غیر جانب داری کا مخمصہ

غیر جانب دار ہونا اب ایک پیچیدہ اور تہ دار بیان بن چکا۔ کیا یہ اچھا ہے یا برا ؟ کیا معاملہ طے ہو چکا؟ کیا یہ کوئی نیا معمول ہے؟ ان سوالوں کا جواب دوٹوک ہاں میں بھی ہوسکتا ہے اور دوٹوک ناں میں بھی۔یہ ابہام کیوں ہے ؟ اس کا دارومدار کسی چیز پر ہے ؟ کس چیز پر؟ یہ وہ مقام ہے جہاں سوشل میڈیا پر تنقید، طنز و مزاح کا طوفان بپا ہے۔ طعنہ زنی کی مشق بھی جاری ہے۔ غیر جانب داری کے لغوی معنی ''کسی جانب جھکائو نہ رکھنا‘‘ یا ''کسی سیاسی یا نظریاتی دھڑے کے ساتھ وابستہ نہ ہونا‘‘ ہے۔ اس تعریف پر پیشانی شکن آلود ہوجاتی ہے۔ خیر یہ بات بھی تشریح طلب ہے کہ یہ پیشانی کس کی ہے؟ جب چہرے کے تاثرات تبدیل ہونے سے تشریح بدل جائے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کے سوتے کہیں داخلی عوامل سے پھوٹتے ہیں۔
غیر جانب داری کے تصور کا بنیادی طور پر مطلب غیر متعصب اورکشادہ دل ہونااور معاملات کا تعصب کے بغیر جائزہ لینا ہے۔ تعصبات شعوری بھی ہوسکتے ہیں اور لاشعوری بھی۔ شعوری تعصبا ت وہ ہیں جن سے ہم آگاہ ہوتے ہیں اور ہم دانستہ طور پر انہیں اپنے افعال پر اثر انداز ہونے کی اجازت دیتے ہیں‘ مثال کے طور پر امریکا میں سفید فام انتہا پسند گروہ کو یقین ہے کہ سفید فام لوگ رنگ دار جلد رکھنے والوں سے برتر اور بلند ہیں اور وہ اسی یقین پر عمل کرتے ہیں۔اسی کے ردعمل میں کورونا کے دنوں میں ''بلیک لائیوز میٹر‘‘ تحریک شروع ہوئی تھی۔ تعصب رویے پر اثر انداز ہوتا ہے۔ سفید فام پولیس افسر نے سفاکیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاہ فام، جارج فلائیڈکی گردن کو نو منٹ تک اپنے گھٹنے سے دبائے رکھا جس کی وجہ سے وہ دم گھٹنے سے جاں بحق ہوگیا۔ اسی طرح انڈیا میں مودی کا مذہبی بالادستی کا ہندوتوا کا نظریہ غیر ہندوئوں‘ خاص طور پر مسلمانوں اور مسیحیوں سے غیر انسانی سلوک کی راہ دکھاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نسلی یا مذہبی طور پر غیر جانب دار ہونا ایک بڑی خوبی سمجھا جاتا ہے۔
کچھ تعصبات کے پیچھے بری نیت کارفرما ہوتی ہے۔ کچھ لاشعوری تعصبات ہوتے ہیں‘ جیسا کہ جس گھڑی آپ خلابازوں کے بارے میں سوچتے ہیں تو آپ کے ذہن میں ہمیشہ آدمی ہی آتے ہیں۔ اس طرح جب آ پ طویل کام کے دورانیے کاسوچیں تو آپ کے ذہن میں آئے گا کہ عورت اتنا مشکل کام نہیں کرسکتی۔ ایسے معاملات میں غیر جانب داری تعصبات کو کم کرسکتی ہے۔ دوسری طرف مؤقف اختیار کرنے میں غیر جانب داری بذاتِ خود متعصبانہ ہوسکتی ہے۔ درحقیقت یہ ایک شعوری تعصب ہوتا ہے۔ کسی مشکل اور غیر مقبول ایشو پر موقف اختیار کرنے کے لیے غیر جانب داری درکار ہوتی ہے۔ وہ لوگ جو ایسے معاملات پر واضح موقف نہیں اختیار کرسکتے، وہ عام طور پر انہیں مضحکہ خیز، معمولی یا احمقانہ قرار دیتے ہیں۔ ایسے کچھ امور میں غیر جانب داری کا جائزہ لیتے ہوئے سمجھنے کی کوشش کریں کہ اس کا کیا مطلب ہوسکتا ہے:
1۔ عوامی طور پر غیر جانب داری: رائے عامہ سماجی اور سیاسی دونوں امور میں اہمیت رکھتی ہے۔ ان مسائل میں غیر جانب داری بے حسی کے مترادف ہے۔ طویل عرصے سے کہا جا رہا تھا کہ پاکستانی عوام سماجی برائیوں، بدعنوانی اور متنازع موضوعات پر بے حسی اختیار کرتے ہیں۔ ہم نے نور مقدم کیس اور سانحہ اے پی ایس پشاور جیسے بہت سے معاملات میں دیکھاکہ سوشل میڈیا کی بدولت عوام نے متحد ہوکر شدید ردعمل دیا اور اس طرح حکام کو ان مسائل کا مقابلہ کرنے کے لیے اقدامات پر مجبور کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل ملک میں سیاسی طور پر تنائو زدہ ماحول میں ناقدین کا کہنا ہے کہ انتہائی قطبیت انارکی کا باعث بن رہی ہے۔ جذبات کو ٹھنڈا رکھنا درست ہو سکتا ہے لیکن ملک کے ساتھ جو غلط ہے‘ اس پر پریشان نہ ہونا بدتر ہے۔ پڑھے لکھے نوجوان لوگوں نے ماضی میں کبھی ووٹ نہیں دیا تھاکیونکہ وہ انہی پرانی پارٹیوں سے اکتا چکے تھے۔ یہ 2013ء تھا جب بہت سے نوجوان اور پڑھے لکھے لوگوں نے تبدیلی کو ووٹ دیا۔ جب انہوں نے جس پارٹی کو ووٹ دیا‘ وہ صرف 30 سیٹیں جیتی تو وہ سسٹم سے مایوس ہو گئے۔ 2018ء میں تبدیلی آگئی لیکن پھر تبدیلی عوامی توقعات پوری نہ کر سکی۔ جب بے حسی پیدا ہوئی تو ٹھیک اس وقت عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے حکومت تبدیل کردی گئی۔اس سے عوام کا شدید ردعمل سامنے آیا۔ اس وقت جذباتی گفتگو سے ملک کی فضا لبریز ہے۔ امید ہے کہ یہ جذبہ روایتی جمود کو توڑ کر ملک میں بے لاگ احتساب کی راہ ہموار کرے گا۔
2۔ اداروں کی غیر جانب داری: ادارے کسی ملک کی حکمرانی کا ستون ہوتے ہیں۔ پاکستان میں حکومتوں اور صاحبانِ اختیار نے ماضی میں اداروں کا غلط استعمال کیا۔ ادارے اپنے قانونی فریم ورک اور ان کی قیادت کرنے والے افراد کی منشا پر چلتے ہیں۔ بدقسمتی سے دونوں پہلو غیر شفاف ہیں۔ قانون ایسے قانون ساز بناتے ہیں جو عوامی مفادات کو بنیاد بنانے کے بجائے ذاتی مفادات کو سامنے رکھتے ہیں۔ بسا اوقات اداروں کے سربراہان کا تقرر میرٹ اور کارکردگی کے بجائے ذاتی وفاداریوں پر ہوتا ہے۔ جب حکومت بدلتی ہے تو اداروں کے سربراہ کو بھی تبدیل کردیا جاتا ہے۔ نئی حکومت نے ایف بی آر اور سٹیٹ بینک کی کارکردگی کو سراہا لیکن سٹیٹ بینک کے سربراہ کے غیرمعمولی خوبیوں کے حامل ہونے کے اعتراف کے باوجود اُنہیں تبدیل کر دیا۔ اس طرح ادارے شاذ و نادر ہی غیر جانب دار ہو پاتے ہیں۔ اداروں میں غیر جانب داری کا مطلب ہے مساوی، غیر امتیازی، اور منصفانہ اور انصاف پسند ہونا۔ پاکستان جیسے ملک میں اس کی خواہش تو خواب ہی دکھائی دیتی ہے۔
3۔ میڈیا کی غیر جانب داری: میڈیا ایک کاروبار ہے۔ میڈیا طاقت ور ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بڑا سیاسی ہتھیار ہے۔ یہ تینوں عناصر میڈیا کو کسی صورت غیر جانب دار نہیں رہنے دیتے۔ پاکستان میں میڈیا پر حکومتوں کی عنایت ہوتی ہے۔ حکومتیں دل کھول کر اشتہارات دیتی ہیں اور بدلے میں مواد پر کنٹرول چاہتی ہیں۔ اینکرز، تجزیہ کار کھلے عام متعصب ہیں۔ خبروں کو توڑ مروڑ کرپیش کیا جاتا ہے۔ سرپرستی ہی خبر کی نوک اور تجزیے کی سمت کا تعین کرتی ہے۔ فی الحال میڈیا یقینی طور پر غیر جانب دار نہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ وہ اینکرز یا تجزیہ کار جو تحریک انصاف کی حکومت کے قیام میںانتخابی انجینئرنگ کی بات کرتے تھے موجودہ انجینئرنگ پر بہت خوش ہیں اور کھلم کھلا ملی بھگت کرنے والوں پر انگلی اٹھانے کی مذمت کرتے ہیں۔اب یہاں غیر جانب داری کہاں گئی؟ آپ ٹویٹر پر ان لکھاریوںاورماہرین کی ٹائم لائنز اور ان کے ری ٹویٹس کو دیکھ کر یہ جان سکتے ہیں کہ کون کسے پروموٹ کر رہا ہے۔ اخلاقیات کا تڑکا صرف گپ شپ میں ہی لگایا جاتا ہے۔ سیاست دانوں کے ساتھ مفت غیر ملکی دوروں، ریاستی تنظیم کے منافع بخش عہدوں اور دیگر مراعات پر براجمان، وہ کھلم کھلا ایک ایسے بیانیے کو فروغ دے رہے ہیں جو جعلی ہے یا جو کسی صورت غیر جانبدار نہیں گردانا جا سکتا۔
4۔ سول سوسائٹی کی غیر جانب داری: سول سوسائٹی حکومت یا اداروں وغیرہ کی طرف سے غیر مہذب کارروائیوں پر نظر رکھنے کے لیے ایک بہت اہم توازن کا کردار ادا کرتی ہے۔ سول سوسائٹی کے نمایاں ارکان بڑے اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور اس اثر و رسوخ کو احتساب اور قانون کی پاسداری کی فضا قائم کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں سبھی نہیں لیکن بہت سے ایسے افراد اور تنظیمیں بے حد سیاست زدہ ہو چکی ہیں۔ بار کونسلز اور ایسوسی ایشنز سیاسی ایجنڈا رکھتی ہیں۔ یہ ان کے مشن کے خلاف ہے لیکن دوسری تنظیموں بھی ''انسانی حقوق‘‘ کے اس مسئلے کے طور پر اس طرح کے ایشوز کی حمایت کرتی ہیں۔ اسی طرح کچھ غیر ملکی این جی اوز مخصوص ایجنڈوں کے تحت قائم کی گئی ہیں۔ مقامی دانشور اور سرکاری افسران کو بھاری تنخواہوں پر مشیر کے طور پر رکھا جاتا ہے۔ وہ بدلے میں ان کے بیانیے کو پھیلانے کے لیے ٹاک شوز اور سوشل میڈیا فورمز میں بیٹھتے ہیں۔ وہ غیر سیاسی اور غیر جانب دار ہونے کا دکھاوا تو کرتے ہیں لیکن مخصوص ایجنڈے کے تحت ہی کام کررہے ہوتے ہیں۔
اصولوں پر مبنی غیر جانب داری ہی صحیح راستہ ہے۔ یہ عالمگیر اصول ہیں جو بالآخر پائیدار کامیابی کا تعین کرتے ہیں لیکن جب اصول پامال ہوں یا توڑ دیے جائیں توآپ کو فریق بننے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بے اصولی کو دیکھتے ہوئے غیر جانب دار رہنا بدترین جانب داری ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب اصولی موقف اختیار کرنے میں جسمانی یا مالی نقصان کا اندیشہ ہو تو زیادہ تر لوگ غیر جانبداری کے مورچے میں پناہ لے لیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آنے والے چند ہفتے بہت اہم ہیں۔ یہ دیکھا جانا ہے کہ تاریخ کی صحیح سمت کون کھڑا اور غلط سمت کون۔ جیسا کہ ڈیسمنڈ ٹوٹو نے کہا تھا: ''اگر آپ ناانصافی کے وقت غیر جانب دار ہیں، تو آپ نے ظالم کا ساتھ دیا ہے۔‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں