ہندوتوا کا بے نقاب چہرہ

تنہا، ستم رسیدہ، مظلوم اورطعن و تشنیع، بیہودہ مذاق اور توہین آمیز رویے کا نشانہ بنتے ہوئے خوف زدہ اور گھیرے میں آئے ہوئے انسان۔ صرف یہی نہیں! بدسلوکی کے اور بھی بہت سے تیر ستم ان کے تعاقب میں ہیں۔ واقعہ تو ایک انفرادی لڑکی‘ کرناٹک (بھارت) کی ایک طالبہ‘ مسکان خان کے ساتھ اس وقت پیش آیا جب وہ کالج میں داخل ہو رہی تھی لیکن اس مثال سے پتا چلتا ہے کہ انڈیا کے زیرقبضہ مظلوم علاقوں؛ مقبوضہ کشمیر اور دہلی وغیرہ میں کیا ہورہا ہے۔ اس واقعے نے کوئی شک نہیں رہنے دیا کہ بی جے پی اور نریندرمودی کی سرپرستی میں چلنے والی آر ایس ایس کی نفرت انگیز تحریک نے انڈیا کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ذہنوں کو کس قدر زہر آلود کردیا ہے۔ یہ اسلامو فوبیا کے پروان چڑھنے والے وہ تباہ کن اور سلگتے جذبات ہیں جنہوںنے انڈیا کے بیس کروڑ سے زائد مسلمانوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
ممکن ہے کہ یہ وڈیو کسی لڑکے یا لڑکی کے ساتھ کالج میں منایا گیا اپریل فول دکھائی دے‘ لیکن ایسا نہیں ! اس کا تعلق حجاب سے ہے۔ اس کا تعلق انسان کی اپنی مرضی، تحفظ اورعزتِ نفس سے ہے۔ اس سے سلگتے ہوئے خوف ناک تشددآمیز جذبات کی عکاسی ہوتی ہے۔ یہ وہ چنگاری ہے جسے ہوا دی جارہی ہے۔ بظاہر سادہ لیکن قابلِ نفرت حرکت پر بھی دنیا دم سادھے رہی بلکہ بھارت کے اندر سے ہی کچھ آوازیں ابھریں۔ مشہور بھارتی فلم ساز پوجا بھٹ نے کھل کر بات کرتے ہوئے کہا ''جیسا کہ ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے، مردوں کا گروہ کسی عورت کو دھمکانے کی کوشش کرتاہے۔ انسانوں کے لیے ایسے افسوس ناک لیکن ڈرا دینے والے بہانے ! اپنی چادریں ہتھیاروں کی طرح لہراتے، اپنی کمزوری کوسفاکیت کے پردے میں چھپاتے ہوئے یہ گمراہ، بگڑی ہوئی نفرت کی دلدل میں دھنسی ہوئی نسل‘‘۔ اس میں یہ الفاظ ''گمراہ، بگڑی ہوئی، نفرت میں دلدل میں دھنسی ہوئی نسل‘‘ دراصل وہ خطرے کی گھنٹی ہے جو آرا یس ایس کے نفرت انگیز رویے نے بجادی ہے۔ یہ رویہ تشدد کی آگ بڑھکا رہاہے اور مودی حکومت اپنی خاموشی سے اس کی حوصلہ افزائی کررہی ہے۔
نریندر مودی اور بی جے پی حکومت کی خاموشی کی سمجھ آتی ہے، لیکن اس پر دنیا کا تامل ناقابل فہم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جدیدیت اور سیکولر کے بہروپ کے نیچے چھپے ہندوتوا کے اصل چہرے کو بے نقاب کرنے کے لیے پیہم کوششیں کی جانی چاہئیں۔ ممکن ہے کہ اس جنونیت کے خلاف کچھ آوازیں سنائی دیں لیکن اس کی حمایت کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ اس طرح یہ معاملہ محض حجاب کا نہیں بلکہ اس سے کہیں بڑھ کرہے۔
1۔ آرایس ایس کا پھیلایاہوا خوف: طاقت، لڑائی اور خوف آر ایس ایس کے سب سے زیادہ استعمال ہونے والے ہتھیار ہیں۔ یہ تنظیم ہٹلر کی نازی پارٹی سے متاثر ہے اور اس کی جڑیں بی جے پی میں بھی ہیں۔ کوئی بھی شخص جو آر ایس ایس کے نظریات کا حامی نہیں، وہ ان کی انتخابی، جسمانی یا سیاسی ہٹ لسٹ پر ہے۔ جب کچھ مشہور اداکاروں نے مسکان خان کے حق میں بات کی تو بی جے پی کے فلم برادری کے ممبرانِ اسمبلی کو پارٹی موقف کی حمایت کرنا پڑی۔ فلم سٹار سے سیاست دان بننے والی رکن پارلیمنٹ‘ سملاتھا امبریش‘ جو بی جے پی کی حمایت سے مانڈیا سے آزاد امیدوار کے طور پر منتخب ہوئی تھیں‘ نے لڑکیوں کے حجاب پہننے کے حق کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے سیاست قرار دیا جس کا مقصد ''نوجوان، معصوم اور متاثر کن ذہنوں کو زہر آلود کرنا‘‘ ہے۔ اس نے مزید کہا کہ کوئی بھی ساحلِ سمندر یا تالاب پر مختصر لباس پہن سکتا ہے لیکن اسے سکول میں نہیں پہن سکتا۔اسی طرح کی ایک اور فلم سٹار‘ بی جے پی کی رکن پارلیمنٹ معروف ادکارہ ہیما مالنی نے ''سکول یونیفارم کوڈ‘‘ کے احترام پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مذہبی معاملات کو تعلیمی اداروں میں لے جانے کی ضرورت نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ''یونیفارم کوڈ‘‘ کے حوالے سے ان کی تنقید کا محور صرف مسلم ہی ہیں‘ سکھوں کی پگڑی‘ عیسائیوں کی صلیب اور ہندوئوں کا دھاگا اور تِلک‘ شاید اس سے ماورا ہیں۔
2۔ اسلامو فوبیا کی حمایت: انسانی حقوق کی واضح خلاف ورزی کے باوجودایسے مسائل پر مغربی خاموشی کی وضاحت نہ صرف بھارت کی مارکیٹ طاقت بلکہ مغرب کے اپنے بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا کے رجحانات سے ہوتی ہے۔ فرانس پہلا ملک تھا جس نے 2011ء میں عوامی مقامات پر نقاب پر پابندی عائد کی تھی۔ یہ دنیا بھر میں ایک متنازع فیصلہ رہا ہے۔ اس سے اب مزید امتیازی سلوک کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ 2011ء کے بل میں کھلاڑیوں کے حجاب کو شامل کرنے کے لیے ترمیم کی گئی۔ یہ ترمیم اصل میں دائیں بازو کی جماعت Les Républicains نے متعارف کرائی تھی۔ جنوری 2019ء کو ایوانِ بالا نے اسے 143 کے مقابلے میں 160 ووٹوں سے منظور کیا جس میں کہا گیا تھا کہ ''اسلام عبادت خانوں، مساجد، گھروں اور اب کھیلوں کے کلبوں میں پھیل رہا ہے !‘‘۔ اگرچہ عدالت نے اس قانون کے خلاف فیصلہ دیا لیکن یہ رویہ بھارت کے لیے مغربی خفیہ حمایت اور تشدد اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر خاموشی کو ظاہر کرتا ہے۔
3۔ انتخابی مجبوری: مودی حکومت کورونا بحران میں بری طرح ناکام ہو گئی۔ بھارت طبی سہولتوں کی کم یابی، موت اور تباہی کی آماجگاہ بن گیا۔ لاک ڈاؤن کی غلط پالیسیوں، غریبوں کو نظر انداز کرنے اور صحت کے ناقص انتظامات نے بھارتی معیشت کا دھڑن تختہ کرتے ہوئے اس کی ساکھ کو شدید زک پہنچائی۔ اس کے پاس دنیا کو دکھانے کے لیے کوئی چکاچوند چہرہ نہیں تھا۔ ریاستی انتخابات صرف مسلم مخالف اور اقلیت مخالف بیانیے کی بنیاد پر لڑے جارہے ہیں۔ حکمران جماعت، بی جے پی سے تعلق رکھنے والے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اعلان کیا کہ ریاست کے آئندہ اسمبلی انتخابات 80 فیصد کے مقابلے میں 20 فیصد کا مقابلہ ہیں۔ یہ واضح طور پر اکثریت کا زعم ہے جس کے پیچھے اقلیتوں کو روند کر، تباہ کرکے بلاشرکت غیرے حکومت کرنے کی سوچ کارفرما ہے۔ یہ مسلمانوں پر ہندوتوا کی فتح کا نعرہ ہے۔ اس نفرت انگیز نعرے بازی کے سامنے معیشت اور دیگر امور بے معنی ہوجاتے ہیں۔
مسکان خان جیسے واقعات امید کی کرن ہیں۔ یہ ریاستی تعصب پر سوال اٹھاتے ہیں، حکومتی منافقت کو چیلنج کرتے ہیں، انسانی ضمیر کو جھنجھوڑتے ہیں،اَن کہی کوالفاظ دیتے ہیں، چہروں پر پڑے خوش نما نقاب الٹ دیتے ہیںاور خوف کے شیشہ گھروں میں سوال کا پتھر اچھالتے ہیں۔ سچائی کے ایسے بہت سے چراغ جلتے ہیں لیکن پیہم توجہ نہ ہونے سے ٹمٹما کر بجھ جاتے ہیں۔ انہیں جلتا رکھنے کے لیے سہ جہتی طرزِ عمل درکار ہے:
1۔ بحث کو چھیڑیں: موضوعات رجحانات بن جاتے ہیں، رجحانات وائرل ہو جاتے ہیں، بڑے نام ان پر ٹویٹ کرتے ہیں، ٹی وی اور ان پر شائع ہونے والی رپورٹیںاُنہیں پھیلادیتی ہیں۔ مسکان خان کیس میں بھی ایسا ممکن ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ یہ بحث آرکائیوز کی دھند میں گم ہونے کے بجائے خود کو اَپ گریڈ کرے۔ ایسا کرنے کے لیے چھوٹے بڑے‘ دبے ہوئے واقعات جو پورے بھارت میں رونما ہو رہے ہیں‘ کی گونج برقرار رہ سکتی ہے۔ پورے انڈیا میں تعلیمی ادارے لڑکیوں کو حجاب چھوڑنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ اصل بحث یہ ہے کہ اگر سکولوں نے پہلے پابندی نہیں لگائی تھی تو اب کیوں لگائی گئی؟ یا پھرسکول نے لڑکوں کو نارنجی رنگ کے سکارف پہننے کی اجازت کیسے دی؟ یہ سوچ کہاں سے ابھری؟ ایسی ذہنیت کیوں پروان چڑھائی جا رہی ہے اور وہ بھی سکول‘ کالجوں کے تعلیمی ماحول میں؟ عدالت نے فیصلہ سنانا ہے۔ اس فیصلے کے مضمرات پر بے خوفی اور کھلے دل سے بحث کی جانی چاہیے تاکہ ایسے جذبے کی حوصلہ افزائی کی جا سکے جو اس بات پر زور دے کہ مذہبی آزادیوں کو دبایا نہیں جا سکتا۔
2۔ دیگر مذاہب کو پہنچنے والے نقصانات کو سامنے لانا: ہندوتوا نفرت انگیز نظریہ اورنسلی برتری نہ صرف مسلمانوں کے خلاف ہے بلکہ دیگر اقلیتوں‘خاص طور پر انڈیا میں رہنے والے مسیحیوں کے خلاف بھی ہے۔ بھارت کے لیے مغربی نرمی کا مقابلہ یہ دکھا کر کیا جانا چاہیے کہ مسیحی بھی کس طرح تکلیف میں ہیں۔ ان پر غریب ہندوؤں اور قبائلیوں کو زبردستی مسیحی بنانے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ اس سے رائے عامہ مسیحی برادریوں کے خلاف ہو رہی ہے۔ ان کی اتوار کی عبادت میں خلل ڈالا جاتا ہے، گرجا گھروں پر حملے ہو رہے ہیں، پادریوں کو مارا پیٹا جا رہا ہے۔ اس طرح کے واقعات پورے ملک کی ریاستوں میں دیکھے گئے، شمال میں ہریانہ، اتر پردیش اور دہلی سے لے کر جنوب میں کرناٹک تک۔ یونائیٹڈ کرسچن فورم کے مطابق بھارت میں گزشتہ ایک سال میں عیسائیوں کے خلاف کم از کم 460 حملے ریکارڈ کیے گئے۔ یہیں سے اسلامو فوبیا اور 'کرسچن فوبیا‘ کے خلاف مشترکہ فورم بنایا جا سکتا ہے۔ روسی اور کینیڈین سربراہان کے بیانات آغاز ہیں اور اسی طرح کے ذہن رکھنے والے رہنماؤں کو نریندر مودی کے بھارت میں ہندوتوا کی بالادستی کے خلاف ہم نوا بنایا جاسکتا ہے۔
3۔ مشترکہ سول ایسوسی ایشنز کو سامنے لانا: عالمی انسانی حقوق فورم نے مسکان خان کے واقعے پر رد عمل ظاہر کیا ہے۔ ملالہ یوسفزئی نے اس کے خلاف بات کی ہے۔ خواتین فرانسیسی فٹ بال کھلاڑی‘ ایکٹوسٹ گروپ 'دی حجابیز‘ کا حصہ ہیں، جو خواتین فٹ بال کھلاڑیوں کا ایک گروپ ہے جو سرکاری میچوں میں حجاب پہننے کے حق کے لیے لڑ رہی ہے۔ وہ اس مقصد کی بھی حمایت کریں گی۔ خواتین کے پہننے، کھیلنے اور مذہب پر عمل کرنے کے حق کی وکالت کرنے کے لیے اس گروپ کو بڑھانے کے لیے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
اس طرح کے کئی دلخراش لمحات پیش آتے رہتے ہیں۔ ان سے لمحات کی سفاکی عیاں ہوتی ہے لیکن ہمیں ان لمحات کو تاریخ کا حصہ بنانے کے بجائے تاریخ ساز تحریکوں میں تبدیل کرنا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں