بے سمت خارجہ پالیسی

دوست دور ہوتے جا رہے ہیں‘ ہمسائے ناراض‘ عالمی معاملات فوری توجہ کے متقاضی ہیں۔ چھ ماہ پہلے پاکستان ان حالات کا شکار تو نہ تھا‘ پاکستان تو او آئی سی کی مشاورت گاہ بن چکا تھا۔ اس نے تو افغانستان میں تبدیلی میں قائدانہ کردار ادا کیا تھا۔ وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان رابطے کی قیادت اس کے ہاتھ میں تھی۔ لیکن یہ کیا ہوا؟ چھ ماہ میں دوست ہم سے دور ہونے لگے۔ اور اس کا اعتراف کسی اور نے نہیں بلکہ وزیرا عظم نے خود کیا ہے۔ چھ ماہ میں افغانستان جیسا ہمسایہ ملک ہم سے ناخوش ہے۔ او آئی سی کے وعدے کہیں ہوا میں بکھر گئے ہیں۔ رابطے کی وسطی ایشیائی پیش رفت ایک مرتبہ پھر کچھ رسمی ابلاغ اور ایم او یو تک محدود ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کا حالیہ اجلاس پاکستان کے لیے اپنی موجودگی کا احساس دلانے کا اچھا موقع تھا۔ کئی اہم عالمی کھلاڑیوں سے ملاقات کرنے اور تصورات‘ خیالات اور دوطرفہ اور کثیر جہتی اقدامات کا تبادلہ ہو سکتا تھا لیکن یہ موقع محض ہاتھ ملانے اور رسمی ملاقاتوں کی نذر ہوگیا۔ وزیراعظم پاکستان کو توجہ ضرور ملی‘ لیکن اس کی وجوہات کچھ اور تھیں۔ ان کی ایک وڈیو‘ ایک مشہور امریکی شو کی وجہ سے وائرل ہوگئی جس میں پروگرام کا میزبان وزیراعظم پاکستان کی نقل اتارتا ہے جب وہ پوتن کے ساتھ ملاقات کرتے ہوئے ائیرفونز درست کر رہے تھے۔ خیر یہ مزاح تھا‘ لیکن وزیراعظم یا وزیر خارجہ نے نہ کوئی ٹھوس بیان دیا‘ نہ کوئی سنجیدہ مذاکرات کیے۔ اس وقت جب پاکستان کو عالمی توجہ‘ ہمدردی اور تعاون درکار ہے‘ تزویراتی شراکت داری قائم کرنے اور عالمی سطح پر اپنا مقام بنانے کی شدید ضرورت ہے:
1۔ خارجہ پالیسی میں تسلسل برقرار رکھیں: ضروری نہیں کہ تمام رہنما خارجہ پالیسی کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوں۔ تمام رہنما اس پیچیدہ شعبے کی تفہیم نہیں رکھتے۔ ذوالفقار علی بھٹو اپنے دور کے بے مثال لیڈر تھے۔ سابق صدر پرویز مشرف بھی بین الاقوامی توجہ اور حمایت حاصل کرنے کے ماہر تھے۔ مگر دوسری طرف آصف علی زرداری اور شریف برادران نے مختلف ادوار میں ملک پر حکومت کرنے کے باوجود اس انتہائی اہم شعبے پر غیرمعمولی عدم دلچسپی اور توجہ کا فقدان دکھایا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت خارجہ پالیسی کے حوالے سے بہت پرجوش تھی اور اس دور میں پاکستان نے بین الاقوامی میدان میں اپنا قد بڑھایا۔ بلاول بھٹو بحیثیت وزیر خارجہ ایک ایسے رہنما دکھائی دیتے ہیں جنہیں قبل از وقت اس سیٹ پر بٹھا دیا گیا ہے۔ وہ قیادت کرتے ہوئے امور خارجہ میں پاکستان کے لیے امکانات تلاش کرنے کے بجائے غیر متحرک اور غیر فعال دکھائی دیے۔ اس لیے ضروری ہے کہ یا تو وہ اپنے طرزِ عمل میں مکمل تبدیلی لائیں یا پھر یہ ذمہ داری اختیارات دے کر وزیر مملکت حنا ربانی کھر کے سپرد کردی جائے تاکہ ملک کے ہاتھ سے نکل جانے والے وقت اور مواقع کی تلافی کی جا سکے۔
2۔ پالیسی کی سمت پر اتفاقِ رائے: گزشتہ تین برسوںسے کی جانے والی کلیدی کوششوں میں سے ایک قومی سلامتی کی دستاویز کو تمام سٹیک ہولڈرز کی مدد سے تیار کرنا تھا جس کی مرکزی توجہ خارجہ پالیسی پر مرکوز تھی۔ دفتر خارجہ نے قومی سلامتی کے مشیر کے ساتھ مل کر سٹریٹجک کمیونیکیشن اپیکس کمیٹی بنائی تھی جس میں سکیورٹی ادارے‘ دفتر خارجہ اور متعلقہ وزارتیں شامل تھیں۔ ان سب نے اس قسم کی پہلی دستاویز میں مدد کی جسے سکیورٹی ڈائیلاگ کانفرنس میں پیش کیا گیا تھا۔ اب سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے پاس بین الاقوامی مسائل پر کوئی سمت نہیں۔ ان کے بیانات غیر واضح ہیں۔ علاقائی یا عالمی سطح پر کوئی رجحان یا موقف سامنے نہیں لائی۔ سکیورٹی ڈائیلاگ کانفرنس میں تمام سٹیک ہولڈرز کی جانب سے جو بڑی تبدیلی بیان کی گئی وہ یہ تھی کہ پاکستان جیو پالیٹکس سے جیو اکنامکس کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ سیاسی مصلحتوں سے ہم آہنگ ہونے کے بجائے وہ فیصلے کریں گے جو ملک کی معاشی ترقی کے مطابق ہوں گے۔ دوسرے ممالک کے علاقائی تنازعات میں جانے سے گریز کا خصوصی ذکر کیا گیا تھا۔ اسی لیے تیل کی قیمتیں بڑھنے پر اس پالیسی کے تحت روس سے سستا تیل‘ گیس اور گندم خریدنے کے لیے رجوع کرنے کا مشترکہ فیصلہ کیا گیا۔ نئی حکومت کے آنے کے بعد اس اقدام کو روک دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے نے بہت بڑا معاشی بحران پیدا کر دیا ہے۔ وزیراعظم نے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے موقع پر روسی صدر سے ملاقات کی تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں کہ روس سے تیل اور گیس کی خریداری کی حکمت عملی کیا ہے۔ اس غیریقینی صورت حال کو دور کرنے کے لیے خارجہ پالیسی کی سابقہ سمت کے واضح اعادہ کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت ایک مختلف راستہ اختیار کرنا چاہتی ہے تو اس ابہام کو دور کرنے کے لیے اس نئی سمت کو واضح کرے اور تمام سٹیک ہولڈرز کے علم میں لائے۔
3۔ بہترین ممالک اور سفارت خانوں کے ساتھ روابط: خارجہ پالیسی میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ امداد کے بجائے تجارتی روابط بڑھانے پر توجہ دی جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سفارت خانے صرف سرکاری افسران کے غیر ملکی دوروں کے دوران انہیں سہولت فراہم کرنے تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ اُنہیں تجارت کو فروغ دینے کے لیے فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ برآمدات اس وقت گراوٹ کا شکار ہیں۔ ٹیکسٹائل ملوں کو بڑھتی ہوئی لاگت کی وجہ سے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کو تجارت بڑھانے کے لیے جارحانہ مارکیٹنگ کے منصوبے درکار ہیں۔ اس کے لیے سفارت خانوں کو فعال کرنا ہوگا۔ حکومت کو ان اہم ممالک کی نشاندہی کرنی چاہیے جن پر توجہ مرکوز کی جائے۔ کورونا بحران نے سفارت خانوں کا کردار بہت اہم بنا دیا۔ 2020ء میں تاریخ میں پہلی بار اہم سفارت خانوں کے سفیروں اور عملے کو تربیت دی گئی کہ وہ سفارت خانوں میں محض رسمی طور پر نہ بیٹھے رہیں بلکہ اپنی ذہنیت اور طرز عمل تبدیل کرکے اپنے ملک کے برانڈ منیجر بنیں۔ مقامی مارکیٹوں میں پاکستانی مصنوعات کی ضرورت پیدا کریں۔ اسے مزید تندہی کے ساتھ جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ مصنوعات اور خدمات کے فروغ کے لیے سفارت خانوں کو مخصوص اہداف دیے جائیں۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ مقرر کردہ اہداف کو فعال طور پر حاصل کیا جا رہا ہے‘ اس کی باقاعدگی سے نگرانی کی جائے ۔
4۔ حمایت کے لیے لابنگ کی اہمیت: پاکستان نہ صرف وسطی ایشیائی منڈیوں بلکہ اسلامی دنیا میں بھی ایک رہنما کے طور پر ابھر رہا ہے۔ 15 سال کے وقفے کے بعد 2022ء کی پہلی سہ ماہی میں منعقد ہونے والے او آئی سی کے دو سربراہی اجلاس مسلم دنیا میں پاکستان کی آواز کو اہمیت دے رہے تھے۔ پاکستان کی کوششوں کے نتیجے میں اقوام متحدہ کی جانب سے 15 مارچ کو اسلامو فوبیا ڈے کے طور پر تسلیم کرنا اس حیثیت کی تصدیق ہے۔ یکایک یہ آواز خاموش ہوگئی ہے۔ اسلامی ممالک کو فون تو کیے جارہے ہیں لیکن یہ خارجہ پالیسی کے معاملات سے زیادہ مالی امداد کے لیے ہیں۔ وزیراعظم‘ وزیر خارجہ خارجہ پالیسی کے معاملات کو غیر متعلقہ نہ ہونے دیں۔ اگر پاکستان کو کشمیر‘ فلسطین وغیرہ کے مسائل پر رہنمائی کے لیے نہیں دیکھا گیا تو عالم اسلام پاکستان کو معمولی اہمیت نہیں دے گا۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ خارجہ پالیسی کے مشیروں کا ایک گروپ تشکیل دیا جائے جو اہم‘ علاقائی‘ اسلامی اور عالمی معاملات پر ٹھوس اور فعال منصوبہ بندی اور سمت کے ساتھ سامنے آئے۔
دنیا اُن کو کوئی اہمیت نہیں دیتی جو عالمی معاملات پر کوئی موقف اختیار نہیں کرتے اور ان کی کوئی سوچ اور اس کا اظہار نہیں ہوتا۔ اپنے ہمسایوں پر ایک نگاہ ڈالنے سے ہمیں خارجہ پالیسی کے صحیح اور غلط ہونے کی بابت ایک سبق مل سکتا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ بہت سی اقوام‘ جیسا کہ افغانستان کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیوں کہ ان کی قیادت کوئی واضح موقف اختیار نہیں کر سکتی جبکہ ان کے عوام غیرملکی پالیسی کی مداخلت کے خلاف دلیری سے جنگ لڑتے ہیں۔ دوسری طرف ایران‘ چین اور حتیٰ کہ بھارت کا عالمی موقف واضح اور دوٹوک ہے۔ امریکی ناراضی اور پابندیوں کے باوجود ان ممالک نے اس سے کہیں بہتر کارکردگی دکھائی ہے جتنی مالی مفاد کی خاطر عالمی طاقت کی غلامی کرنے والوں نے۔ ایسا کرتے ہوئے اُنہوں نے اپنے ملک کے اصل مفاد کو زک پہنچائی۔ اگر کسی ملک کو دنیا میں اپنا مقام بنانا ہے‘ اگر وہ عالمی قد کاٹھ چاہتا ہے تو اسے ایسی خارجہ پالیسی بنانے سے گریز کرنا ہوگا جو ''خارجہ‘‘ طاقتوں کی مرضی‘ اشیر باد اور منشا کے مطابق بنائی گئی ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں