کیا منافقت کا دور تما م ہونے جا رہا ہے؟

نقل کو اصل جیسا بنا لیں‘ اس کی ہوبہو نقل تیار کر لیں‘ دیکھنے میں حقیقت دکھائی دے۔ ہم یہی تماشا دیکھتے بڑے ہوئے ہیں۔ ہمیشہ توجہ اس پر ہوتی ہے کہ یہ چیز ''دیکھنے میں‘‘ کیسی ہے‘ نہ کہ یہ دراصل کیا ہے۔ رجحان یہ ہے کہ ''آپ وہ نہیں ہیں‘‘ جو آپ دراصل ہیں۔ دوسروں کو بے وقوف بنانے کی صلاحیت سے آپ کی ''ذہانت‘‘ اور ''مہارت‘‘ کی جانچ ہوتی ہے۔ سیاست میں اس ہنر کو ''عقل مندی‘‘ کہا جاتا ہے۔ شعبدہ باز فنکاروں کے کرشمے ہر جگہ دکھائی دیتے ہیں۔ کاروبار کرنے والی کمپنیاں شکایت کرتی ہیں کہ ان کے برانڈز کی نقل فروخت ہو رہی ہے۔ کم و بیش تمام برانڈز کی نقل بذاتِ خود ایک صنعت بن چکی ہے۔ بہت سے لوگ نقول تیار کرنے والوں کے معترف بھی ہیں۔ وہ ان کی ''نقل بمطابق اصل‘‘ تیار کرنے کی مہارت سے بہت متاثر ہیں۔ معاشرے کو شکایت ہے کہ عام زندگی‘ سماجی تعلقات‘ ملازمت اور تعلیم میں دھوکا دہی اور چکمابازی کا راج ہے۔
''دکھاوے‘‘ کی بیماری شاید ہی کسی اور جگہ اتنی گہری ہو جتنی سیاست میں ہے۔ دنیا بھر‘ خاص طور پر پاکستان کے سیاست دانوں نے تو دھوکا بازی کی ڈگری حاصل کررکھی ہے۔ ان کی مہارت کی مہر ''دکھاوا کرنا‘‘ ہے۔ اس کے بغیر کوئی سیاست دان کہیں نہیں پہنچ سکتا۔ لیکن پھر ہماری ''کہیں پہنچنے‘‘ سے مراد کیا ہے؟ معاشرے میں حیثیت اور مرتبہ ملمع کاری سے طے پاتا ہے۔ اس کا تعین آپ کے کردار کی گہرائی سے نہیں بلکہ آپ کے اکاؤنٹ کے حجم سے ہوتا ہے۔ جن گاڑیوں میں آپ سفر کرتے ہیں‘ جو فون آپ استعمال کرتے ہیں‘ جو برانڈ آپ پہنتے ہیں‘ جو حیثیت آپ کو حاصل ہے وہ اس سے کہیں زیادہ اہم اور فیصلہ کن ہے جو دراصل آپ کا کردار اور صلاحیت ہے۔ مہنگی کاروں‘ مہنگی گھڑیوں اور مخصوص نمبر پلیٹوں کی چمک دیکھنے والوں کی نظروں کو اس طرح چندھیا دیتی ہے کہ اصل کردار نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ دکھاوے کی اس دنیا میں سیدھے سادے سیاست دانوں کا مذاق اُڑایا جاتا ہے‘ اُنہیں منصب سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ خوش قسمتی سے پاکستان میں اس وقت اس مذاق کو چیلنج کیا جارہا ہے۔ آج اس منافقت کا پردہ چاک ہورہا ہے۔ ان اساطیر کے بت ٹوٹ رہے ہیں:
1۔ سیاست دکھاوے کی دنیا ہے: جو دکھائی دیتا ہے وہی بکتا ہے۔ سیاست میں جو دیکھتے ہیں وہی مانتے ہیں۔ اسی لیے سیاستدان کا سب سے اہم ساتھی اس کا فوٹوگرافر ہوتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی ضرورت سیلفی اور وائرل ہونے والی بریکنگ نیوز ہوتی ہے۔ سیاست دانوں کی سب سے اہم مصروفیت دکھائی دینا‘ سنائی دینا اور چرچا ہونا ہے۔ جذباتی دکھاوے کے ماہر سیاستدان مشکل ووٹروں کی حمایت بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ اداس چہرہ‘ محرومی میں لپٹی تصویر‘ سیلابی پانی میں جا اترنے کے مناظر‘ گال پر آنسو کا قطرہ گرم خبر بن کر ہمدردی اور انتخابی کامیابی سمیٹ سکتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ قصۂ پارینہ بن چکا۔ باشعور اور جدید ٹیکنالوجی میں مہارت رکھنے والے نوجوان‘ فعال اور ہر جگہ سرایت کرنے والا سوشل میڈیا اور فوٹو شاپ شدہ مواد کو پکڑنے والی ٹیکنالوجی اصل اور جعلی کو سیکنڈوں میں الگ کر سکتی ہے۔ یہ کوریج اب اتنی زیادہ ہے کہ سیاستدان کو اس بات کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ کیا دکھایا جائے اور کیا نہ دکھایا جائے۔ حال ہی میں ایک کلپ وائرل ہوا جس میں سابق وزیراعظم عمران خان چائے میں روٹی ڈبو رہے ہیں جس میں ان کی سادگی دکھائی دے رہی ہے۔ عمران خان کی یہ ویڈیو اتنی وائرل ہوئی ہے کہ متاثر ہو کر لوگ اب ''چائے اور روٹی‘‘ کھانے کی اپنی ویڈیوز بنا رہے ہیں۔ اس طرح آج کی دنیا میں دکھائی جانے والی تصویر تاثر بناتی بھی ہے اور بگاڑتی بھی ہے۔
2۔ جھوٹ کی ملمع کاری کے لیے پروپیگنڈا: ہٹلر کے دور میں گوئبل کی حکمت عملی تین چوتھائی صدی تک مقبول رہی۔ جھوٹ کو اتنا دہرائیں کہ جھوٹ سچ بن جائے۔ میڈیا کا کنٹرول اہم ہتھیار تھا۔ کئی دہائیوں سے سیاست دانوں نے اپنا مخصوص تاثر پیدا کرنے کے لیے اسے مؤثر طریقے سے استعمال کیا۔ بھٹو نے اس خاندانی تصور کو کمال تک پہنچایا۔ باپ اور ان کی بیٹی‘ اور پھر شوہر اور اب بیٹا‘ سبھی کو عوام نے خاص طور پر سندھ میں بھٹو کی میراث کے صحیح وارث کے طور پر قبول کر لیا۔ جہاں بھٹو خاندان نے بھٹو ازم کے ذریعے خاندانی سیاست کو معمول بنایا‘ شریف خاندان نے اس مشہور قول ''کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے‘‘ کے ذریعے خورد برد کو عوامی بنا دیا۔ تاثر عام کیا گیا کہ اگر وہ اپنے لیے پیسہ نکالتے ہیں تو عوام پر بھی خرچ کرتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ پھیلائے جانے والے یہ نعرے لوگوں کے لیے قابلِ قبول ہوتے چلے گئے اور وہ اُنہیں نظام کا حصہ تسلیم کرنے لگے۔ یہاں ایک بار پھر مصنوعی ذہانت اور سمارٹ فونز کے دور میں ان روایات کو چیلنج کیا گیا۔ عمران خان 26 سال سے اس دکھاوے کے کلچر کے خلاف بات کر رہے تھے لیکن یہ صرف پچھلی ایک دہائی میں ہی ہوا تھا کہ نوجوان نسل کو غیر مساوی دنیا میں جینے کی اذیت کا احساس ہونے لگا۔ شریف خاندان کی منی لانڈرنگ پر بی بی سی کی بنائی گئی دستاویزی فلموں پر بحث ہوئی۔ پانامہ لیکس نے اسے بے نقاب کر دیا اور عدالتوں میں دو سال تک چلنے والا کیس بالآخر سچ سامنے لے آیا۔ میڈیا نے پچھلے اور حال کے بیانات اور سٹیٹس کو خوب اجاگر کیا۔
3۔ لوگوں کو جب تک پتا چلے گا‘ بہت دیر ہو چکی ہوگی: ایک اور افسانوی خیال یہ رہا ہے کہ کیے گئے وعدے انتخابات کے لیے ہوتے ہیں اور اقتدار میں آتے ہی وہ وعدے ماضی میں دفن ہو جاتے ہیں۔ کھوج لگانے اور پھر وعدہ خلافی عوام کے نوٹس میں لانے کے لیے طویل وقت درکار ہوتا تھا۔ لیکن اب تیز سرچ انجنوں اور ٹک ٹاک جیسے بہت تیزی سے پیغام پھیلانے والے پلیٹ فارمز کے ساتھ نہ صرف پیغام جلدی پھیلتا ہے بلکہ اس پر فیڈ بیک بھی ملنا شروع ہو جاتی ہے۔ جب ایک سیاست دان بیان دے رہا ہوتا ہے تو پروگرام ختم ہونے سے پہلے اس کے جھوٹ کو بے نقاب کرنے والے میمز اور ویڈیوز آ جاتے ہیں۔ عوام میڈیا اور سیاستدانوں سے آگے ہیں۔ ذرا وزیراعظم اور ان کے وفد کے امریکہ کے موجودہ دورے کو دیکھیں۔ یہ سمندر پار پاکستانی تھے جو ٹیکس دہندگان کے پیسے سے کرایے پر لیے گئے ہوٹلوں کی ویڈیوز بنا رہے تھے اور اس کا موازنہ سابق وزیراعظم عمران خان سے کر رہے تھے جو ٹیکس دہندگان کے پیسے بچانے کے لیے سفارت خانے میں قیام کرتے تھے۔ اس طرح عوام اب سیاست دانوں کی طرف سے پھیلائی گئی گمراہ کن خبروں کی حقیقت سے واقف ہوتے ہیں۔
4۔ آپ سپرپاور کی حمایت کے بغیر اقتدار میں نہیں آ سکتے: شاید سب سے بڑا اساطیری بت جو ٹوٹا ہے‘ وہ یہ کہ آپ پاکستان میں امریکہ کی مدد کے بغیر اقتدار میں نہیں آ سکتے۔ یقینا اللہ رب العزت کی ذات بابرکات تو حقیقی‘ مستقل اور ابدی ہے لیکن پنجاب اور سندھ میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں طاقتوروں کا اثر تحلیل ہوتا دکھائی دیا۔ سازش اور حکومتی طاقت کے باوجود تحریک انصاف جیت گئی۔ اس نے عوام میں اعتماد پیدا کیا ہے۔ اب وہ ان طاقتوں سے سوال پوچھ رہے ہیں جن کے سامنے زبان نہیں کھولی جا سکتی تھی۔ ملک کو روایتی انداز میں چلانے کے طریق کار کو چیلنج کیا جارہا ہے۔
دکھاوے میں مسئلہ یہ ہے کہ اس سے پیدا کیا جانے والا تاثر دیر پا نہیں ہوتا۔ تاہم ہمارے ہاں صورت حال اس کے برعکس ہے۔ یہاں قول و فعل میں انتہائی تضاد کے باوجود لوگ بچ نکلتے ہیں۔ مغربی معاشرے میں منافقت پر سخت سزا دی جاتی ہے۔ بورس جانسن اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ کورونا پابندیوں کے دوران گھر پر رہنے کی پرجوش اپیلیں کرنے کے بعد ان کی ایک پارٹی میں دوستوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے ویڈیو وائرل ہوئی تھی۔ اس منافقت پر پارٹی اور عوامی دباؤ اتنا زیادہ تھا کہ استعفیٰ دینا پڑا۔ پاکستان میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم اچھی بات یہ ہے کہ اب ایسے رویوں کو چیلنج کیا جا رہا ہے‘ اس کی مذمت کی جا رہی ہے۔ قول و فعل میں تضاد رکھنے والوں کا احتساب ہونا چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سماج اور قوم اٹھ کھڑی ہو اور اس کے لیے جدوجہد کرے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں