پاکستان بحران میں دنیا کی قیادت کرتے ہوئے

صدی میں کوئی ایک بار پیش آنے والا حیرت بھرا نادر واقعہ۔ ایک قاتل‘ ایک تباہ کن ہتھیار۔ معیشتوں کوبرباد کرنے اور انسانوںکی جان لینے والا۔جس کی یلغار کے سامنے حکومتیں بے بس اور ہسپتال لاچار دکھائی دیتے تھے۔جس نے دنیا کے بہترین دماغ حواس باختہ کردیے‘ بڑے بڑے ادارے مفلوج ہو گئے‘ طاقتور ترین معیشتیں تباہ ہو گئیں‘تجربہ کار حکومتیں جس کے تدارک کی تدبیر کرنے سے قاصر دکھائی دیں۔ کورونا کی پہلی لہر آتے ہی دنیا کے ہر حصے میں تباہی اور بربادی راج کرنے لگی۔بدترین بات یہ تھی کہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ کیا کرنا ہے ۔ سب کچھ جاننے اور وسائل رکھنے والا امریکا جس شرح سے انفیکشن اور اموات ریکارڈ کر رہا تھا اس نے دنیا پر لرزہ طاری کردیا۔ یورپ وبائی مرض کا مرکز بن گیا۔ جب ایک لہر تھمی تو اس سے کہیں بڑی لہروں نے لوگوں‘ معیشتوں اور حکمت عملیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بھارت سب سے بڑا ویکسین ساز ہونے کے باوجود وائرس کی تباہ کاریوں سے قبرستان کا منظر پیش کرنے لگا۔
اس آفت میں پیروی کے لیے ایک کے سواکوئی اور مثال نہیں تھی۔ ایک ایسا ملک جس نے دوسرے ممالک کے طرزعمل کو چیلنج کردیا۔ جس نے دبنگ انداز میں پوچھا کہ دنیا کیا رہی ہے ؟ ایک ملک جو دنیا سے مخالف سمت میں چلا۔ کسی نے سوچا بھی نہ تھا کہ پاکستان اس عالمی بحران میں سب سے آگے ہوگا۔ زیادہ تر کا خیال تھا کہ یہ کوئی ناممکنات میں سے ہے۔ بہت سے لوگوں نے سوچا کہ یہ صرف قسمت ہے۔ انہوں نے انتظار کیا کہ دوسری لہریں آئیں گی اور اس ملک کو تاراج کردیں گی۔ انہوں نے پاکستان کے لیے معاشی قیامت کی پیش گوئی کررکھی تھی۔ چوتھی لہر آئی ہے۔ یورپ ایک بار پھر کورونا کا مرکز بن گیا ہے۔ امریکہ اب بھی ہزاروں اموات ریکارڈ کر رہا ہے۔ پاکستان نہ صرف مثبت شرح کو اب تک کی سب سے کم سطح پر لانے میں کامیاب ہوا ہے بلکہ ایک ایسی معیشت ہے جو غیر متوقع طورپرترقی کر رہی ہے۔ یہ غیر معمولی کامیابی تین قائدانہ خوبیوں کا نتیجہ تھی: بصیرت‘ حوصلہ ‘ عمل ۔
1۔ بصیرت کا مظاہرہ جب دنیا بے بصر تھی: قیادت کی جانچ ہمیشہ مشکل حالات میں ہوتی ہے۔ جب دباؤ ناقابلِ برداشت ہوتا ہے‘ تو زیادہ تر لوگ گھبرا جاتے ہیں اور ہنگامی فیصلوں سے آگے کا نہیں سوچ سکتے۔ کوروناکوئی سٹاک مارکیٹ کا کریش نہیں بلکہ زندگی اور موت کا مسئلہ تھا۔ ممالک بند ہو گئے‘ زندگی ٹھپ ہوگئی‘ ترقی یافتہ ممالک نے مکمل لاک ڈاؤن لگادیا۔ چین نے ایسا کیا‘امریکہ نے اس کی پیروی کی۔ یورپ نے کچھ دیر کر دی لیکن پھر سب کچھ بند کر دیا۔بھارت اور بنگلہ دیش نے ایسا ہی کیا۔ پاکستان کے وزیر اعظم واحد آواز تھے جس کا کہنا تھا کہ امیر ممالک کے پاس بند کرنے کے وسائل ہیں لیکن غریب ممالک میں لوگ کورونا سے اتنے نہیں مریں گے جتنے بے روزگاری اور بھوک سے مرجائیں گے ۔ وزیر اعظم پاکستان کی سمارٹ لاک ڈاؤن حکمت عملی اور بعد میں ڈیٹا مائننگ کے ذریعے مائیکرو لاک ڈاؤن حکمت عملی کی افادیت کو تسلیم کیا گیا۔اس نے ملک کو اس بحران سے کم ترین اموات برداشت کرتے ہوئے تقریباً ہر لہر میں مثبت انداز میں آگے بڑھنے کے قابل بنایا ہے ۔
2۔ غیر مقبول فیصلے کرنے کا حوصلہ : واقعہ گزرنے کے بعد آسان لگتا ہے‘ لیکن اُس وقت کا تصور کریں جب لاکھوں آوازیں آپ کے خلاف بلند ہورہی ہوں‘ اپوزیشن آپ کو قاتل کہہ رہی ہو‘ میڈیا کے تجزیہ کار آپ پر کڑی تنقید کررہے ہوں۔ آپ کو زیر ک کی بجائے احمق کہا جارہا ہو۔ خوف میں مبتلا عوام خود لاک ڈائون لگانے کی درخواست کر رہے ہوں۔ ڈاکٹر حضرات کو قیامت سرپر منڈلاتی دکھائی دے رہی ہو لیکن پھر قیادت اسی کا نام ہے کہ جب آپ پر طعنہ زنی ہو‘ آپ تنقیدی حملوں کی زد میں ہوں‘ آپ پر کیچڑ اچھالا جارہا ہوتو بھی آپ درست فیصلہ لیں۔ احساس پروگرام جسے تیار ہونے میں کچھ وقت لگ گیا اور جسے رجسٹریشن اور کراس چیکنگ کی ضرورت تھی‘ ماہرین کے لیے مذاق اُڑانے کا آسان ہدف بن گیا لیکن پھر پتہ چلا کہ یہ طریقہ کار اتنا موثر تھا کہ یہ اپنی آسان ترسیل‘ شفافیت اور رسائی کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کا نجات دہندہ بن گیا۔ اس کے نتیجے میں اس چوتھی لہر میں ڈبلیو ایچ او نے کہا کہ پاکستان کا کورونا مینجمنٹ غیر معمولی طور پر کامیاب ہے جبکہ اس نے یورپ کو دوبارہ کورونا وائرس کا نیا مرکز قرار دے دیا ہے کیونکہ انفیکشن کی شرح اس وقت تک کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔جرمنی میں وبائی امراض کی ایجنسی کے سربراہ نے ملک میں کورونا وبا کی صورتحال کو 'انتہائی تشویشناک‘ قرار دیا ہے۔جرمنی میں گزشتہ روز کورونا کے 65 ہزار نئے مریض سامنے آئے ہیں جو کورونا کی وبا پھوٹنے کے بعد جرمنی میں کورونا کے یومیہ کیسوں میں سب سے بڑا تعداد ہے۔رابرٹ کوچ انسٹیٹیوٹ کے سربراہ لوتھر وائلر نے اس صورتحال میں ملک کے سیاستدانوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وائرس کے پھیلنے کے حوالے سے وارننگ کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ وبائی امراض کے ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر جرمنی میں کورونا کی چوتھی لہر کو روکنے کے لیے کچھ نہ کیا گیا تو جرمنی میں کووڈ سے مزید ایک لاکھ افراد ہلاک ہو سکتے ہیں۔
3۔ نظام کی ساخت اور فعالیت: 80فیصد حکمت عملیوں پر عمل درآمد نہیں ہوپاتا۔ این سی او سی کی فیصلہ ساز باڈی میں تمام اہم سیاسی‘ سول‘ فوجی‘ طبی سٹیک ہولڈرز کی شمولیت نے عمل درآمد میں حائل ناممکنات کو ایک حقیقت بنا دیا۔ ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لیے اپنائے گئے نظام اور اس کی بنیاد پر باخبر انتخاب نے معیشت‘ تعلیم اور دیگر سرگرمیوں کو جاری رکھنے کی اجازت دی جب کہ پڑوسی اور مغربی ممالک جان بچانے اور معاش کے درمیان توازن قائم نہیں کرپائے۔ اکانومسٹ کے تازہ ترین شمارے کی ایک رپورٹ کے مطابق معمول کی زندگی کی طرف لوٹنے کے انڈیکس میں پاکستان نے بھارت‘ امریکہ‘ یورپ وغیرہ کو پیچھے چھوڑدیا ہے۔ یہ ایک تاریخی کارنامہ ہے۔ بدقسمتی سے ملک میں اور عالمی سطح پر اسے زیادہ نمایاں نہیں کیا گیا۔ اس حیرت انگیز کارنامے کو فروغ دینے اور پیش کرنے کے لیے پاکستان کو کچھ کرنا اور کچھ سے گریز کرنا ہوگا:
1۔ عارضی رکاوٹیں اس کارنامے کو دھندلا نہ دیں: مہنگائی ‘ جو گزشتہ چند ماہ سے خبروں کا مرکز رہی ہے اور رہے گی ‘کو اس منفرد کارنامے پر سیاہی پھیرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ اس پر مستقل خبریں بنانے کے لیے ایک پروفیشنل میڈیا مہم کی ضرورت ہے۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ روزانہ کی خبروں میں اس کا مقدمہ بنائے۔ اسی طرح یہ نیوز کلپس‘ بیرون ملک ہمارے سفارت خانوں اور سفیروں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس میں بھی پروموشن کا حصہ ہونے چاہئیں۔
2۔ کیس سٹڈیز بنانے کے لیے بین الاقوامی فورمز کے ساتھ کام کریں: عالمی ادارہ صحت نے پہلے بھی اس کا مطالعہ کیا تھا۔ بین الاقوامی سطح پر کچھ اور کام کرنے کا وقت ہے کہ اسے قیادت‘ حکمت عملی اور عمل درآمد کے بہترین ثبوت کے طور پر پیش کیا جائے۔ Harvard Kennedy School اور دیگر اکیڈمیز اس طرح کے مطالعے میں دلچسپی لیں گی۔ اسی طرح عالمی تھنک ٹینکس کو ان کامیابیوں کو اجاگر کرنے کے لیے پریزنٹیشنز کے ساتھ رابطہ کرنے کی ضرورت ہے۔
3۔ علاقائی لرننگ فورم تیار کریں ـ: ـ تیزی سے ترقی کرتی ہوئی اس ورچوئل دنیا میں‘ بہترین علاقائی پریکٹس فورمز اسے پاکستان کی کامیابیوں کے مرکز کے طور پر پیش کرسکتے ہیں۔ کووڈ سے حاصل ہونے والا سبق اس کے بعد کی دنیا اور آگے بڑھنے کے اقدامات پرwebinars وغیرہ اسے ایک نادر تزویراتی عالمی پیش رفت کے طور پر اجاگر کرسکتے ہیں ۔
چیلنج یہ ہے کہ موجودہ حالات انتہائی مثبت کارناموں کے گرد بھی منفی تاثر اجاگر کردیتے ہیں۔ دیگر ممالک جیسے بھارت وغیرہ میں چھوٹی سے چھوٹی کامیابی کو بڑے پیمانے پر نمایاں کیا جاتا ہے لیکن پاکستانی روش اس کے برعکس ہے۔ سیاحت‘ ثقافت اور اب کورونا مینجمنٹ میں یہی کچھ دیکھنے میں آیا۔ ہندوستان کی چمکتی ہوئی شبیہ کو اس کے کورونا سے نمٹنے کے طرزِعمل نے متاثر کیا تھا لیکن وہ اپنی ہوشیار مارکیٹنگ سے اسے دوبارہ خوش نما رنگ میں رنگنے میں کامیاب ہو گیا۔ پاکستان کی طرف سے کورونا سے بہترین انداز میں نمٹنے‘ صحت ‘ معیشت اور غربت کا بہتر بندوبست کرنے کے باوجود اسے گورننس کی ناکامی کے طور پر پیش کیا جارہا ہے ۔ اور یہ سب کچھ اس حقیقت کے باوجود ہورہا ہے کہ عالمی ادارہ صحت کے سربراہ Dr. Mahipala نے اپنے ایک مضمون میں پاکستان کی کارکردگی کو ان الفاظ میں سراہا '' کوویڈ کے دوران بھی پاکستانی معیشت نے توقع سے بڑھ کر کارکردگی دکھائی ۔ مالی سال کے دوران اس کی شرح نمو 3.94فیصد رہی ۔ اس دوران مقامی میڈیا معاشی ناکامی کی تصویر پیش کرنے میں مصروف رہا ۔ یہ ہے چیلنج جو ہمیں درپیش ہے ۔ ہمیں اس موقع کو ہاتھ سے نکلنے نہیں دینا چاہیے ۔پورے خلوص‘ جانفشانی اور توجہ کے ارتکاز سے یہ مہم چلاتے ہوئے دنیا کو باور کرانے کی ضرورت ہے کہ جب یہ صدی گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی ‘ پاکستان امید کی کرن بن کر دنیا کے سامنے مشعل راہ تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں