’’ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے‘‘

''نہ اعتماد ہے ‘ نہ مہارت‘ نہ حکومت‘‘ یہ ہے حزب اختلاف کی صفوں سے تواتر سے مچایا جانے والا شور ۔ حزب اختلاف کی ہر آن بدلتی ‘ متزلزل اور ڈگمگاتی داستان اس کی شکست کی کہانی سنارہی ہے۔ ملک کے سیاسی ایوانوں میں استعفے کے مطالبے‘مارچ کی دھمکی‘ چنگھاڑتے ہوئے طوفان کی بازگشت ہے ۔ تو کیا یہی ہے جمہوری روایات کا حصہ ؟ حکومت کو جوابدہ رکھنے کے نام پر اپوزیشن کے عزائم‘ بدعنوانی کو اجاگر کرنے کی کوشش؟ مسئلہ یہ ہے کہ ہر نعرے کا بھانڈا پھوٹ چکا۔ اپوزیشن کے تقریباً ہر سربراہ کا کرپشن کا ٹریک ریکارڈ ہے جبکہ وزیر اعظم عمران خان‘ جنہیں وہ بے دخل کرنا چاہتے ہیں‘ دیانتداری کا ٹریک ریکارڈ رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ الزامات میں کوئی جان نہیں۔ ذرا تصور کریں کہ بدعنوان سابق لیڈروں کا ایک گروپ ایک ایماندار لیڈر کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا کر جمہوریت کا نعرہ لگا رہا ہے۔
دیگر اہم موضوعات یہ ہیں کہ ملک بدانتظامی کا شکار ہے‘ معیشت کو گراوٹ کا سامنا ہے اور مہنگائی نے غریب آدمی کی جان لے لی ہے۔ انہوں نے بہت ''عمدہ‘‘ اعلان کیا ہے کہ وہ ملک کو بچانے نکلے ہیں۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ پاکستان کے عوام کو مزید تکلیف نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ایک منتخب وزیر اعظم کو منصب پر نہیں رہنے دیں گے۔ وہ ''جمہوریت کی بحالی‘ آئین کی حکمرانی اور حکومت کرنے کے لیے لوگوں کی مرضی‘‘ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ بادی النظر میں یہ بہت اچھے دعوے ہیں‘ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تین سال سے زیادہ کوشش کرنے کے باوجود وہ اب بھی پراعتماد کیوں نہیں ہیں؟ اب بھی ایک مربوط‘ منظم تحریک چلانے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں جو درحقیقت ایک ایسی حکومت کے لیے دباؤ بن جائے جسے بہت کم عددی اکثریت حاصل ہو؟ وجہ یہ ہے کہ ان کے تقریباً تمام دعوے مسترد کیے جاچکے ہیں:
1۔ الیکشن دھاندلی سے لے کر شفافیت کی نفی: اپوزیشن نے 2018 ء کے انتخابات کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ ان میں دھاندلی ہوئی ہے۔ ان کے رہنماؤں نے کہا تھا کہ وہ ثابت کریں گے کہ یہ تاریخ کا سب سے زیادہ دھاندلی زدہ الیکشن تھا۔ انہوں نے کئی حلقوں میں دوبارہ گنتی کا مطالبہ بھی کیا‘ جس کا نتیجہ نمبروں میں معمولی تبدیلی کے ساتھ سامنے آیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ عدالت جائیں گے اور ثبوت کے ساتھ وائٹ پیپر شائع کریں گے۔ انہوں نے ایک پارلیمانی کمیٹی بنانے کا بھی مطالبہ کیا جو ان کے تمام دعوؤں کی تحقیقات کرے۔ انہوں نے شاید ہی عدالت میں کسی کیس کی پیروی کی۔ انہوں نے آج تک کوئی وائٹ پیپر شائع نہیں کیا اور نہ ہی کسی کمیٹی کے سامنے کوئی ثبوت پیش کیا۔ ان کے دعوؤں کی پشت پناہی کرنے کے لیے کچھ نہ ہونے کی وجہ سے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ان کا موقف دھندلا گیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے سینیٹ انتخابات میں شفافیت کی ترمیم اور شو آف ہینڈ کی مخالفت کی۔ اس کے بعد وہ بس دیوار کے ساتھ ہی سر ٹکرا سکتے تھے ۔
2۔ سلیکٹڈ دوسروں کو سلیکٹڈ قرار دیتے رہے : ایک اور نعرہ جو اپوزیشن نے استعمال کیا وہ یہ تھا کہ وزیر اعظم مقتدرہ کے منتخب امیدوار ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ تمام جماعتیں جو کسی نہ کسی طرح مقتدرہ مخالف بن چکی ہیں ان کی مقتدرہ کی پیداوار ہونے کی مصدقہ تاریخ ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے رہنما آمریت کا حصہ تھے۔ وہ کئی بار حکومت میں رہے ہیں اور کھلے عام اعتراف کر چکے ہیں کہ یہ تمام انتخابات کنٹرول ہوئے۔ قیادت کی اگلی نسل کو ان کے والدین نے براہ راست اپنی پارٹیوں کی سربراہی کے لیے ''منتخب‘‘ کیا ہے۔ پچھلے سال سے سٹریٹ پاور کی کمی نے انہیں جے یو آئی ایف کی قیادت اور بڑی ریلیاں نکالنے کی صلاحیت پر انحصار کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ بڑے بڑے جلسے جلوس نکالنے کی ان کی نااہلی نے 23 مارچ کے لانگ مارچ کے ان کے دعوے کو بھی مشکوک بنا دیا ہے۔
3۔ کورونا مصیبت سے موقع تک : کورونا عالمی سطح پر تباہ کن تھا۔ زندگی اجیرن ہوگئی‘ معیشتیں تباہ ہوگئیں‘ دنیا بندہوگئی۔ پاکستان میں اپوزیشن نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت کو ''نااہل اور مجرم‘‘ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم اموات کے ذمہ دار ہیں ۔مگر پاکستان کی سمارٹ لاک ڈاؤن حکمت عملی دنیا کے لیے ایک کیس سٹڈی اور مثال بن گئی۔ پاکستان نے کورونا کو اس طرح سنبھالا جہاں بل گیٹس اور ورلڈ بینک سے لے کر ورلڈ اکنامک فورم تک سب اس منفردکارنامے پر حیران رہ گئے۔ اس بنیاد پر بھی اپوزیشن کی حکومت سے جان چھڑانے کی کال دھری کی دھری رہ گئی۔
4۔ معاشی نااہلی سے کارکردگی تک: اپوزیشن ہمیشہ جانتی تھی کہ حکومت اور وزیر اعظم کو بدعنوان قرار دینا ممکن نہیں ؛کوئی اس پر کان نہیں دھرے گا؛چنانچہ انہوں نے ایک بیانیہ تیار کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کا فیصلہ کیا کہ اگر وہ معیشت نہیں چلا سکتا تو اس کی دیانتداری کا کیا فائدہ۔ وہ کورونا میں پاکستان کی منفی شرح نمو بمقابلہ پی ایم ایل این کی پانچ فیصد سے زائد شرح نمو کا حوالہ دیتے رہے۔ تھوڑی دیر کے لیے یہ سمجھ میں آیا۔مگر ان کی بدقسمتی سے2021 ء میں معیشت نے دوبارہ ترقی کی اور 5.5 فیصدکی بے مثال ترقی کی۔برآمدات بڑھیں‘ صنعت پھلی پھولی‘ منافع میں کئی گنا اضافہ ہوااور ٹیکس محصولات اہداف سے بڑھ گئے۔ اپوزیشن کے لیے کوئی ایسی چیز بیچنا مشکل تھا جس کا بازار میں خریدار ہی کوئی نہ تھا ۔
5۔ مہنگائی سے قیمت میں کمی تک : اس کے بعد مہنگائی کی لہر ابھری ۔ نہ صرف ابھری بلکہ اس کی طغیانی میں اضافہ ہوتا رہا۔ تیل کی قیمت 45 ڈالر سے بڑھ کر 96 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی ۔ ابھی حال ہی میں یہ 130 ڈالر تک تھی۔ دنیا کی تمام حکومتوں کی طرح حکومتِ پاکستان نے بھی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کیا۔ امریکہ اور یورپی یونین کی افراطِ زر 40 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی اور اب بھی بڑھ رہی ہے۔ قابلِ فہم تھا کہ اپوزیشن ا س سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی۔ وہ چیخ رہے تھے کہ پٹرول کی قیمت 200 روپے فی لیٹر ہو جائے گی۔ یہ صورت حال یقینی طور پر عوام کو سراپااحتجاج بنا سکتی تھی۔ ایک بار پھر حکومت نے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے بجائے اس میں 10 روپے اور بجلی کی قیمتوں میں 5 روپے کمی کی اور ساتھ ہی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں منجمد کرنے کا اعلان کردیا۔ اب اپوزیشن چیخ رہی ہے کہ تیل کی قیمت کم کرنے سے خسارہ بڑھے گا جس سے مستقبل میں مہنگائی آئے گی‘ لیکن اس کا شور شرابا بڑبڑاہٹ میں بدل گیا۔
6۔ خارجہ پالیسی کے دباؤ سے لے کر خودمختاری تک: شاید سب سے زیادہ مضحکہ خیز دعویٰ جو اپوزیشن کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ حکومت خارجہ پالیسی کو تباہ کر رہی ہے۔واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کے اپنے پڑوسیوں اور مغرب کے ساتھ تعلقات پچھلی دہائی میں محکومانہ تھے۔ ایران‘ افغانستان اور بنگلہ دیش ہم سے بات کرنے کو تیار نہیں تھے۔ وسط ایشیا کو نظر انداز کیا گیا۔ مغرب سے صرف یہ سننے کو ملا کہ ڈومور‘ مگر ان تین سالوں میں ایران‘ افغانستان کو نیوٹرل کر دیا گیا ہے اور زیادہ تر سیاسی معاملات میں وسط ایشیا کی قیادت پاکستان کر رہا ہے۔ پاکستان اب مغرب کو ''نو مور‘‘ بلکہ Absolutely Notکہہ رہا ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو خود مختار بنانے کے لیے اسی لب ولہجہ کی ضرورت ہے۔ ہاں‘ کچھ قلیل مدتی اثرات ہوں گے لیکن طویل مدت میں اس سے پاکستان کو دوسرے ممالک کے ایجنڈوں کا حصہ نہ بننے کے اپنے مشن کو حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔
اپوزیشن عوامی حمایت حاصل کرنے‘ حکومت مخالف بیانیہ تیار کرنے‘ پارٹی کی مقبولیت کو کم کرنے میں ناکام رہی ہے جیسا کہ حال ہی میں گیلپ کے سروے میں کہا گیا ہے‘ تو وزیر اعظم پر عدم اعتماد کیوں؟ وہ پی ٹی آئی کے دوسرے وزیر اعظم کے سا تھ کام کرلیں گے لیکن عمران خان کے ساتھ نہیں؟ وہ اتنے مخصوص کیوں ہیں کہ وہ جہانگیر ترین کے ساتھ اتحاد کرنے کو تیار ہیں جنہیں انہوں نے اے ٹی ایم اور شوگر مافیا قرار دیا؟ وجہ یہ ہے کہ ماضی کے برعکس عمران خان ان کی بدعنوانی کو معاف کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان سب پر کروڑوں‘اربوں کی کرپشن کے کیسز ہیں۔ ان کے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ عمران خان کی حکومت نہ بچنے پائے۔ اسی لیے کھلے عام ہارس ٹریڈنگ جاری ہے۔
تاریخ اور موجودہ حالات بتاتے ہیں کہ عدم اعتماد بھی ناکام ہوسکتی ہے۔ عجیب لیکن قابلِ فہم ہے کہ جب پاکستان کی معیشت ترقی کر رہی ہے‘ مہنگائی پر قابو پایا جا رہا ہے‘ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی اپنا اجلاس منعقد کر کے پاکستان میں اس کی پیروی کر رہی ہے‘ تو اپوزیشن ایک وزیر اعظم کو ہٹانے کی کوشش کیوں کررہی ہے؟ ایک ایسا وزیر اعظم جس کے اثاثے ہمارے دوسرے لیڈروں کے برعکس مغرب میں نہیں ہیں۔ ایک ایسا شخص جس نے اس ملک کے غریب ترین لوگوں کو تین عالمی معیار کے کینسر ہسپتال دیے۔ ایک ایسا شخص جس نے اقوامِ عالم میں پاکستان کا وقار اور عزت بلند کی۔ جواب واضح ہے۔ اس آدمی کو اُنہیں اٹھانے کے لیے جھکنا پڑتا ہے۔ جیسا کہ تمام اپوزیشن جماعتیں وزیر اعظم کے زوال کے لیے اکٹھی ہیں۔لا مائیکل جیمز کے اس قول کو یاد رکھیں ''آخر دم تک کھڑے رہنے والے شخص سے زیادہ سربلند کوئی نہیں ہوتا۔‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں