غیر سرکاری خفیہ ’’ایکٹ‘‘

شرطیں باندھی گئیں‘ اندازے لگائے جاتے رہے‘ مستقبل جاننے کے لیے کارڈ کھولنے کا سلسلہ جاری رہا‘ ہتھیلی کی لکیریں تک پڑھ ڈالیں‘ اور تو اور ستارہ شناسوں نے بھی دور خلاؤں کو اپنی عقابی نظروں سے ٹٹولا۔ لاتعداد افراد ان فنون کی دھونی رچائے بیٹھے تھے۔ تجسس یہ تھا کہ کون بنے گا نیا چیف آف آرمی سٹاف۔ یہ بات گزشتہ چند مہینوں سے تسلسل اور تواتر سے کی جارہی تھی۔ ٹی وی ٹاک شوز میں اسی موضوع کی گونج تھی۔ سیاست دان اس پر بلا توقف تبصرے کیے جارہے تھے۔ سوشل میڈیا پر بھی یہی موضوع چھایا ہوا تھا۔ تجزیہ کار اس پر ہر گھڑی ایک نیا وی لاگ نیٹ پر پھینک رہے تھے۔ نجومی اپنی پیش گوئیاں ارزاں کررہے تھے۔ عوام اس مسئلے کو اپنے سر پر اتنا سوار کر چکے تھے گویا ملک کے مستقبل کی ڈوری اسی کے ساتھ بندھی ہے۔ اور ممکن ہے کہ ایسا ہی ہو۔
اس موضوع کا اس طرح زیر بحث آنا واضح تھا کیوں کہ گزشتہ کچھ مہینوں کے دوران مقتدرہ کا کردار کافی حد تک واضح ہو چکا ہے۔ تاہم یہ خیال کرنا کہ ملک کے مستقبل کا دارومدار صرف اسی پر ہے‘ ناقابلِ قبول ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں جمہوریت کس قدرکمزور ہے‘ ادارے کس قدر نیم جان ہیں اور میرٹ پر ذاتی پسند ناپسند اس قدر غالب آچکی ہے کہ نظام کہیں موجود ہی نہیں۔ جس زور و شور سے اس تقرری کو زیر بحث لایا جارہا تھا‘ اس کی وجہ مارچ کے بعد پیش آنے والے بیشتر سیاسی واقعات بھی ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ عجیب دکھائی دے کہ معاشرے میں صرف ایک ہی موضوع زیر بحث ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ اس لاتعلقی کے علاقے سے رخصتِ سفر کا اعلان بھی ہے کہ ہاں یہ ایسا ہی ہے‘ مگر اس پر بات نہیں کی جا سکتی۔ اس واقعہ سے یہ بھی واضح ہوا ہے کہ قوانین‘ آئین‘ نظام اور اخلاقیات کی کتابی سند تو موجود ہے لیکن عملی سطح پر ان کا اظہار نہیں ہوتا۔ یہ کھلا اور واضح انکشاف ممکن ہے کہ بہت حیران کن نہ ہو لیکن پریشان کن ضرور ہے۔ لیکن مندرجہ ذیل امور میں حالات کو سدھارنے کے لیے اسی پریشانی کو مزید اجاگر کرنے کی ضرورت ہے؛
1۔ شریف بھائی اور بیٹے: ملک کو ایک فیملی لمیٹڈکمپنی کی طرح چلایا جا رہا ہے۔ وزیراعظم کے پاس 75وزرا پر مشتمل بھاری بھرکم کابینہ ہے۔ مشیروں کا گروپ اس کے علاوہ ہے۔ لیکن وزیراعظم مشیروں کی رائے لے کر فیصلے نہیں کرتے۔ اس کے بجائے وہ اپنے بڑے بھائی سے منظوری لینے کے لیے لندن کی راہ لیتے ہیں۔ اور تو اور‘ وزیراعظم اپنی بھتیجی کی مرضی کے خلاف بھی قدم نہیں اٹھا سکتے۔ وہ ایک کانفرنس کے لیے مصر گئے تھے جو صرف ایک دن کے لیے تھی لیکن بعد میں وہ دوبارہ لندن چلے گئے اور وہاں پانچ دن تک رہے تاکہ نئی تقرری کے لیے بات چیت اور منظوری حاصل کی جا سکے۔ ان خاندانی ملاقاتوں میں بیٹے اور بھتیجے بھی موجود تھے۔ یہ صرف ابھی کی بات نہیں بلکہ کابینہ کی تشکیل کے وقت سے ہی ایسا ہے۔ اقتصادی پالیسی کے فیصلے لندن میں لیے گئے جہاں اس وقت کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی تجویز کردہ پالیسیوں کو وزیراعظم کے رشتے دار‘ اسحاق ڈار کی منظوری دینا مقصود تھی۔ یہ فیملی انٹرپرائز سسٹم اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز ہے کیونکہ یہ حکومت 13 جماعتوں کا اتحاد ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ باقی تمام پارٹیاں صرف پارٹی کر رہی ہیں۔ انہیں عہدے‘ وزارتیں‘ مراعات دی جاتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ وہ ہر اس چیز سے اتفاق کریں جو برطانیہ میں موجود ایک شخص کہہ رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ برطانیہ میں خاندان کے افراد اور خاص طور پر وہ لوگ جو ان انتہائی خفیہ میٹنگز میں بیٹھ کر پاکستان میں اعلیٰ ترین پوسٹنگ کے بارے میں بات کر رہے تھے‘ وہ تمام مفرور ہیں اورقانون کو مطلوب ہیں۔ ڈھٹائی کی انتہا ہے کہ اس حرکت کو غیر قانونی اور غیر اخلاقی سمجھا ہی نہیں جا رہا۔
2۔ نیا گیم پلان: اسے طول دیا جائے یا نہ دیا جائے۔ یہ آنے والے ہفتوں کے لیے مختصر مدت کا گیم پلان ہے۔ یہ معمہ کیوں ہے؟ یہ ملین ڈالر کا سوال کیوں بن چکا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ باقی سب کچھ جیسا کہ معیشت کا ڈوب جانا‘ صنعتوں کا ٹھپ ہونا‘ گورننس کا انحطاط‘ امن و امان کا کنٹرول سے باہر ہو جانا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ یہ واحد مقصد بذات خود اس گیم آف تھرونز میں یک طرفہ طاقت کے توازن کا ثبوت ہے۔ انجینئرنگ کے ذریعے حکومت کی تبدیلی کا خاموش راز اس وقت کھلا جب طاقتوروں نے الیکشن کرانے کے بجائے پارلیمنٹ کا ہی کنٹرول سنبھال لیا۔ قومی اسمبلی کے اراکین کی کھلم کھلا تجارت ہوئی۔ طاقتوروں کی جانب سے شراکت داروں کی واضح تبدیلی نے کردار کو واضح کر دیا۔ اس راز کے کھلنے سے بہت سے پردے اٹھنے لگے۔ پہلی بار نام لیے گئے۔ پہلی بار ایک سینیٹر سامنے آیا اور حراست میں ہونے والے تشدد اور خاندان کو ہراساں کرنے کی ہر نجی تفصیلات کو منظر عام پر لایا۔پہلی بار ہوا ہے کہ طاقتور واقعی نہیں جانتے کہ اس صورتحال سے کیسے نمٹا جائے۔ اُنہوں نے تو اب تک ہر کام طاقت سے نکالنا سیکھا تھا۔ تاہم اب یہ صورتحال بہت کچھ کرنے پر مجبور کررہی ہے۔ اب یہ بیانات بہت سے رازوں کو بے نقاب کررہے ہیںجو پہلے کبھی منظر عام پر نہیں آئے تھے۔ بہت سے گندے کپڑے اب برسربازار دھونے کی نوبت آگئی ہے۔
3۔ حکمرانی قانون کی یا حکمران کی: کبھی بھی قانون کی حکمرانی کا بھرم اتنا چاک نہیں ہوا تھا۔ کبھی بھی بالائی طبقے نے اس طرح بیک جنبش قلم قانون کو اپنی مرضی سے تبدیل نہیں کیا تھا۔ قانون سازوں کے ہاتھ میں قلم ایک ہتھیار کی طرح استعمال ہوا۔ نیب قوانین میں ترامیم کی گئیں‘ انتخابی قوانین بدلے گئے اور اب آرمی ایکٹ میں بھی تبدیلی کا منصوبہ بن رہا ہے۔ ان سب کا مقصد طاقتور شخصیات کو قانون سے بالا تر رکھنا ہے۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ1923ء روکتا ہے کہ پاکستان کے معاملات ان افرادکے علم میں نہ لائے جائیں جنہوں نے اس کے آئینی اور قانونی تقدس کو پامال کیا ہو۔ نواز شریف‘ حسین نواز اور سلمان شہباز مفرور ہیں اور مختلف جرائم میں ریاست پاکستان کومطلوب ہیں۔ اُن کے ساتھ ریاست کی پالیسیوں پر مسلسل مشاورت کرنا آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 ء کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان کے حساس امور میں ان کی منظوری لینا جنہیں ریاست پاکستان نے مفرور قرار دے رکھا ہے‘ تعزیراتِ پاکستان 186کی دفعات 172 اور 216 کی بھی خلاف ورزی ہے جو مطلوب ملزمان کو گرفت میں لاکر قانون کے سامنے پیش کرنے کے بجائے ان کی معاونت کرنے والوں کا احتساب کرتی ہیں۔
وزیراعظم کے حلف میں یہ الفاظ شامل ہوتے ہیں کہ ''میں اپنے ذاتی مفادات کو اپنے سرکاری فیصلوں یا سرکاری طرزِ عمل پر اثر انداز ہونے کی اجازت نہیں دوں گا‘‘۔ یہ بات حلفاً کہی جاتی ہے لیکن بدقسمتی سے بہت سے افراد انہیں محض الفاظ ہی سمجھتے ہیں۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ عہدے کے احتیار اور طاقت ور افراد کے ساتھ روابط کے مقابلے میں حلف کی حرمت کی کوئی وقعت نہیں۔ ہماری جمہوریت برطانوی نظام کی بنیاد پر قائم ہے۔ برطانوی جمہوریت کے پاس آئین نہیں بلکہ وہ اخلاقی اقدار اور روایات کی بنیاد پر کام کرتی ہے۔ تین برطانوی وزرائے اعظم کو گھر جانا پڑا۔ اس لیے نہیں کہ اُنہوں نے قانون یا آئین کی خلاف ورزی کی تھی بلکہ اس لیے کہ و ہ ان روایات کی پامالی کے مرتکب ہوئے تھے جو برطانوی پارلیمنٹ کا تحفظ کرتی ہیں۔ پاکستان میں اخلاقی اقدار کی بات کرنا اپنا تمسخر اُڑانے کے مترادف ہے۔ یہاں تو مرضی سے قانون اور آئین کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اربابِ اقتدار اس سے انحراف کرتے ہوئے اپنے ملک اور عہدوں کے رازوں کی دھجیاں اُڑا سکتے ہیں۔ قومی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دی جا سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں