چوائس اور اس کے نتائج

ان سب کو بند کردو‘ ان کا گلا گھونٹ دو۔ تباہ کن بد انتظامی کی وجہ سے ملک میں بڑھتی ہوئی بے چینی کو دبانے کے لیے حکومت اور اس کے سہولت کاروں کے پاس یہی چوائس ہے۔ ''آپ اپنے طرزِ عمل کا انتخاب کرنے میں آزاد ہیں‘ لیکن آپ کے پاس ان نتائج سے بچنے کی آزادی نہیں ہوتی‘‘۔ یہ کہنا ہے ہاورڈ جی ہینڈرک کا۔ یہی زندگی کی الجھن ہے۔ زندگی امکانات کے درمیان انتخاب کرنے کا نام ہے۔ ہماری چوائس کا معیار ہماری زندگی کے معیار کا تعین کرتا ہے۔ ذاتی زندگی‘ پیشہ ور امور اور سیاسی میدان میں بھی یہی چیز صادق آتی ہے۔ لوگوں‘ اداروں اور اقوام کو اکثر ماضی میں کیے گئے کچھ فیصلوں پر پچھتانا پڑتا ہے۔ ایسے فیصلے جن کے ناپسندیدہ نتائج برآمد ہوئے۔ جو چننے کا وقت تھا‘ جو چوائس کا لمحہ تھا‘ اس وقت مخصوص سمت اختیار کرنے کا دباؤ ڈالا گیا۔ ممکن ہے کہ یہ سمت وہ نہ ہو جو وہ چاہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ چوائس بھی اتنی ہی اہم اور طاقتور ہے جتنا انسانی عمل۔ بدقسمتی سے منطقی‘ حقیقت پسندانہ اور غیرمتعصب چوائس بہت مشکل اور کٹھن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم آسان راستہ اختیار کرتے ہیں تو ان سے وہ نتائج برآمد نہیں ہوتے جن کی ہمیں توقع تھی۔
آج کل پاکستان اور پاکستانیوں کو مشکل چوائس کا مرحلہ درپیش ہے۔ ملک کو معاشی بحران اور سیاسی غیریقینی پن کا سامنا ہے۔ ہر دو کے مہلک ادغام نے ملک کو سری لنکا جیسی تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ پاکستان اور سری لنکا میں فرق یہ ہے کہ سری لنکا معاشی بحران کے بعد سیاسی بحران کا شکار ہوا۔ سیاحت سے ہونے والی آمدنی ختم ہوگئی۔ اپریل میں سری لنکا میں مہنگائی کی شرح 29.8 فیصد تھی‘ جب کہ اشیائے خورو نوش کی گرانی 47فیصد تک پہنچ چکی تھی۔ پاکستان میں لایا گیا سیاسی بحران معاشی بحران کا باعث بنا۔ حکومت کی تبدیلی سے پہلے پاکستان دو سال سے بلند ترین جی ڈی پی کی شرح نمو حاصل کر رہا تھا‘ ریکارڈ برآمدات ہورہی تھیں‘ صنعتی نمو اونچی تھی‘ بھاری زرعی پیداوار حاصل ہورہی تھی۔ تاہم سری لنکا کے راجہ پاکسے برادرز کی موروثی سیاست اورپاکستان کے شریف برادرز کی موروثی سیاست نے دونوں ممالک کو ایک جیسے بحران کا شکار کردیا۔
تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے علاوہ دیگر اہم جماعتوں پر مشتمل مخلوط حکومت کم و بیش غیر فعال ہے۔ ادارے نیم جان ہیں۔ میڈیا کے ایک طرف کھائی‘ دوسری طرف عفریت ہے۔ عدلیہ پر بھی انتہائی دباؤ کا تاثر ہے۔ عوام کرب کے عالم میں ہیں۔ ان سب کے سامنے اب ایک چوائس ہے جو ممکن ہے بہت مشکل دکھائی دیتی ہو۔ لیکن اسی وجہ سے یہ تاریخی لمحہ اگلے چند عشروں کا تعین کردے گا کیوں کہ تمام اہم کھلاڑیوں کے سامنے ''پس چہ باید کرد‘‘ کا مرحلہ ہے۔ سب کو کوئی انتخاب کرنا ہے۔
1۔ مخلوط حکومت: پی ڈی ایم اور اتحادیوں نے حکومت کی خاطر بہت کچھ چھوڑ دیا ہے۔ ان کی چوائس تھی کہ الیکشن کے بجائے جلدی سے اقتدار مل جائے۔ موجودہ صورت حال اسی چوائس کا نتیجہ ہے۔ اس کے نتیجے میں معاشی تباہی اور اپوزیشن کی مقبولیت میں اضافہ وہ قیمت ہے جو اُنہیں ادا کرنا ہوگی۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان کا دعویٰ تھا کہ اُن کی یہ چوائس خراب معیشت کی وجہ سے ہے اور وہ اسے درست کرنا چاہتے ہیں۔ اب ان کے پاس کوئی منصوبہ نہیں۔ اداروں کو بے دم کرنے پر ان کی پوری توجہ مرکوز ہے۔ اس کی وجہ واضح طور پر سامنے آ گئی ہے اور اپوزیشن کے دعووں کی تصدیق ہورہی ہے کہ یہ عوام کو ریلیف دینے کے بجائے اپنے آپ کو ریلیف دینے کی سکیم تھی۔ یہ چوائس حکمرانوں کے اپنے عدالتی مقدمات ختم کرانے کی تھی۔ انہیں ضمنی انتخابات کے من پسند نتائج درکار ہیں۔ تاہم اس کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے سے ان کے خلاف عوامی غم و غصہ بڑھے گا جس کی وجہ سے انہیں انتخابی شکست کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس طرح‘ یہ حکومت کے سامنے چند ماہ کے اقتدار اور طویل المدت ساکھ کے درمیان چوائس ہے۔
2۔ حزبِ اختلاف: اپوزیشن عملی طور پر ایک جماعت کا شو ہے۔ عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف بھرپور احتجاجی تحریک برپا کیے ہوئے ہے۔ بہت سے لوگوں کو لگتا ہے کہ ان کی چوائس اُنہیں ایک بندگلی کی طرف لے جا رہی ہے۔ انہیں قومی اسمبلی سے استعفیٰ نہیں دینا چاہیے تھا۔ مقتدرہ پر ہاتھ نہیں ڈالنا چاہیے تھا۔ اس چوائس کے ایسے نتائج ہوں گے جو ان کی پارٹی کو ہمیشہ کے لیے تباہ کردیں گے لیکن اب تک تحریک انصاف ان تمام امکانات کا سامنا کرتے ہوئے عوامی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ اب تک کی ملکی تاریخ اس چوائس کے خلاف فیصلہ دیتی ہے۔ پاکستان میں اب تک کوئی سیاسی تبدیلی مقتدرہ کی حمایت کے بغیر کامیاب نہیں ہوئی۔ اس طرح تحریک انصاف کے پاس چوائس یہ ہے کہ وہ ایسا عوامی طوفان برپا کرے جو خود تاریخ رقم کرے۔
3۔ہیئت مقتدرہ:ہیئت مقتدرہ کسی ریاست میں پوری طرح فعال اور سیاسی حرکیات کی ایک عامل ہوتی ہے۔ حکومتی فیصلہ سازی کی اہم شریک اور تبدیلی کے عمل میں بھی یہ اہم حصہ دار ہوتی ہے۔ انتخابی عمل دخل کے الزامات بھی لگتے رہتے ہیں اور معاملہ اگر عدم اعتماد کے ووٹ میں جوڑ توڑ کا ہو تو ایسے الزامات مزید شد و مد سے لگائے جاتے ہیں۔فیصلہ ساز توقع کرتے ہیں کہ اس تبدیلی کے بعد کچھ لہریں ابھریں گی جو وقت کے ساتھ دم توڑ جائیں گی لیکن کبھی کبھار اس کا ایسا ردعمل آتا ہے جو توقع کے برخلاف ہوتا ہے۔ مزاحمت جتنی زیادہ ہوتی ہے‘ سختی بھی اتنی ہی ہوتی ہے۔ 25 مئی کو حکومت کے سخت کریک ڈاؤن کی حمایت کرنے کے بعد اب رائے سازوں کی زبان بندی کی جا رہی ہے۔ ایاز امیر‘ عمران ریاض خان تو شروعات ہیں۔ اب حالات اس نہج کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں سماجی بے چینی زیادہ ہونے کے خدشات ہوتے ہیں۔ دوسری چوائس یہ ہے کہ ہونے والے نقصان کو کنٹرول کریں اور انتخابات کو فیصلہ کرنے دیں۔
4۔ میڈیا: میڈیا گو مگو کا شکار ہے۔ بہت سوں کا خیال تھا کہ تحریک انصاف کی جانب سے میڈیا کے مینجمنٹ میں ناکامی کے بعد اب مسلم لیگ (ن) اور ساتھیوں کی واپسی سے اس خلا کو پر کیا جائے گا۔ اورایسے ہی ہوا۔ خان صاحب سے زیادہ مریم کے جلسے دکھانے کے ان کے انتخاب نے انہیں اپنے سب سے بڑے اثاثے‘ یعنی ناظرین سے محروم کر دیا ہے۔ حالیہ دنوں بیک وقت ہونے والے جلسوں میں عمران خان کو دکھانے والے چینلوں اور جن چینلوں نے دونوں رہنماؤں کو دکھایا لیکن عمران خان کی آواز بند کرتے ہوئے مریم کی تقریر دکھائی‘ کے ناظرین کی تعداد میں تقریباً 30پوائنٹس کا فرق تھا۔ اس وقت میڈیا کے سامنے بھی چوائس کی الجھن ہے۔ وہ حکومت کی حمایت حاصل کرے تو اپنے ناظرین کھونے کے خطرے کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہے اور ایسا کرتے ہوئے وہ سرکاری کنٹرولڈ ٹی وی کی ہی ایک اور نقل بن جائے گا۔
5۔ عوام : حکومتی تبدیلی کے کھیل میں عوام اصل رکاوٹ بن چکے ہیں۔ تحریک انصاف کو حکومت سے باہر کرنے والا کھیل کھیلتے ہوئے فیصلہ ساز حلقے حکومت کے خاتمے کے غیر ارادی نتائج کے لیے تیار نہیں تھے۔ ہر دن کے ساتھ عوام سوشل میڈیا پر انہیں تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔ اس عوامی ردِ عمل پر تحریک انصاف کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کی گئی لیکن بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں اور مقامی لوگوں نے اس لڑائی کو اپنے ذمہ لیا۔ انہوں نے تہیہ کر رکھا ہے کہ وہ پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر اور اندرون ملک چند طاقتور کھلاڑیوں کا یرغمال نہیں بننے دیں گے۔ پچھلی حکومت اور اب کی تبدیلیوں میں یہی بنیادی فرق ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر نواز شریف تک عوام ان کی برطرفی پر کبھی سامنے نہیں آئے تھے۔ موجودہ عوامی غم و غصہ کی مثال نہیں ملتی۔ اب ان کے پاس چوائس یہ ہے کہ وہ روایتی ڈرائنگ روم تنقید کرنے اور محض غم و غصہ کا اظہار کرنے کے بجائے گھر وں سے باہر نکلیں۔
پاکستان کے لیے یہ ایک فیصلہ کن لمحہ ہے۔ اس کا بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ بہت سی ممنوع راہوں پر قدم رکھنا ہے‘ بہت سے قلعوں کی فصیلیں گرانی ہیں‘ بہت سی روایات کو ترک کرنا ہے‘ بہت سی حدود عبور کرنی ہیں‘ بہت سی چھتیں منہدم ہونی ہیں۔ سب سے بڑھ کر‘ بہت سوں کی سوچ بدلنی ہے۔ اصل جنگ پاکستان میں حقیقی تبدیلی لانے کے لیے سوچ کے نئے انداز اختیار کرنے کی چوائس ہے۔ یہ نیا سفر شروع کرنے کی چوائس ہے۔ جیسا کہ تھامس کوہن نے کہا تھا ''اہم پیش رفت پرانی سوچ کے خاتمے سے شروع ہوتی ہے‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں