مائنس ون بمقابلہ مائنس آل

مائنس ون صفر کے برابر ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ آپ کہیں کہ ریاضی میں تو ایسا نہیں ہوتا۔ درست‘ لیکن سیاست میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ یہ عجیب دور ہے۔ ملک افراتفری کا شکار ہے‘ معیشت عوام سے متصادم ہے‘ عوام حکومت سے متصادم ہیں‘ حکومت صرف ایک شخص‘ عمران خان سے متصادم ہے۔ حکومت‘ عالمی طاقتیں اور مقامی طاقتیں‘ سب ایک بات پر متفق ہیں کہ اس ایک کو مائنس کر دیا جائے۔ معیشت عمران خان کی وجہ سے منہدم‘ سیلاب عمران خان کی وجہ سے بے قابو‘ عوام میں عمران خان کی وجہ سے بے چینی‘ سیاسی عدم استحکام عمران خان کی وجہ سے‘ عطیات فراہم کرنے والے عمران خان کی وجہ سے عطیات نہیں دے رہے۔ گویا ایک شخص کا خبط ان کے ذہن پر اس بری طرح سوار ہے کہ معیشت کو بہتر بنانے‘ سیلاب پر قابو پانے اور عوامی اشتعال کم کرنے کے لیے ان کے پاس ایک ہی منطق دکھائی دیتی ہے ''مائنس ون‘‘۔ اور‘ جیسا کہ وہ کہتے ہیں‘ ملک کا واحد ''فتنہ‘‘ عمران خان ہی تو ہیں۔
عمران خان کو دبانے کی جتنی کوشش کرتے ہیں‘ اتنی ہی اُن کی حمایت بڑھتی جاتی ہے‘ اور وہ اسے تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں چنانچہ دولت‘ طاقت اور تشددکا فارمولا آزمایا جارہا ہے۔ شہباز گل کے بعد عمران خان کے ایک اور ساتھی‘ سیف اللہ نیازی کے ٹھکانے پر چھاپا مار کر ان کا لیپ ٹاپ‘ فون اور دیگر اشیا قبضے میں لے لی گئیں۔ ان کی اہلیہ کا فون اس کے دو بچوں کے سامنے چھینا گیا۔ مائنس ون پالیسی پر عمل جاری ہے‘ لیکن اس کا نتیجہ مختلف نکل رہا ہے۔
1۔ اداروں کو مائنس کریں: پی ڈی ایم کی ترجیحات بہت واضح تھیں۔ اگرچہ کہا گیا تھا کہ مہنگائی اور معیشت کی وجہ سے اُنہوں نے تحریک انصاف کا تختہ الٹا لیکن ابھی عوام کو ریلیف دینے کے لیے نہ کوئی بحث کی گئی‘ نہ قرار داد اور نہ ہی بل پیش کیا گیا ہے۔ صنعتی سرگرمیوں کی بحالی کے لیے کوئی پالیسی سازی نہیں کی گئی۔ بنیادی طور پر صرف دو اداروں پر قانون سازی ہوئی‘ ایک نیب ہے اور دوسرا الیکشن کمیشن۔ موجودہ حکومت نے بہت کامیابی سے نیب کے پر کتر دیے ہیں تاکہ وہ بدعنوانی کے جرائم کی تحقیقات نہ کر سکے۔ اس سے 90 فیصد ہائی پروفائل کیسز کو فائدہ پہنچا۔ تشریحات کے زمرے میں بہت سی تبدیلیاں کی جارہی ہیں۔ کسی مشتبہ شخص کے ''اثاثے‘‘ اور ''جائیداد‘‘ کی تعریف یہ کی جاتی تھی جو اس کے یا اس کے کسی عزیز کے نام ہوں۔ اب اس تعریف کو تبدیل کردیا گیا ہے۔ اب اس کی جائیداد اور اثاثے صرف وہی ہیں جو اس کے اپنے نام پر ہوں۔ اس تبدیلی کا مطلب ہے کہ تمام شریف خاندان اربوں ڈالر اثاثوں کے کیس سے بری الذمہ ہوگیا کیوں کہ وہ تو ان کے بچوں کے نام پر ہیں۔ اسی طرح سمندر پار پاکستانیوں کی آئی ووٹنگ اور الیکٹرانک ووٹنگ کو بھی تبدیل کیا جا چکا ہے۔ اس کی وجہ سے یہ دونوں ادارے بظاہر اب بدعنوانوں کی پناہ گاہیں بن چکے ہیں۔ جہاں تک انتخابات کا تعلق ہے تو پی ڈی ایم دھاندلی کی تمام تر کاوشوں کے باوجود تمام ضمنی انتخابات ہار گئی۔
2۔ کارکنوں کو مائنس کریں: پی ڈی ایم کا دوسرا سب سے بڑا ہدف تحریک انصاف کے مرکزی دھارے کے کارکن تھے۔ پچیس مئی کے لانگ مارچ سے پہلے اس کے اہم کارکنوں کی فہرست تیار کی گئی۔ ان کے گھروں پر متعدد چھاپے مارے گئے۔ خواتین‘ بچوں اور بوڑھوں تک میں کوئی تفریق نہ کی گئی۔ پارٹی کے اہم کارکنوں پر مختلف مقدمات درج کیے گئے تاکہ اُنہیں تحریک کی عملی سرگرمیوں سے الگ کیا جائے۔ اس وقت عمران خان پر ہی بیس سے زائد مقدمات ہیں۔ اُن پر ہر وہ الزام عائد کیا جا چکا جس کا تصور کیا جا سکتا ہے۔ جب پنجاب حکومت اُن کے ہاتھ سے نکل گئی‘ اُن کی سرگرمیوں کا مرکز اسلام آباد بن گیا۔ اسی طرح شہباز گل کی گرفتاری عمل میں آئی۔ اس کا مقصد کارکنوں کو خوفزدہ کرنا تھا تاکہ پارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ منہدم ہو جائے۔ چھاپوں کے تازہ ترین اہداف صرف کارکن ہی نہیں عام دکاندار بھی ہیں۔ ہر اُس شخص کو پریشان کیا جا رہا ہے جس کا تحریک انصاف سے ذرا سا کوئی تعلق نکلتا ہے۔ اب شاید پنجاب میں اراکینِ اسمبلی کی ہارس ٹریڈنگ کا بھی منصوبہ ہے۔ لیکن پارٹی کے گرفتار ہونے والے ایک کارکن کی جگہ بہت سے دیگر پارٹی کی صفوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اس وقت مرد و خواتین کی طویل قطاریں ہیں جو جوق در جوق تحریک انصاف میں شامل ہورہے ہیں۔ یہ لوگ ماضی میں سیاسی سرگرمیوں سے دور تھے لیکن اب عملی کردار ادا کرنے کے لیے میدان میں قدم رکھ رہے ہیں۔ ان میں ڈائزائنر‘ اداکار‘ فن کار‘ کاروباری افراد بھی شامل ہیں جو روایتی طور پر غیر سیاسی رہتے تھے۔ اب یہ لوگ کھل کر تحریک انصاف کی حمایت کررہے ہیں۔
3۔ میڈیا کو مائنس کریں: میڈیا کی زبان بندی کی جارہی ہے۔ تحریک انصاف کی سرگرمیوں کا بلیک آؤٹ ایک معمول ہے۔ اینکرز کو گرفتار کرنے اور دھمکیاں دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ پہلی بار چینلز کے لائسنس منسوخ کیے گئے۔ عمران خان کو مائنس کرنے کی کوشش میں ان کی تقاریر پر پابندی لگا دی گئی۔ جب تقاریر یوٹیوب پر لائیو ٹیلی کاسٹ ہوئیں تو اسے بند کر دیا گیا۔ جس دوران وہ مین سٹریم میڈیا پر عمران خان کو مائنس کر رہے ہیں‘ متبادل میڈیا پر ان کے سامعین بڑھتے جارہے ہیں۔ دو جلسوں کے ناظرین پر ایک نظر ڈالیں‘ پہلا فیصل آباد اور دوسرا گوجرانوالہ۔ مین سٹریم میڈیا کو بین کیا تو لوگ متبادل میڈیا کی طرف چلے گئے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ لوگوں کی آواز پر ایک جگہ پابندی لگائیں گے اور بند کریں گے تو لوگ دوسری جگہ تلاش کر لیں گے۔ مین سٹریم میڈیا پر اس کا ردعمل ہو رہا ہے۔ شاید ہی کوئی اسے دیکھ رہا ہو۔ میڈیا سے لوگوں کا روزگار وابستہ ہے جبکہ میڈیا کو جس طرح ہینڈل کیا جا رہا ہے اس سے مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا۔
4 ۔ عوام کو مائنس کریں: ان تمام مائنس کا مقصد عمران خان کو ملنے والی عوامی حمایت کا راستہ روکنا تھا۔ جو راستہ اختیار کیا گیا وہ عام لوگوں کو بھی سزا دینا تھا۔ ٹویٹر اور فیس بک پوسٹس جو لڑکوں کی طرف سے عام کی جاتی ہیں‘ ان پر بھی ہراساں کیا جاتا ہے اور دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ احسن اقبال کا بھیرہ کا واقعہ‘ جہاں ایک خاندان نے ان کے خلاف نعرے لگائے‘ اس کے بعد خاندان کو معافی مانگنے پر مجبور کیا گیا۔ عطا تارڑ کا مذاق اڑانے والے چار لڑکوں کو جیل بھیج دیا گیا۔ اس نے عوام کو مشتعل کیا اور وہ پی ٹی آئی کی حمایت میں مزید دلیر ہوگئے۔
جب سب کچھ ناکام ہو گیا تو مذہبی داؤ آزمایا گیا۔ ہر مائنس کا نتیجہ عمران خان کے حق میں مثبت ہوا ہے۔ اسی لیے ''مائنس ون‘‘ کا تازہ ترین وار توہینِ مذہب کے الزامات ہیں۔ عمران خان کے مذہبی عقائد پر سوال اٹھانے کے لیے ایک موجودہ وزیر کی جانب سے ٹیکس دہندگان کے فنڈز سے چلنے والے سرکاری ٹی وی پر غیرقانونی مہم چلائی گئی۔ یہ مائنس کرنے کی آخری کوشش ہے ۔ نفرت اور تشدد کو بھڑکانے کے لیے انہیں اس طرح انجینئر کرنے کی کوشش کرنا قانون سازی اور اخلاقیات کے معاملات ہیں۔ پہلے ہی سوشل میڈیا پر تشدد کی آگ بھڑکانے کے خلاف ردِ عمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
دیکھا جا سکتا ہے کہ مائنس ون کا خبط کن حدوں کو چھو رہا ہے لیکن دو منفیوں کا حاصل ضرب مثبت ہوتا ہے۔ لیکن پھر خوف اور عدم تحفظ عقل و فہم کو ماؤف کردیتے ہیں۔ صرف کھلے اور بے خوف ذہن ہی تخلیق اور سوچ کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ عوامی جوش و جذبے کی ابھرتی ہوئی لہر نے اداروں کو بے انتہا خائف کر رکھا ہے۔ معیشت گرداب میں ہے۔ اس پر کسی کا بس نہیں چل رہا‘ کسی کو سمجھ نہیں آرہی کہ اب کیا کیا جائے۔ دوسری طرف عمران خان‘ عدم اعتماد کی تحریک کے بعد‘ ایک گھرے ہوئے شیر کی طرح انہیں للکارتے ہوئے لانگ مارچ کی کاری ضرب لگانے کا اعلان کر رہے ہیں۔ مائنس ون بمقابلہ مائنس آل میچ کا آخری راؤنڈ شروع ہو چکا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں