حکمت عملی انہیں اپنی معاشی برتری برقرار رکھنے کا پابند بناتی ہے۔ افغانستان ایشیا کا دل ہے۔ اس دل کو ماضی میں'' ہارٹ اٹیک‘‘ ہو چکا ہے۔ ایک بائی پاس متوقع ہے۔ یہ بائی پاس چین‘ پاکستان‘ ایران اور وسط ایشیائی ممالک بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے اور سی پیک کی صورت ممکن بنا رہے ہیں ۔ اگر امریکا اس میں شامل نہ ہو ا تو وہ ابھرنے والے مواقع کھو دے گا۔ اس کا مطلب خود کو مستقبل کی ابھرتی ہوئی مارکیٹ سے الگ کرنا ہوگا۔ یہ سیاست کے ہاتھوں معیشت کے قتل کی ایک کلاسیک غلطی ہوگی۔ اگرامریکا اور مغرب عالمی معیشت پر غالب رہنا چاہتے ہیں تو بھی افغانستان اُن کے لیے اہمیت رکھتا ہے ۔
4۔ ربط‘ رابطہ اورتعاون: افغانستان پر قبضہ کرکے اس کی قوم سازی اور معاشی ترقی کی ماضی کی حکمت عملی ناکام ہو چکی۔دو ٹریلین ڈالر کے نقصان کے بعد وہ طالبان کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہوگئے۔ انخلا کے بعد مغرب نے افغانستان کو چھوڑ دیا ۔ اب کاؤنٹر بلاکس بنا رہے ہیں۔ اس کا منفی ردعمل آسکتا ہے۔ افغانستان کے ساتھ مزید رابطے میں رہنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے ساتھ رابطہ رکھیں‘چین کے ساتھ رابطہ رکھیں۔ عدم رابطہ اور عدم تعاون نے دنیا کو ایک کے بعد ایک وائرس کی لہر کا شکار ہوتے دیکھا۔ دولت کا استعمال‘سرحدیں بندکرنا‘ ویکسین کے حصول پر اجارہ داری قائم کرنادنیا کو تباہی اور اموات سے نہیں بچا سکتا۔
دنیا کو افغانستان کے ساتھ رابطے میں رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ سخت سردی قریب آ رہی ہے۔ 90فیصد افغان بچے‘ خواتین‘ نوجوان اور بوڑھے بھوک اور بیماریوں کا سامنا کر رہے ہوں گے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ دنیا کو خطے کی جغرافیائی تجارتی صلاحیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہر آفت معاشی بدحالی کا باعث بنتی ہے۔ ہرکساد بازاری دنیا کو بحالی کے لیے نئے خطے دریافت کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ یورپ ہی تھا جس نے باہمی جنگیں روکنے کا فیصلہ کیا تاکہ دنیا میں امریکہ کے پیروکار کے طور پر ابھرنے کے لیے ایک مارکیٹ تیار کی جا سکے۔ 80 ء کی دہائی میں یہ چین تھا جس نے فیصلہ کیا کہ وہ تنازعات کی بجائے مقامی اور بین الاقوامی منڈیوں پر توجہ مرکوز کرے گا اور وہ مغرب کے لیے چیلنج بن گیا۔
کورونا وائرس نے معیشتوں اور ممالک کو تباہ کر دیا ہے۔ یہ دنیا کے لیے اپنے عالمی نظریے سے دست بردار ہونے کا ایک اہم لمحہ ہے۔ اپنی جیت اور دوسری کی شکست دیکھنے کی خواہش نے سب کو شکست خوردہ بنا دیا۔ اصل چیلنج افغانستان کو دوبارہ خطرے کے طور پر نہیں بلکہ ایک موقع کے طور پر دیکھنا ہے۔ کسی ٹھیکے دار کے طور پر نہیں ایک تقسیم کنندہ کے طور پر۔ ایک بازار کے طور پر نہ کہ سیاسی بنیاد کے طور پر۔ ایک شراکت دار کے طور پر نہ کہ قبضہ گیر کے طور پر۔ وسطی اور جنوبی ایشیا منفرد قدرتی اور انسانی وسائل سے بھرے ہوئے ہیں جو عالمی معیشتوں کو بحال کر سکتے ہیں۔ اگر پاکستان ان کے لیے گیٹ وے ہے تو افغانستان اس کی راہداری ہے۔ دنیا کے لیے وقت آ گیا ہے کہ وہ افغانستان کا جائزہ لے اور اسے بحالی اور پائیداری کے راستے کے طور پر دیکھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں