ماحولیاتی بگاڑ

کرۂ ارض کو بچانے ‘نئے وعدے کرنے ‘نئے پروٹوکول پر دستخط کرنے ‘بحران سے نمٹنے ‘ خطرات کو کم کرنے ‘ دنیا کو صاف ماحول فراہم کرنے کے لیے کوپ 26ایک اہم اجلاس تھا۔ بڑی خبر یہ ہے کہ تمام اہم لیڈر اس بڑی کانفرنس میں جمع ہوئے۔ بڑی بریکنگ نیوزیہ ہے کہ صدر بائیڈن نے پیرس معاہدے میں امریکی ''عدم دلچسپی‘‘ پر معذرت کی۔ کوپ 26ایک خصوصی ایڈیشن تھا۔ اپنے باشندوں کی طرف سے ماحول کوبرباد ہوتا دیکھ کر زمین انتقامی کارروائیوں پر اتر آئی ہے۔ اس نے دنیا کو تاراج کرنا شروع کردیا ہے۔ کورونا وائرس جیسی ہلاکت خیز شمشیر بے نیام کی۔ اس وائرس نے تمام ممالک کو متاثر کیا ۔ بادشاہ‘ عوام‘ امیر‘ غریب‘ نسل پرست‘ وطن پرست‘ طاقتور‘ کمزور‘ سبھی اس کی زد میں آئے ۔
بہت زیادہ آبادی‘ دھواں‘ کاربن ڈائی آکسائیڈ‘ بہت کم ہریالی اور آکسیجن جیسے مسائل زمین کو برباد کر رہے ہیں۔ اس سے زمین‘ ہوا اورسمندروں میں زہریلا پن پیدا ہو گیا ہے ‘جہاں طرح طرح کے وائرس اور بیکٹیریا پرورش پا رہے ہیں۔ ان کی طاقت اور رفتار اس حد تک ہے کہ وہ کسی بھی وقت سائنس اور ٹیکنالوجی پر حملہ کر کے اسے شکست دے سکتے ہیں۔ اسی لیے کوپ 26سب کی بقا کا معاملہ ہے۔
کوپ 26 یونائیڈ نیشنز کلائمیٹ چینج کی26ویں کانفرنس تھی۔یہ اجلاس کرہ ارض کو ایک ممکنہ اور مہیب خطرے سے بچانے کے لیے منعقد کیا جاتاہے۔اس کے 197 شرکا اقوام متحدہ کے رکن ممالک ہیں‘ان کے علاوہ چند دیگر شرکا بھی ہیں جو اقوام متحدہ کے رکن نہیں۔ اس میںیورپی یونین کی نمائندگی بھی موجود ہے۔ تمام شرکا موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن کی حمایت کرتے ہیں۔ حقائق ڈرا دینے والے ہیں۔ فوسل فیول جلنے سے پیدا ہونے والی گرین ہاؤس گیسیں آب و ہوا کو ایک ڈگری سیلسیس سے زیادہ گرم کر رہی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق بین الحکومتی پینل نے خبردار کیا ہے کہ زمین کا دو ڈگری سیلسیس تک گرم ہونا تباہی لائے گا۔ کوپ 26کا ہدف گرم ہونے کی شرح کو 1.5ڈگری سیلسیس سے کم رکھنا ہے۔عالمی ادارہ موسمیات (ڈبلیو ایم او) کا کہنا ہے کہ سخت ترین موسم یعنی انتہائی گرمی کی لہریں اور تباہ کن سیلاب اب معمول بن چکے ہیں۔2021ء کی سٹیٹ آف کلائمیٹ رپورٹ میں ماحولیاتی تبدیلی کے اشاروں کا تذکرہ کیا گیا ہے جن میں بڑھتے درجہ حرارت‘ شدید موسمی حالات‘ سمندری سطحوں میں اضافے اور سمندروں کی صورتحال شامل ہیں۔اس میں کہا گیا ہے کہ دنیا ہماری آنکھوں کے سامنے تبدیل ہو رہی ہے۔ 2002ء سے اب تک 20 سالہ اوسط درجہ حرارت صنعتی دور کے آغاز سے پہلے کے مقابلے میں ایک ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ گرم ہونے والا ہے۔اس کے علاوہ 2021ء میں عالمی سطح سمندر میں بھی سب سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔موسمیاتی تبدیلی مستقل ہے۔ گلوبل وارمنگ کوئی مستقبل کا انتباہ نہیں ‘ یہ اپنے تباہ کن امکانات کے ساتھ یہاں ڈیرے جما چکی ہے۔ یہ ایک عامیانہ سا لفظ ہوتا اگر ہر کسی نے کورونا کی تباہ کاریاں اپنی آنکھوں سے نہ دیکھی ہوتیں۔ فطرت نے انسانی زیادتیوں کے جواب میں انتقامی کارروائی کی۔ احساس گہرا ہونے لگا ہے کہ فطرت کو فوری اور ہنگامی طور پر علاج کی ضرورت ہے۔ کورونا نے اس موضوع میں ایک نئی جان ڈال دی ہے۔ تمام تبدیلیوں کے عمل کی طرح موسمیاتی تبدیلی میں بھی کچھ بنیادی مسائل اپنی جگہ پر موجود ہیں:
1۔ موسمیاتی ناانصافی: موسمیاتی تبدیلی کا المناک پہلو یہ ہے کہ جو لوگ ماحولیاتی بگاڑ کی سب سے زیادہ وجہ بنتے ہیں‘ وہ سب سے کم متاثر ہوتے ہیں‘ اور جو سب سے کم حصہ ڈالتے ہیں وہ سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ جدید دنیا میں پیدا ہونے والا کوڑا دراصل تیسری دنیا پر پھینکا جا رہا ہے۔ انسانی سرگرمیوںکے نتیجے میں دنیا میں جتنی بھی کاربن فضا میں چھوڑی گئی‘ اس میں سے 25 فیصدکا ذمہ دار امریکہ ہے۔ کم صنعت کاری رکھنے والے ممالک جیسا کہ پاکستان ایک فیصد کاربن کے اضافے کے ذمہ دار نہیں لیکن وہ اُن دس ممالک میں شامل ہے جو انتہائی موسمیاتی خطرات کا شکار ہیں۔ سیر و سیاحت کے لیے بے مثال جزیرہ مالدیپ سمندر کی سطح میں اضافے اور ساحلی سیلاب کے شدید ہونے کے باعث دنیا سے معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔ امریکہ نے کیوٹو پروٹوکول اور پیرس معاہدے اور بہت سے دیگر معاہدوں کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا مگر ہوا اور اوزون کا کوئی ملک نہیں ہوتا۔ زہریلی گیسوں نے امریکہ اور یورپ کو بھی متاثر کیا ہے۔ پہلی بار ہم نے نیویارک اور لندن میں سیلاب دیکھا۔ سمندری طوفان اور زلزلے متواتر اور زیادہ تباہ کن ہو گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کوپ 26کی تشویش میں ہر ملک شامل ہے ۔ خطرہ یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے عالمی وبا سے متاثر ہونے سے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے وسائل کی قلت ہوجائے گی کیونکہ یہ ممالک اپنے وعدوں سے پھر سکتے ہیں ۔
2۔ موسمیاتی تبدیلیوں پر افشا ہونے والی رپورٹیں: بی بی سی کی ایک رپورٹ میں موسمیاتی تبدیلی پر ایک سائنسی رپورٹ کا انکشاف کیا گیا ہے جس میں حکومتوں اور ماہرین کی طرف سے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے 32 ہزار گزارشات جمع کی گئی ہیں۔ اس نام نہاد ''غیر جانبدارانہ ثبوت‘‘ کے ذریعے اپنے ایجنڈے کو پورا کرنے کی واضح کوشش اپنی وضاحت آپ کررہی ہے۔ مثال کے طور پر آسٹریلوی سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس ضروری ہیں حالانکہ کوپ 26انہیں ختم کرنے کی سفارش کرتا ہے۔ برازیل اور ارجنٹائن اس بات کو مسترد کرتے ہیں کہ گوشت پر مبنی غذا کے بجائے سبزیوں پر مبنی غذا گرین ہاؤس گیسوں کو کافی حد تک کم کر سکتی ہے۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کیونکہ یہ گوشت پیدا کرنے والا خطہ ہے۔ ہندوستان کو لگتا ہے کہ جوہری توانائی ایک اچھا آپشن ہے۔ آب و ہوا کے معاملے میں خود غرضی کا یہ رجحان بہتری کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ تھا اور رہے گا۔
3۔ اعتماد کا فقدان: بھاری بھرکم بیان بازی‘ بڑے بڑے وعدوں او معاہدوں کے نتیجے میں روایتی طور پر بہت کم کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ پوشیدہ ایجنڈوں‘ مشتبہ لیکس اور مستقل معاہدوں پر اختلاف کی وجہ سے بداعتمادی پیدا ہوچکی ہے۔ امریکی چین کو بڑے ڈیفالٹر کے طور پر دیکھتے ہیں اور چین امریکہ کو آب و ہوا سے غداری کرنے والے کے طور پر دیکھتا ہے۔ اس لیے سیاست کو دور رکھنے کی کوشش کرنا ہوگی تاکہ اختلافات سے بالاتر ہوکر کام کرنے کا کم از کم قابلِ قبول ایجنڈا سامنے آسکے۔
حقیقی تبدیلی لانے کے لیے موسمیاتی تبدیلی کے نقطہ نظر میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ترقی یافتہ دنیا سیلاب اور جنگل کی آگ سے متاثر ہے۔انہیں امداد فراہم کرنے‘ صنعتوں کو منظم کرنے اور موسمیاتی امور پر تنازعات کا حل نکالنے کے لیے اپنے طور طریقے بدلناہوں گے۔ پسماندہ ممالک کے لیے موسمیاتی انصاف اور کارروائی کے لیے ایک متحد آواز کی ضرورت ہے تاکہ کوپ 26جیسی کانفرنس میں اپنی بات کہہ سکیں ۔ اس کے لیے مندرجہ ذیل قابلِ عمل تبدیلیاں درکار ہوں گی:
1۔ موسمیاتی بہتری کے لیے امداد: عام طور پر مغرب فوج اور انسانی وسائل کی ترقی کے لیے امداد فراہم کرتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ مغرب اور اس کے ادارے فوجی تعاون کی بجائے موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تعاون کریں۔ گرین ہاؤس گیسوں میں کمی‘ صاف ایندھن وغیرہ کو حاصل کرنے سے مشروط امداد پابندی کو زیادہ موثر بنائے گی ۔
2۔ ملک کی موسمیاتی بیلنس شیٹس : کمپنیوں نے مالیاتی آڈٹ کے نتائج کے ساتھ اپنے سماجی آڈٹ کا اعلان کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ کمپنیاں اور ممالک نہ صرف اپنے معاشی تغیرات کو شائع کریں بلکہ ماحولیاتی تغیرات بھی ظاہر کریں۔ ہر ملک کے پاس عالمی کلیدی موسمیاتی تبدیلی کے اشارے کا ڈیش بورڈ ہونا چاہیے اور ان اہم ماحولیاتی شعبوں میں قابلِ پیمائش اضافے یا خسارے کا اعلان کرنا چاہیے۔
3۔ موسمیاتی تبدیلی کے سرگرم کارکن اور وکیل: موسمیاتی تبدیلی کی سرگرمی کو سوشل میڈیا کی وجہ سے ایک نئی زندگی ملی ہے۔ گریٹا تھنبرگ جیسی سرگرم کارکن نے اسے ماحولیاتی حقوق پر زور دینے کے لیے ایک ممکنہ طور پر طاقتور میدان بنا دیا ہے۔ اقوام متحدہ میں بحث کو رواں اور متنوع رکھنے کے لیے مختلف عمر کے گروپوں‘ جغرافیائی گروہوں وغیرہ کے لیے فورمز تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح تجارت کے G77 کی طرح ایلیٹ فورمز میں کم ترقی یافتہ ممالک کی شرکت کی سطح کو بڑھانے کے لیے موسمیاتی تبدیلی کے G77 ہونے کی ضرورت ہے۔
کوپ کا مطلب ہے کانفرنس آف پارٹیز لیکن عام طور پر بلند و بالا تقاریر کرنے کے لیے صرف ایک اور پارٹی کے طور پر اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ گریٹا تھنبرگ پہلے ہی کہہ چکی ہیں کہ کوپ 26ایک ناکامی اور صرف پی آرمشق تھی۔ تاہم ماہرین نے کوپ 26کو دنیا کو تبدیل کرنے کاآخری بہترین موقع قرار دیا ہے۔ یہ آخری ہو سکتا ہے لیکن اسے بہترین موقع بنانے کے لیے ارادے کی تبدیلی‘ ذہنیت کی تبدیلی‘ نقطہ نظر کی تبدیلی اورطرزِ عمل کی تبدیلی درکار ہے تا کہ لوگ فطرت‘ رہائش اور ماحول کا احترام ‘اور ان کی قدر کرنا سیکھیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں