وی آئی پی مجرم

''سیون سٹار‘‘ ،''سی کلاس سویٹ‘‘،''ایگزیکٹو روم‘‘ ہم ''رائل حیات ‘‘یا ''رائل کرائون‘‘ ہوٹلوں کا ذکر نہیں کررہے ہم پاکستان میں مجرموں کوحاصل سہولیات کی بات کررہے ہیں۔ لفظ جیل سے سزا کا تاثر ابھرتا ہے۔ یہ سبق آموز ‘ عبرت ناک اور باعثِ شرم ہے‘ لیکن یہ عوامی اور عمومی تاثرات ہیں۔ طاقتور اور بااثر افراد کے لیے جیل جانا ایک اعلیٰ درجے کی پرتعیش رہائش گاہ سے نکل کردوسری پر تعیش جگہ پہ جانا ہے ۔ ایک ایسی رہائش گاہ جس کا شاہانہ خرچ تو وہی ہوتاہے لیکن وہاں فرصت اور فراغت کی فراوانی ہوتی ہے۔ وہ حکومت کے خرچ پر وہاں مزے سے رہتے ہیں۔عدالت میں سماعت ہوتی رہتی ہے اور وہ بن سنور کر اسمبلی کی کارروائی میں شرکت کے لیے دھڑلے سے موجود ہوتے ہیں۔ اُن پر شرم ناک جرائم کے الزامات ہوتے ہیں لیکن اُن کی رعونت اپنے پروں پر پانی تک نہیں پڑنے دیتی ۔
قانون سازوں کا بدترین جرم سینکڑوں سال پہلے بنائے گئے قوانین کو تحفظ فراہم کرناہے۔ یہ قوانین امیر اور طاقتور کے لیے طبقاتی نظام قائم کرنے کے لیے بنائے گئے تھے ۔ عام لوگوں کے لیے ان میں الگ زندگی کا تصور تھا۔ اس طبقاتی فرق کی جھلک جیل میں بھی دکھائی دیتی تھی۔ اس کی وجہ سے جرائم کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا ۔ اس نظام نے کرپشن‘ ناانصافی اور لاقانونیت کو فروغ دیا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ادارہ جاتی دیانت کو تباہ کیا ۔ پولیس‘ ایف آئی اے اور نیب وغیرہ پر عدم اعتماد بڑھایااور اسی نظام نے پاکستان میں احتساب اور قانون کی عملداری کو ایک مذاق بنا دیا ہے۔
تازہ ترین مثال سپیکر سندھ اسمبلی آغاسراج درانی کی ہے جن پر اہلیہ‘ بیٹے اور تین بیٹیوں سمیت ایک ارب روپے آمدن سے زائد اثاثہ جات بنانے کی فرد جرم عائد ہے۔ گھر پر آخری چھاپے میں ان کی تجوریوں سے بھاری رقوم اور زیورات برآمد ہوئے تھے۔5مارچ 2019ء کی ایک خبر کے مطابق ''قومی احتساب بیورو نے زیرحراست سپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کے لاکرز سے لاکھوں روپے مالیت کی غیرملکی کرنسی اور کروڑوں روپے مالیت کا سونا برآمد کرلیا۔تفصیلات کے مطابق آغا سراج درانی کے لاکرز کی تلاشی کے دوران تفتیشی ٹیم کو 55 لاکھ 18 ہزار 744 روپے کی غیر ملکی کرنسی جبکہ 2 کلو 14 گرام سونا برآمد ہوا۔نیب کی تفتیشی ٹیم نے آغا سراج درانی کی اہلیہ کے لاکرز سے ایک کلو 9 گرام سونے کے زیورات بھی برآمد کیے۔ برآمد ہونے والے سونے کی قیمت 2 کروڑ روپے سے زائد بنتی ہے، قیمت کا تعین کر کے تفصیل سٹیٹ بینک کو بھیج دی جائے گی۔‘‘ ذخیرہ شدہ سونے کی بھاری مقدار کے لیے پیسہ کہاں سے آیا؟ وہ اس کی منی ٹریل دینے کو تیار نہیں۔ اس پر سپیکر کے بیٹے کا یہ کہنا کہ نیب ان کے والد کو گرفتار نہیں کر سکتا ۔ اس نے نیب ٹیم کو گھر میں داخل ہونے سے بھی روک دیا۔ آخر کار یہ مقدمہ سپریم کورٹ میں گیا اور وہیں آغا صاحب گرفتار ہو ئے‘ لیکن ایک بار پھر سندھ حکومت کے رویے کو دیکھیں جس نے ان کے گھر کو پرتعیش سب جیل بنا دیا ۔
سندھ اسمبلی کا اجلاس جاری ہے ۔ سپیکر صاحب نے اپنے پروڈکشن آرڈر خود جاری کیے ہیں اور اب وہ اجلاس کی صدارت کر رہے ہیں۔ یہ افسوسناک‘ مایوس کن اور مضحکہ خیز حالات اس وجہ سے ہیں:
1۔سٹیٹس کو کے قوانین: جیل کے قوانین کو کنٹرول کرنے والے قوانین ایک صدی سے زیادہ پرانے ہیں۔ ان قوانین کی غایت ایک ایسا نظام تشکیل دینا تھا جہاں حکمران (برطانوی) رعایا پر معافی اور سزا کے خوف کے ڈنڈے سے حکومت کریں۔ جیل ایکٹ 1894‘ پنجاب بورسٹل ایکٹ‘ 1926‘ گڈ کنڈکٹ پریزنرز پروبیشن ریلیز ایکٹ1926 اور پاکستان جیل رولز 1978 نے جیلوں میں اس نسلی نظام کو تقویت دی۔ کسی تسلیم شدہ یونیورسٹی یا ادارے سے گریجویٹ ڈگری رکھنے والا قیدی اور 100 ایکڑ بارانی یا 50 ایکڑ نہری اراضی کا مالک جس کی تصدیق ضلعی ا فسر ریونیو سے ہو جائے‘ اعلیٰ درجے کی سہولیات حاصل کرنے کا اہل ہوگا۔ ایک قیدی جو کاروبار اور ذاتی اثاثوں کا مالک ہے‘ تازہ ترین انکم ٹیکس گوشواروں کے مطابق‘ وہ بھی بہتر کلاس کا حقدار ہوگا۔ یہ واضح طور پر جرائم اور مجرموں کی منی لانڈرنگ کو فروغ دینے کے لیے بنایا گیا قانون ہے۔
2۔ انتخابات میں سودے بازی: انتخابات کا ایک ہی اصول ہے‘ صرف گہری جیبیں رکھنے والے لوگ ہی جیت سکتے ہیں۔ انتخابات پیسے ‘ طاقت اور اصولوں کو چکما دینے کا کھیل ہیں ۔ اس معیار پر پورا اترنے والے لوگ وہ ہیں جو اپنی طاقت کا غلط استعمال کرکے پیسہ بناتے ہیں۔ اس زمرے میں زمین پر قبضہ کرنے والے اور کارٹیل شامل ہیں۔قبضہ مافیا دوسرے لوگوں کی جائیدادوں پر قبضہ کرکے‘ اسے پریمیم ریٹ پر بیچ کر‘ پارٹیوں سے ٹکٹ اورانتخابات میں ووٹ خرید کر اور پھر اقتدار میں آکر مزید اربوں روپے کمانے کے لیے سرکاری زمینوں پر قبضہ کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر وہ پکڑے جاتے ہیں‘ سزا یافتہ ہوتے ہیںتو وہ ضمانت پر باہر آجاتے ہیں یا پھر فائیوسٹار جیلوں میں چلے جاتے ہیں اور ''بہتر طبقے‘‘ کی سہولیات کے ساتھ آرام سے اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔ ایک اور چال یہ ہے کہ وہ بیماریوں کی آڑ میں ہسپتالوں کے وی آئی پی کمروں میں شفٹ ہوجاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سید خورشید شاہ جیل میں تقریباً تمام وقت این آئی سی وی ڈی ہسپتال کے ایگزیکٹو رومز میں رہے۔
3۔ بدعنوانی کے شراکت دار: ایک پر تعیش زندگی سے دوسری پر تعیش زندگی میں آسانی سے منتقلی مال غنیمت کے حصہ داروں کی حمایت سے ہی ممکن ہے۔ اس جرم میں معاونت کرنے والوں میں حکومت‘ سرکاری اہلکار وغیرہشامل ہوتے ہیں۔ گواہوں کو رشوت یادھمکیاں دینے اور قتل کردینے سے لے کر وکلا‘ استغاثہ اور ججوں تک کو خرید لینے والا سسلین مافیا ہے جسے آج تک کوئی انگلی تک نہیں لگا سکا۔
موجودہ حکومت کے لیے بڑا چیلنج یہ ہے کہ اس سسلین مافیا کو کیسے توڑا جائے۔ اس کی جڑیں اتنی گہری اور پھیلی ہوئی ہیں کہ Hydra کی طرح آپ ایک سر کاٹتے ہیں تو پانچ مزید اُگ جاتے ہیں۔ جب جرم منظم اور ادارہ جاتی ہے تو اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ایک غیر معمولی کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس منظم نیٹ ورک میں دراڑیں ڈالنے کے لیے کچھ ٹارگٹڈ اقدامات کی ضرورت ہے:
1۔ جیل خانہ اصلاحات: ''بہترکلاس‘‘ کے پرانے قانون پر فوری نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ وہ قانون جو امیروں کو وی آئی پی جیلوں میں رہنے کی آزادی دیتا ہے اسے دنیا میں جمہوری طریقوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔ جب جیلیں تکلیف اور سختی کی حقیقی جگہیں بن جائیں گی تو پھر محض چھٹیا ں گزارنے جیل جانے کا رواج ختم ہوجائے گا۔ میڈیکل رپورٹس کی حیثیت اور ہسپتال کی سہولیات کی مدت کو محدود اور مساوی کرنے کی ضرورت ہے‘ جو عام قیدیوں کے لیے بھی دستیاب ہو۔ اسے ارکان پارلیمنٹ کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن ان تبدیلیوں کے بغیر جیلیں قید کی بجائے رہائش کی تبدیلی سے زیادہ اور کچھ نہیں ہیں ۔
2۔ انتخابی قابلیت: جب مجرم پارلیمنٹ میں آتے ہیں تو وہ مجرموں کو معاف کرنے اور تحفظ دینے کے لیے قانون بناتے ہیں۔ سندھ پارلیمنٹ کے اراکین یقینا اپنے سپیکر سے تحریک لیتے ہوں گے کہ اربوں کا مال بنا کر کس طرح ایوان کے ''تقدس‘‘ کی سرپرستی کی جاسکتی ہے۔ انتخابی عمل میں ایک عام آدمی کی شمولیت کی سب سے بڑی رکاوٹ انتخابی مہم کے ہوشربا اخراجات ہیں۔ انتخابی قوانین صرف 15 لاکھ روپے کے اخراجات کی اجازت دیتے ہیں لیکن شاید ہی کبھی کسی نے اس حد کی پابندی کی ہو۔ انتخابی لاگت کو کم کرنا اور ان لوگوں کے لیے پارٹی فنڈنگ کا بندوبست کرنا جو استطاعت نہیں رکھتے انتخابی ایکٹ میں درکار ضروری تبدیلیاں ہیں۔
3۔ دکھائی دینے والا بے لاگ احتساب : احتساب کو حقیقی اصول بننے کے لیے اسے نتیجہ خیز‘ بلا امتیاز اور شفاف ہونا چاہیے۔ یہ حقیقت کہ مجرم ثابت ہونے پر بڑے بڑے لوگ ملک سے فرار ہو جاتے ہیں۔ یہ سنگین قانونی اور سیاسی خامی ہے۔ نیز سزا پانے والے نام نہاد شرفا کوحکومت یا اپوزیشن کی طرف سے آسانی سے ضمانت مل جاتی ہے۔ یہ چیز نظام انصاف کے دامن پر بدنما داغ ہے۔ مقدمات نسل در نسل چلتے رہتے ہیں‘ فیصلہ نہیں ہوپاتا۔ یہ صورتحال اخلاقیات‘ اخلاقی اقدار اور قوانین کے احترام کی ثقافت پیدا کرنے کی کسی بھی کوشش کے لیے ایک مہلک دھچکا ہے۔ مقدمات کے جلد فیصلوں کے لیے عدالتی اصلاحات درکار ہیں‘ چاہے اس کے لیے ایوانوں کا مشترکہ اجلاس کیوںنہ بلانا پڑے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ انکوائری کمیشن رپورٹس کے مطابق پورے بورڈ میں احتساب کی مثال قائم کی جائے اور مجرموں کو ان کی وابستگی‘ سماجی طبقے اور اثر و رسوخ سے قطع نظر سزا دی جائے۔امیروں کو یہ مجرمانہ استثنا ملک میں دائمی سماجی معاشی بحران کی جڑ ہے۔ جیسا کہ افلاطون نے کہا تھا کہ امیر اور غریب کے درمیان عدم توازن جمہوریہ کی سب سے پرانی اور مہلک بیماری ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں