جرم کے سر سہرا باندھنے والے

انسانی حقوق ‘ اظہارِ رائے کی آزادی‘ جمہوریت۔ یہ جھوٹ کو سچ اورسچ کو جھوٹ بنانے والے خوش نما عنوانات کی فریب کاری ہے۔ سیاسی اشرافیہ کے بارے میں باقاعدگی سے بحث کی جاتی ہے کہ انہیں کیسا ہونا چاہیے‘ لیکن مکار‘ بدعنوان اور طاقتور دھڑوں کو سراہنے اور اُنہیں ہیرو بنا کر پیش کرنے والوں کے بارے میں بہت کم بات کی جاتی ہے۔ وہ غلط کام کرنے والوں کو بچانے والے اصل ایجنٹ ہیں۔ وہ غیر قانونی کو قانونی ‘ مجرموں کو مظلوم اورآمروں کو جمہوریت پسند بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ان میں سول سوسائٹی کے مہذب‘ پڑھے لکھے دانشور‘ معزز پیشہ ور افراد شامل ہیں۔ سماجی تہذیب‘ نیکی اور عزت کی پہچان ہیں۔انتہائی بااثر؛چنانچہ طاقتور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ رائے سازی کرنے‘ بیانیہ تشکیل دینے اور صحیح کو غلط اور اس کے برعکس ثابت کرنے والے قوانین بنانے پر قادرہیں۔ دانشور اور پیشہ ور اشرافیہ سماجی یا سیاسی اشرافیہ سے زیادہ خطرناک ہے۔ سبھی نہیں‘ لیکن کچھ جعلی عقلمند ہیں۔
یہ اسناد سے لدے ہوئے افراد ہیں۔ دنیا کے بہترین سکولوں سے حاصل کردہ ڈگریوں کی بدولت اعلیٰ تھنک ٹینکس میں شامل ہوجاتے ہیں۔ بین الاقوامی پبلی کیشنز کے مصنفین اور اشراف کی سول سوسائٹی کے ممبر بن جاتے ہیں۔ لبرل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں‘ انسانی حقوق کے لیے لڑتے ہیں اور دنیا کے سامنے جدید نقطہ نظر پیش کرتے ہیں۔ ایسی اسناد رکھتے ہوئے اُن کی تنقید مستند سمجھی جاتی ہے۔ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ان کی آواز سنی جاتی ہے۔ ان کو اور ان کی حقیقت کو بے نقاب کرنا آزادیٔ اظہار پر حملہ قرار دیا جاتا ہے ۔انہیں قانون کے تابع لانا فسطائیت اور بنیادی انسانی حقوق کی پامالی سمجھا جاتا ہے ۔سیاست دانوں کی طرح ایسے نا م نہاد دانشوروں کو نہ گرفتار کیا جاتاہے ‘ نہ ہدف ِتنقید بنا یا جاتا ہے ‘ نہ رگیدا جاتا ہے۔ اس کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں :
1۔ جعلی دیانت داری: سیاستدانوں کی طرح کھلے بندوں غلط کام کرنے والوں کو پکڑنا اور تنقیدکرنا آسان ہے۔ زیادہ خطرناک وہ لوگ ہیں جو دیانت داری کا سوانگ رچائے ہوئے ہیں۔ یہ سول سوسائٹی کے ''معزز ارکان‘‘ ہیں۔ وہ انسانی حقوق کی بات کریں گے اور جمہوریت کے لیے لڑیں گے۔ اس کے ساتھ ہی وہ تمام حکومتوں سے فوائد بھی حاصل کریں گے اور اس کے بدلے میں ان کے جرائم کا دفاع کریں گے۔ ایسی ہی ایک مثال ایک مشہور دانشورکی ہے جسے ماضی کی ایک حکومت نے نہ صرف ایک بڑے ادارے کا سربراہ مقرر کیا بلکہ کروڑوں روپے مالیت کی لوک ورثہ کی زمین بھی کرائے پر دے دی۔ وہ دراصل نواز شریف کا کیس بنا کر عدالت گئے کہ ایک مفرور‘ مطلوب مجرم کو نشر کرنے کی آزادی دی جائے۔ عدالت نے اسے بجا طور پر مسترد کر دیا۔ جمہوریت کے لیے لڑنے والے ایک اور مشہور بین الاقوامی شہرت یافتہ انسانی حقوق کے کارکن کے خاندان کی ٹیکسٹائل فرم کو بھاری قرض سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔
2۔ جہالت سے فائدہ اٹھانا: ایسے من گھرٹ دیانت دار کرداروں کے بے نقاب نہ ہونے کی ایک وجہ ہمارے ملک میں تعلیم اور آگاہی کا فقدان ہے ۔مخصوص ایجنڈا رکھنے والے سول سوسائٹی کے یہ ارکان آواز بھی رکھتے ہیں اور اہمیت بھی۔ بااثر دھڑے انہیں کندھا فراہم کرتے ہیں۔ وہ بااثر لوگوں کے واٹس ایپ گروپس میں کام کرتے ہیں۔ ان گروپس میں امیر اور مشہور لوگ شامل ہیں۔ وہ جان بوجھ کر بحثیں کرتے ہیں اور کسی بھی ایسی چیز پر فیصلے دیتے ہیں جو ان کے لیے سازگار نہیں ہوتی۔ اس کی سب سے بڑی مثال یکساں نصاب تعلیم کا متعارف کرانا تھا۔ اس پر خاصا ہنگامہ برپا ہو ا کہ یہ پاکستان میں تعلیم کو ختم کر دے گا۔ نامور ماہرین تعلیم اور مصنفین نے اسے تباہ کن ثابت کرنے کے لیے گروپوں پر ان گنت گھنٹے گزاردیے۔ مان لیا کہ اس میں بہت سی خامیاں ہوں گی‘ جیسی کسی نئی اختراع میں ہوتی ہیں۔ قریب سے تجزیہ کرنے سے پتہ چلا کہ یہ تمام ہوّا نظام تعلیم کے سٹیک ہولڈرز نے کھڑا کیا ہوا تھا۔ بدقسمتی سے بہت کم لوگ اشرافیہ گروپ کے اس بظاہر منطقی حملے کا جواب دے سکے کیونکہ زیادہ تر لوگوں کے پاس اہلیت یا ہمت نہیں تھی کہ وہ ان پر تنقید کرسکیں ۔
3۔ منظم دروغ گوئی: جھوٹ بولنے کا فن اور وہ بھی ہوشیاری اور منظم طریقے سے نئی سطحوں پر پہنچ گیا ہے۔ جھوٹ کا جال کٹ اینڈ پیسٹ حقائق کے ذریعے گوندھا جاتا ہے‘ آڈیوز اور ویڈیوز میں بُنا جاتا ہے اور نام نہاد مستندلوگوں کے حلف ناموں کے ذریعے پیک کیا جاتا ہے۔ جسٹس (ر) رانا شمیم کیس اس کی ایک مثال ہے۔ پی ایم ایل این کی جانب سے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی تین سال پرانی مبینہ آڈیوجاری کی گئی جس میں چیف جسٹس کو اسلام آباد ہائی کورٹ کو شریف خاندان کے خلاف فیصلہ سنانے کا حکم دیتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ایک کہانی سامنے آئی جس نے گلگت بلتستان کے قابل احترام سابق چیف جسٹس کے حلف نامے کی حمایت کی۔ اس نے ملک میں دھوم مچا دی۔ خیر اس کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوٹ چکا۔ منظم مافیا اداروں میں گھس آیا‘ نظام عدل سے لے کر پولیس اورقانون سازوں سے لے کر دانشوروں تک بدعنوانی سرایت کر چکی ہے۔ یہ تمام لوگ ایک طرح کے شراکت دار بن چکے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرنے کے ماہر ہیں۔
ہمارے معاشرے کے ان ستونوں نے سول سوسائٹی کے حقیقی اراکین کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔ وہ درحقیقت کسی بھی ایسے شخص کے معاونین ہیں جو انہیں مراعات دے سکتا ہے۔یہ اس کے لیے بلند آہنگ مضامین اور معتبر دکھائی دینے والے تبصرے لکھ سکتے ہیں۔ ان میں سے کچھ مشیر‘ سفیر‘ چیئرمین‘ وزیر بن جاتے ہیں لیکن جس لمحے ان سے یہ مراعات چھن جاتی ہیں‘ یہ جمہوریت اور انسانی حقوق کے چیمپئن بن کر میدان میں آجا تے ہیں۔ ان کرداروں کو بے نقاب کرنا ضرور ی ہے:
1۔ طرزِزندگی کو منظرعام پر لایا جائے: جس طرح سیاست دانوں کو ان کے اثاثوں اور طرزِ زندگی کے ذریعے بے نقاب کیا جاناچاہیے‘ اسی طرح ان بااثر کھلاڑیوں کی زندگی کو بھی عوام کے سامنے لایا جانا چاہیے ۔ ہم نے دیکھا ہے کہ جو بمشکل موٹر سائیکل کی اسطاعت رکھتے تھے وہ بڑی بڑی گاڑیوں میں سفر کررہے ہیں۔ غیر ملکی اثاثوں کا انبار لگا ہوا ہے ۔ کوئی سوال کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ بعض اداروں نے خود کو ہر قسم کی جوابدہی سے مبرا قرار دے رکھا ہے۔ مختلف شعبوں سے وابستہ افراد کے نام پرہم نے کمپنیوں اور کاروبار کی بہتات دیکھی ہے‘ جو ایک معمہ ہیں۔ یہ سفارش کی جاتی ہے کہ ایک کنزیومر واچ گروپ تشکیل دیا جائے جو نہ صرف سیاست بلکہ تمام شعبوں میں بدعنوان اور مجرموں کو محترم بنا کر پیش کرنے والوں کو بے نقاب کرے اور ان کے طرز ِزندگی پر سوال اٹھائے اور ہال آف شیم کی فہرست بنائے۔
2۔ عوام کو تعلیم دی جائے: ان نام نہاد تعلیم یافتہ اور طاقتور افراد کی منافقت اور فکری بدعنوانی کو بے نقاب کرنے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ عوام کو تعلیم یافتہ بنایا جائے۔ اس کے لیے سوشل میڈیا پر ''نقالوں سے ہوشیار‘‘ یا ''جعل سازوں سے بچو‘‘ کی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ اس کی ایک مثال ایک سکول میں چھ سالہ طالب علم کی وائرل ویڈیو ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بورس جانسن نے لاک ڈاؤن میں پارٹی میں شرکت کے بارے میں عوام کو دھوکہ دیا اور اس لیے انہیں وزیر اعظم رہنے کا حق نہیں ہے۔ تمام بااثر اشرافیہ پر ایسی ویڈیوز بننی چاہئیں۔
3۔ کارٹل کا توڑ کرنے والی لابیز: سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اب آئین کی تاحیات نااہلی کی شق کے خلاف لڑنے کے لیے ایک کیس تیار کر رہی ہے۔میرے نقطہ نظر میں یہ طاقتور کے تحفظ کو دوام بخشنے کی ایک مثال ہے۔ بظاہر انسانی حقوق کی درخواست کے تحت صرف نواز شریف کو فائدہ پہنچانا مقصود ہے۔ ایس سی بی اے کے مقاصد قانون کی حکمرانی اور انصاف کی وجہ کو برقرار رکھنا اور قانونی پیشے کے ساتھ ساتھ عوام کے مفاد کا تحفظ اور فروغ دینا ہے ‘مگر میرا خیال ہے کہ وہ اس کے برعکس کر رہے ہیں۔ عوام کے لاکھوں انسانی حقوق ہیں جن کے لیے انہیں لڑنا چاہیے۔ عوام کے لیے مقدمات کے فیصلوں کے لیے وقت کم کرنا‘ امیروں کے لیے بہتر طبقے کی جیلوں کو ختم کرنا‘ غریبوں کو فوری قانونی امداد فراہم کرنا وغیرہ فوری توجہ کے متقاضی امور ہیں۔ کیا عام آدمی انسان سے کم ہے اور اس طرح اس کے حقوق شمار نہیں ہوتے؟ کیا یہ انجمنیں صرف مراعات یافتہ طبقے کے لیے ہیں؟
سیاستدانوں کو بے نقاب کر دیا گیا ہے اور انہیں مزید بے نقاب کیا جانا چاہیے لیکن اعلیٰ تعلیمی اسناد رکھنے والے دانشوروں اور بااثر رائے سازوں کو بھی چیلنج کرنے اور ان کی اخلاقیات پر سوال اٹھانے کی ضرورت ہے جو مجرموں کو ہیروبنا کر پیش کرتے ہیں ‘ جیسا کہ نوم چومسکی نے کہا تھا کہ اخلاقی بزدلی اور فکری بدعنوانی غیر چیلنج شدہ استحقاق کے فطری ساتھی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں