سنسی خیز کھیل کے آخری لمحات؟

سیاست اور جنگ میں ہر ناجائز حربہ جائز سمجھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جمہوریت میں شفاف اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے عوام کی رائے کا اظہار ہوتا ہے۔ اس میں ادارے غیر متعصب‘ غیر جانبدار اور تمام طاقت کے مراکز کے لیے یکساں طرزِ عمل کے حامل ہوتے ہیں۔ خبریں لانے والے ان کی ملمع کاری نہیں کرتے۔ ایک عظیم سیاسی نظام میں یہی کچھ ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں یہ سب کچھ آئین کی کتاب تک ہی محدود ہے۔ عملی زندگی میں اس کا شائبہ تک دکھائی نہیں دیتا۔ اسے نوشتہ دیوار بنانے کے لیے ابھی طویل فاصلہ طے کرنا باقی ہے۔ پاکستانی سیاست ایک الجھے ہوئے پیچ دار سفر کا نام ہے۔ یہاں 1970ء کے بعد ہونے والے ہر الیکشن کی شفافیت پر سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ الیکشن نامی کھیل کی مرکزی ہدایات متعلقہ ادارے کے بجائے کہیں اور سے موصول ہوتی ہیں۔ 2002ء کے الیکشن میں بھی یہی کچھ ہوا تھا۔ نام نہاد جمہوری لیڈر طاقت کے ساتھ ساز باز کرکے انتخابی کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ اس میدان میں یہی فاؤل درست مانا جاتا ہے۔
یہ خیال بھی موجود ہے کہ سیاست میں ناجائز حربوں کا آغاز صاحبانِ اقتدار سے ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ اس سے مراد ملک کے وزیراعظم اور صدر ہوں۔ اقتدار کی سیاست کا اپنا ایک بندوبست ہوتا ہے۔ اس میں طاقت اور اختیار کو اپنے ہاتھوں میں مرتکز رکھنا اور قومی ایجنڈے کے بجائے اس کا ذاتی مقاصد کے لیے استعمال شامل ہے۔ پاکستان میں اکثر حکومت اور سیاست دانوں کی تبدیل ہوتی ہوئی حالت کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مقتدرہ کو علم ہوتا ہے کہ کب‘ کیسے اور کہاں کس سیاست دان نے دوسرے کی جگہ لینی ہے۔ اس کے لیے مختلف جوڑ توڑ اور داؤ پیچ آزمائے جاتے ہیں۔ اسے سیاسی انجینئرنگ کا نام دیا جاتا ہے۔ کچھ پارٹیوں کو اس کھیل کے لیے چنا جاتا ہے‘ ان کے ساتھ ساز باز کی جاتی ہے۔ کچھ اداروں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔ کچھ میڈیا ہاؤس بھی مبینہ طور پر اس عمل کا حصہ ہوتے ہیں۔ گزشتہ نصف صدی سے یہ کھیل بلا روک ٹوک جاری تھا‘ یہاں تک کہ ایک شخص نے کھڑے ہوتے ہوئے انہونی کو ہونی کردیا۔ آئیے ان عوامل کو دیکھتے ہیں جو ان75 برسوں کا سب سے بڑا اپ سیٹ کر چکے ہیں یا ابھی مزید بھی کرنے جارہے ہیں:
1۔ نہ جھکنے والا شخص: سیاسی رہنما ہمیشہ تنازعات میں گھرے رہتے ہیں۔ ان کی زندگی اور موت لائقِ مطالعہ ہوتی ہے۔ کینیڈی سے لے کر بے نظیر بھٹو تک ان کے قتل پر متعدد بار بحث ہوئی اور اس کے بارے میں لکھا گیا۔ اس موضوع کو کہیں نہ کہیں ملکی یا غیر ملکی طاقتوں کے ساتھ جوڑا جاتا رہا ہے۔ بے نظیر بھٹو کو دہشت گردوں نے گولی ماری تھی لیکن بہت سے دوسرے دعویٰ کرتے ہیں کہ اس سانحے کے پیچھے مبینہ طور پر کوئی اندرونی سازش کارفرما تھی۔ پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کچھ حلقے لیڈروں کو اپنی مرضی سے بناتے اور اپنی مرضی سے ہی ختم کرتے ہیں۔ اس کی تصدیق 90ء کی دہائی میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی آتی جاتی حکومتوں سے ہوتی ہے۔ 2008ء میں بے نظیر بھٹو کا قتل ایک غیر معمولی صورت حال تھی‘ لیکن پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عالمی طاقتوں کے بھی کچھ فیصلے ہوتے ہیں۔ عمران خان کی برطرفی کا موجودہ عجیب کیس بھی کچھ حلقوں کے ساتھ تلخ تعلقات کا نتیجہ ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اُن حلقوں کی ناراضگی کے باوجود تحریک انصاف کی جانب سے اس برطرفی کو عوامی طاقت سے چیلنج کیا گیا بلکہ اب یہ مقابلے پر بھی آمادہ ہے۔ پوری دنیا کی پشت پناہی کے باوجود پاکستان مسلم لیگ (ن) عملی طور پر پنجاب سے باہر ہے۔ اس وقت تک اس کی کسی صوبے میں حکومت نہیں۔ یہ آج تک کی تاریخ ہے۔ اس سیاسی تھرلر کے جو مناظر ہمارے سامنے آنے والے ہیں‘ ان میں دیکھا یہ جانا ہے کہ کیا اس مرتبہ طاقتور‘ عوام کی اکثریت سے لڑ سکیں گے؟ اور اس لڑائی میں اُن کے اپنے دھڑے بھی فریق ہوئے تو کیا ہوگا؟
2۔ متحرک عوام: سابق ادوار میں حکومت کو چلتا کرنے والوں کو فائدہ یہ تھا کہ اُس وقت عوام بے خبر اور غیر متحرک تھے۔ بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی برطرفی پر علامتی احتجاج بھی نہ ہوا۔ عمران خان کی برطرفی پر فقید المثال عوامی ردعمل کا طوفان امڈ آیا۔ اس کی شدت اتنی زیادہ ہے کہ سہولت کاروں کی سراسیمگی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ رمضان‘ عید‘ گرمی‘ برسات‘ محرم آتے جاتے ہیں اور عوام تحریک انصاف کے ساتھ کھڑے ہیں۔ عدم اعتماد کے ووٹ سے لے کر پنجاب اسمبلی کے سپیکر کے فیصلے تک‘ سپریم کورٹ کے فیصلے تک‘ پارٹی کی جانب سے کال دینے سے پہلے ہی عوام جمع ہو جاتے ہیں۔ اور تو اور اب تو بولنے کا خوف بھی تحلیل ہو چکا۔ اب تو براہِ راست تنقید کا رواج چل نکلا ہے۔ ایسے ایسے نام لیے جا رہے ہیں جو پہلے نہیں لیے جاتے تھے۔ اگر یہ چند لوگ ہوتے تو ماضی کی طرح ان کی پکڑ دھکڑ شروع ہو جاتی۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ ذرا سوچیے کہ جب عمران ریاض خان کو گرفتار کیا گیا اور ان پر طرح طرح کے مقدمات درج کیے گئے تو عوام کا کیا ردعمل ہوا؟ مقدمے بنوانے والوں کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ اور ایسا شاید پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔
3۔ حکومتی ٹولے کا چناؤ: رعونت ذہانت کو کھا جاتی ہے۔ شاید منصوبہ سازوں کا خیال تھا کہ عوام 13پارٹیوں کے اتحاد کو بطور حکومت قبول کر لیں گے اور ان کی غلطیوں کا الزام سابق حکومت پر عائد ہونے دیں گے۔ یہ امر عوام کے سیاسی شعور کو پس پشت ڈالنے کے مترادف تھا۔ موجودہ حکومتی ٹولے نے حکومت کرنے کے لیے متعدد باریاں لی ہیں۔ ان سب کو کابینہ میں شامل کرنا ایک ایسا منظر ہے جسے قبول کرنا زیادہ تر لوگوں کے لیے مشکل ہے۔ ان کے بجائے اگر کوئی ٹیکنوکریٹ حکومت میں شامل کیا ہوتا تو عوامی قبولیت کی شاید کچھ امید ہوتی۔ شوکت عزیز وغیرہ جیسے لوگوں کو موقع دیا جاتا لیکن موجودہ حکومتی ٹولے کو اقتدار پر بٹھانا اتنا ناقابلِ قبول عمل تھا کہ سیاسی سرگرمیوں سے لاتعلق لوگ بھی متحرک ہوگئے ہیں۔
4۔ انتہائی فرماں بردار: کہا جاتا ہے کہ طاقتوروں کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں کوئی دوسرا راستہ نہیں آتا۔ وہ من مانی کرتے ہیں۔ وہ محض حکم دینے کے عادی ہوتے ہیں۔ ضرورت پڑنے پر دھمکیوں سے بھی کام نکلوا لیتے ہیں۔ یہ کام کرنے کے لیے وہ دوسروں کو استعمال کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے اوروں کو مطیع کر لیا جاتا ہے۔ جو چیز اس منصوبے کو زک پہنچا رہی ہے‘ وہ چہرے سے نقاب سرکنا ہے۔ ہر چیز کی پیش گوئی کی جارہی ہے۔ اس مایوسی اور پریشانی کی وجہ سے اب ایسا طرزِ عمل اختیار کر لیا گیا ہے جس سے تمام کھیل ہی بگڑ گیا ہے۔ تحریک انصاف کے خلاف حالیہ فارن فنڈنگ کیس کی مثال لے لیں۔ دکھائی دے رہا ہے کہ ایسا بہت زیادہ دباؤ کے تحت کیا گیا‘ نتائج غلط اور کئی جگہوں پر مضحکہ خیز مواد ہے۔ رپورٹ پوسٹ میں اضافہ کیا گیا ہے جسے عوام کے سامنے لانے پر بہت بڑا ردعمل سامنے آیا ہے۔
نیٹ فلیکس پر زیادہ تر سیاسی تھرلر‘ جیسا کہ ہاؤس آف کارڈز طاقت کے مراکز کے بے رحم نظام کو دکھاتے ہیں جو ہر کسی کو ایک ہی سمت میں ہانکتے ہیں۔ کسی کو دوسرے راستے پر چلنے کی اجازت نہیں دیتے۔ پاکستان میں ہم ایک زندہ سیاسی تھرلر کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ جب پنجاب اسمبلی کے سپیکر کے فیصلے پر سپریم کورٹ کا فیصلہ سنایا جانا تھا تو پاکستان اور پوری دنیا میں لوگ دھڑکتے دلوں کے ساتھ ٹی وی سے چپکے ہوئے تھے۔ بہت سے قنوطی افراد کا خیال تھا کہ ان کا بھی بندوبست کر لیا جائے گا۔ پنجاب کے بیس حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے بارے میں بھی یہی کچھ کہا گیا۔ لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ اب اس تحریک انصاف کو سیاسی عمل سے نکال باہر کرنے کی منصوبہ بندی ہورہی ہے۔ ممکن ہے کہ ایسا ہو بھی جائے لیکن شاید اس کے نتیجے میں کسی اور کا بھی بندوبست ہو جائے۔ عوامی جذبات اس حد تک پہنچ جائیں جیسے ہم نے سری لنکا میں دیکھے تھے۔ آئیے ہم امید کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ پاکستان کی 75 ویں سالگرہ پر اس کے سنبھالنے والے اور اس کے حکمران پاکستان کے شہریوں کو حقیقی آزادی‘ امن اور خوشحالی فراہم کرنے کے لیے جدوجہد کریں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں