سیاسی شطرنج پہ شہ مات

متحیر‘ حیران اورششدر‘ یہ کیفیت تھی چار اپریل کو‘ جب ہر کوئی دم بخود رہ گیا تھا۔ قومی اسمبلی میں جیسے طوفانی بگولا گزر گیاہو۔ حزب اختلاف برا فروختہ ‘ جبکہ حکومت جشن منارہی تھی جبکہ پاکستان کے لوگ پوچھ رہے تھے کہ ہوا کیا ہے ؟ میڈیا خود حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھا۔ کسی نے بھی سیاسی پنڈتوں کو اس چال کے لیے تیار نہیں کیا تھا اور نہ کرسکتا تھا۔ اس چال کے غیر متوقع پن‘ جچی تلی درستی کے ساتھ رفتاراور اس کی معاون فعالیت نے اراکینِ پارلیمنٹ کوچکرا کر رکھ دیا۔ بھری ہوئی میڈیا گیلریاں ہاتھ ملتے رہ گئیں‘ بریکنگ نیوز کا گلا رندھ گیا۔ جس وقت تک لوگوں کے اوسان بحال ہوئے ‘ قومی اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی معطل ‘اور اسمبلی تحلیل ہوچکی تھی۔
اگر سیاست شطرنج کا کھیل ہے تو یہ شہ مات تھی ۔ شطرنج کے کھیل میں بادشاہ پر حملہ کیا جاتا ہے ۔ شہ مات اس وقت ہوتی ہے جب بادشاہ کا گھیرائو کرلیا جاتا ہے اور اس کا بچنا نہ ممکن ہوجاتا ہے ‘ کوئی جائے مفرباقی نہیں رہتی‘ بچنے کی کوئی چال ہاتھ میں نہیں ہوتی۔ جب شہ مات دی جاتی ہے تو کھیل فوراً ختم ہوجاتا ہے ۔ جو کھلاڑی شہ مات دیتا ہے‘ وہ جیت جاتا ہے ۔ شطرنج کا کھیل کی دنیا میں کہا جاتا ہے کہ حریف کو شہ مات دینا ہی تمہاری اولین ترجیح ہونی چاہیے ‘ اگرچہ آپ کے پاس مہرے کمزورہوں یا پورے کھیل میں آپ کی پوزیشن خراب رہی ہو۔
ایسا لگتا ہے کہ چار اپریل کو شطرنج کی ایسی ہی بساط بچھی ہوئی تھی مگر سیاسی شطرنج کی بساط پر شہ مات کی زد میں آئی ہوئی پارلیمنٹ کے سپیکر کو سپریم کورٹ نے نو اپریل کو عدم اعتماد پر رائے شماری کرانے کا حکم دے دیا۔ رائے شماری ہوئی اور عدم اعتماد کامیاب ہوگئی اور حزب اختلاف حکومت میں آگئی۔ برق رفتار چالوں کی اس بساط پر کھیل کے اندر بھی ایک اور کھیل ہو رہا تھا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ چالیں اور جوابی چالیں کیا تھیں جو حکومت اور حزب اختلاف نے اس سیاسی بساط پر چلیں :
1۔ عالمی طاقتوں کی برہمی: سپر پاور کسی کمزورعلاقائی ہدف کو تلاش کرکے سپر پاور بن جاتی ہے ۔ اس ہدف کو خطے میں اپنے ایجنڈے کے لیے آسانی سے استعمال کیا جا سکتاہے۔ وسطی امریکہ میں ریاستہائے متحدہ تقریباً پچیس حکومتی تبدیلیوں میں ملوث رہا ۔ اس نے کمزور ممالک جیسے گوئٹے مالا‘ پانامہ‘ چلی‘ وینزویلا وغیرہ کو نشانہ بنایا۔ مشرق وسطیٰ میں اس کا ہدف عراق ہوا کرتا تھا۔ عراق نے ذرا سرکشی دکھائی تو اسے جنگ کے ذریعے قابو کرلیا۔ جنوبی ایشیا میںیہ کبھی افغانستان تھا تو کبھی پاکستان۔ یہی وجہ ہے کہ مشرف جیسی اطاعت گزارآمریت یا شریفوں جیسے سیاسی مہرے عمران خان کے مقابلے میں زیادہ بہتر سمجھے جاتے ہیں۔ تنبیہ کی غرض سے فون کرنے کی زحمت نہ کرنے سے شروع ہونے والی بات اڈوں کا مطالبہ کرنے کے لیے سی آئی اے کو بھیجنے سے لے کر روسی دورے پر نہ جانے کے لیے کہنے تک چلی گئی۔ لیکن یہ کیا؟ یہ کمزور ملک تو ''نافرمانی‘‘ پر تلا ہوا تھا۔ تو پھر سزا سنا دی گئی۔ پاکستان کے سفیر کو دی گئی ایک کھلم کھلا دھمکی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ''یا تو اسے عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے ہٹا دیں ورنہ پاکستان کو نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا‘‘۔
2۔ مقامی منحرفین کا کھیل : شطرنج کے اس کھیل میں طاقتور کو پیادے کی ضرورت ہوتی ہے۔ شطرنج کے کھیل میں پیادے تعداد میں بہت زیادہ لیکن بہت کمزورہوتے ہیں۔ یہ پیادے مقامی نظام کے اندر موجود نشانے بازوں کا نیٹ ورک ہے۔ یہ سماج کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جانے والے وہ طبقے ہیں جو بڑی طاقتوں کے عزائم اور بیانیے کو آگے بڑھانے کے لیے ہمہ وقت آمادہ رہتے ہیں ۔ موجودہ ہنگامہ آرائی میں یہ کھلاڑی اس تصویر میں رنگ بھرنے کی کوشش میں مصروف ہیں جو ان کے آقاؤں نے کھینچی ہے ۔
3۔ پارلیمنٹ میں لوٹ سیل :میرے خیال میں سیاست دانوں کے لیے پیسہ سب سے بڑا‘ تیر بہدف اور یقینی نتائج دینے والا چارہ ہے۔ ماضی میں بدعنوان سیاست دانوں کی حمایت کرنے کے بعدسپر پاور ان کمزور ممالک کے دولت کے بھوکے اراکین ِپارلیمنٹ کی مٹھی آسانی سے گرم کردیتی تھی۔ مونگ پھلی کے دانے‘ چند ارب روپوں کی صورت انہیں رام کرنے کے لیے کافی سمجھے جاتے تھے ۔ پارلیمنٹ ہاؤس میں ہارس ٹریڈنگ کی رسم نئی نہیں ۔پاکستان میں اسی ''ٹریڈنگ‘‘ کا راج چلتا ہے۔ ادائیگیاں بہت زیادہ ہیں اور خطرات بہت کم۔ اس طرح سپر پاورکی میٹنگ میں عدم اعتماد کا ووٹ دینے کا خاص حوالہ دیا گیا کیونکہ یہ سب سے آسان‘ جمہوری اور آئینی طریقہ تھا۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ امریکہ دنیا میں 72 حکومتی تبدیلیوں میں ملوث رہا ہے‘ اور عدم اعتماد کا ووٹ سیاسی شطرنج کی بساط پر ایک آزمائشی اور آزمودہ'' جمہوری‘‘ اقدام ہے۔
پاکستان اس سال آزادی کی 75ویں سالگرہ منانے جا رہا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ برطانوی راج سے آزاد ہونے کے باوجود ہم حقیقی معنوں میں آزاد نہیں ہو سکے جبکہ ہم غیر ملکی قوتوں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں‘ ہمیں اپنے اندر جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ ہم ایران‘ بھارت اور چین جیسے اپنے پڑوس میں موجود کچھ ممالک کی طرح دفاع کرنے اور ثابت قدم رہنے کے قابل کیوں نہیں ؟ شہریوں کو اجتماعی طور پر نہ صرف غیر ملکی طاقتوں کے سامنے کھڑے ہونے بلکہ ہمارے نظام کے اندر ان کے پیادوں کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کرنا چاہیے تاکہ اس طرح کے ہائبرڈ حملوں کے خلاف مضبوط سیاسی محاذ قائم کیا جا سکے۔
1۔ حکومت تبدیل کرنے کی سازش کی تحقیقات : سپریم کورٹ سے انکوائری کی استدعا کی گئی ہے۔ اس کا انعقاد ہونا چاہیے۔ اس کے نتائج کو لاگو کرنے کی ضرورت ہے اور عوام کو اس پر اصرار کرنا چاہیے۔ میموگیٹ انکوائری نے اس ملک میں ہمارے اپنے سفیر کے ذریعے امریکہ کے ساتھ ہمارے سیاسی رہنماؤں کی ملی بھگت کو ثابت کیا۔ پھر بھی کچھ نہیں ہوا۔کچھ کہتے ہیں کہ کھیل ختم ہو گیا ہے۔ نہیں ‘ ایسا ہرگز نہیں ہے۔اب اس میں نہ صرف سیاسی عزم شامل ہے‘ بلکہ اس کے لیے ملک کے اندر اور باہر بلیک ہولز سے لڑنے کے لیے عوامی عزم و ہمت کی بھی ضرورت ہے۔ ایران یا دیگر ممالک نے امریکی دباؤ کا مقابلہ کیا کیونکہ انہیں ان کے عوام کی حمایت حاصل تھی۔ اس طرح پاکستان میں بھی اس مستقل پالیسی سے آزادی سے محرومی سے نجات دلانے کے لیے ایک عوامی بیداری درکار ہے۔
2۔ شفاف تازہ انتخابات : ایک مسئلہ یہ رہا ہے کہ انتخابی عمل صرف امیروں اور دھاندلی کے ماہرین کو ہی آگے آنے دیتا ہے۔ اس لیے الیکٹرانک ووٹنگ کے خلاف شدید مزاحمت ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن اقتدار میں آنے کے لیے بے چین ہے جیسا کہ مریم نواز نے کہا کہ ''پرانے پاکستان کو واپس لاناہے‘‘۔پرانا پاکستان وہ پاکستان ہے جہاں ایک نئے‘ صاف ستھرے لیکن مستحق شخص کا پارلیمنٹ میں آنا تقریباً ناممکن ہے۔ حکومت کے لیے ضروری ہے کہ ایک ایسے نظام کو یقینی بنائے جس میں صاف ستھرے لوگوں کیلئے آگے آنا ممکن ہو ‘ ورنہ بدقسمتی سے ہم خود کو افغانستان کے سے حالات کا شکار ہوتا دیکھیں گے ۔
3۔ مستحکم اور باصلاحیت حکومت : کسی وزیر اعظم نے اپنی مدت پوری نہیں کی۔ اس حکومت کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ یہ عدم استحکام ان لوگوں کے درمیان لڑائی کی وجہ سے ہے جنہوں نے اپنے مفادات اور غیر ملکی مفادات کی تابعداری کی وجہ سے حکومت کی ہے اور ان چند لوگوں کے درمیان لڑائی ہے جو خود مختار رہنا چاہتے ہیں۔ اگر ملک اور معیشت کو پائیدار طریقے سے مستحکم بنانا ہے تو آسانی سے حکومت کی خریدوفروخت کے بازار کو ختم کرنا ہوگا۔
یہ یقیناً تاریخی لمحات ہیں۔ کسی وزیر اعظم نے آج تک اپنی حکومت کی قربانی اس نظام کو ختم کرنے کے لیے نہیں دی۔ عام طور پر وزیر اعظم اور اراکین پارلیمنٹ اس وقت تک اپنی نشستوں پر جمے رہتے ہیں جب تک کہ انہیں یا تو ہٹا نہیں دیا جاتا یا ان کا دور ختم نہیں ہو جاتا۔ گزشتہ اتوار کو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں ہونے والے بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہروں نے اشارہ دیا کہ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔قوموں کے لیے ایسے لمحات عہد سازثابت ہوتے ہیں۔ وہ یا تو اپنے مفادات کے لیے آواز اٹھانے والا ایک ہجوم بن کر بکھر جاتی ہیں یا قومی مفادات کو مقدم رکھ کر واقعی ایک قوم بن سکتی ہیں ۔ محض ایک پیادے یا بادشاہ بننے میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہے جو دشمنوں اور نامساعد حالات کی شہ مات کا مقابلہ کرسکتا ہو ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں