واپسی کا چکر

جذباتی مناظر ہیں۔ لائیو دکھایا جارہا ہے کہ شفقتِ پدری سے مغلوب ایک والد کی نظریں دروازے پر لگی ہیں۔ پھولوں کے ہار لیے سٹاف بھی تیار ہے۔ ایک بے چین‘ بے قرار بیٹا منظر پر نمودار ہوتا ہے۔ ہیرو کا استقبال ضروری ہے۔ ٹھہریں‘ یہ مناظر کسی قومی ہیرو کے استقبال کے نہیں جس نے وطن کے لیے سرفروشی کی تاریخ رقم کی تھی بلکہ یہ اس شہری کی واپسی کا جشن ہے جو چار سال پہلے اُس وقت ملک چھوڑ کر چلا گیا تھا جب معزز عدلیہ نے اس سے استفسار کیا تھا کہ چند ہزار روپے تنخواہ لینے والے ملازمین کے اکائونٹس میں برطانیہ اور پاکستان کے درمیان اربوں روپوں کی ترسیلات کس طرح ہوئیں؟ مقدمات کا سامنے کرنے اور ثبوت فراہم کرنے کے بجائے وہ ملک سے فرار ہوگیا۔ یہ کسی ایک فرد کی کہانی نہیں‘ یہ اس ملک کی اشرافیہ کی داستان ہے‘ چاہے اس کا تعلق سیاست سے ہو یا افسرشاہی سے‘ یا پھر وہ کاروباری طبقہ ہی کیوں نہ ہو۔ یہ ملک میں اس وقت دکھائی دیتے ہیں جب حالات اُن کے موافق ہوں۔ جیسے ہی ان کا کوئی جرم سامنے آتا ہے‘ وہ جھٹ سے غچہ دے کر بیرونِ ملک پہنچ جاتے ہیں۔ اس کے بعد جب ایک بار پھر انہیں اقتدار ملتا ہے یا صاحبِ جبر و قدر کی حمایت حاصل ہوتی ہے تو وہ پھر سرزمینِ وطن کو رونق بخشنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
پاکستان کے تین مرتبہ کے وزیراعظم‘ میاں نواز شریف محض چند ہفتوں کا کہہ کے برطانیہ گئے تھے‘ اس وقت تین سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے‘ لیکن واپسی نہیں ہوئی۔ شنید ہے کہ اب وہ وطن واپسی کے لیے مقدمات ختم کرانے کی تیاری کررہے ہیں۔ پاکستان کے موجودہ وزیراعظم بھی ایک سال پہلے بیرونِ ملک جانے کی کوشش میں تھے لیکن ناکام رہے کیونکہ اُن کا نام ای سی ایل میں شامل تھا۔ پاکستان کے موجودہ وزیر خزانہ ڈرامائی انداز میں ملک سے باہر گئے تھے۔ وہ یہاں سے تاجکستان میں کسی کانفرنس میں شرکت کے لیے گئے لیکن پھر جیسے وطن کا راستہ ہی بھول گئے۔ یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ وہ کسی کمرشل پرواز کے ذریعے نہیں بلکہ ملک کے اس وقت کے وزیراعظم کے خصوصی طیارے میں سولہویں وسطی ایشیائی علاقائی اقتصادی تعاون تنظیم کی وزارتی کانفرنس میں شرکت کا کہہ کر گئے تھے۔ حالانکہ وہ اس سے پہلے اس بات پر افسوس کا اظہار کر چکے تھے کہ عدالت میں پیشیوں کی وجہ سے اس کانفرنس میں شرکت نہیں کر پائیں گے۔ اس کے بعد رپورٹ آئی کہ وہ برطرف شدہ وزیراعظم سے ملنے سعودی عرب گئے ہیں۔ جس کے بعد موصوف کی اگلی منزل لندن ٹھہری جہاں وہ نومبر 2017ء کے بعد سے مسلسل طبی علاج معالجہ کراتے رہے۔ رواں سال ستمبر میں تقریباً پانچ سال بعد محترم نہ صرف واپس آئے اور اُن کے تمام مقدمات ختم ہوگئے بلکہ آتے ہی انہیں وزارتِ خزانہ کا قلم دان بھی مل گیا۔ اس واپسی نے یہ تصور اُبھارا ہے کہ:
1۔ جرم سند قرار پاتا ہے: تصور کریں کہ ایک ملک کے اعلیٰ عہدے بار بار ایسے لوگوں کے پاس جا رہے ہیں جنہیں بدعنوانی کے الزام میں ہٹایا گیا۔ ایک سی وی کا تصور کریں جس میں کہا گیا ہو کہ کسی بھی اعلیٰ عہدے کے لیے قابلیت میں تعلیم اور مہارت کا معیار درکار نہیں‘ بلکہ نظام کو دھوکہ دینے‘ ووٹ خریدنے‘ مرضی کے مطابق قوانین کو تبدیل کرنے اور بین الاقوامی روابط رکھنے کے تجربے کی ضرورت ہے تاکہ قانون کو چکما دے کر فرار ہوا جا سکے جبکہ آپ کے اکاؤنٹس میں اربوں روپے بغیر کسی منی ٹریل کے پڑے ہوں۔ یہ حقیقت کہ ہے اسحاق ڈار اُس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی مدد اور معاونت کے ساتھ ملک سے باہر گئے اور پھر جس طرح ان کی واپسی ہوئی اور وہ وزیر خزانہ بننے میں کامیاب ہو گئے‘ یہ صورت حال اقتدار کے متمنی افراد کے لیے ایک سند کا معیار طے کرتی ہے۔ سی وی کے ضمیمہ میں اسحاق ڈار اس طرح کے بہت سے شواہد منسلک کر سکتے ہیں کہ وہ کس طرح برسوں غیر حاضری کے باوجود سینیٹر رہے اور مقدمات کے باوجود کامیابی کا سہرا سر پر باندھ کر لوٹے۔
2۔ باہمی مفاد کے لیے تعاون: باہمی تعاون سے جرم کا کلب قائم ہے۔ اس کلب کا مقصد ایسے ممبروں کو رکنیت دینا ہے جنہوں نے اپنے مقدمات اور اثاثوں کے لیے احتساب کے ''جبر‘‘ کے خلاف قانونی اور سیاسی جنگ لڑی ہو۔ اپوزیشن کی تمام 13جماعتوں کے درمیان مشترکہ تعامل کی ترجیحات واضح تھیں۔ سب سے پہلے انہوں نے نیب قوانین اور انتخابی قوانین میں ترامیم کیں۔ نئی ترامیم کے تحت قومی احتساب آرڈیننس 1999ء کے مطابق بدعنوانی کے جرم کی مالیت 500ملین روپے ہوگی۔ اس سے یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف اور شریف خاندان کے خلاف 50کے قریب مقدمات کو ریلیف ملا۔ یہ تقریباً 1100ملین روپے کا رائٹ آف تھا۔ مریم نواز کے خلاف زیر سماعت مقدمات درکار قانونی بنیاد نہ ہونے کی وجہ سے پہلے ہی خارج ہو چکے ہیں۔ قوانین کے مطابق نیب کو اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کرنا ہوتی ہے۔ تاہم اپوزیشن جماعتوں کی ملی بھگت کی وجہ سے یہ اپیل نہ کی جا سکی۔ قانون سازوں اور قانون نافذ کرنے والوں کی یہ ملی بھگت مفروروں کی محفوظ واپسی کو یقینی بناتی ہے۔
3۔ مظلومیت کا بیانیہ تشکیل دیں: قوانین میں تبدیلی کرنے اور جرائم پر لکیر پھیرنے کے لیے سیاسی انتقام کا بیانیہ پھیلایا گیا۔ وہ ہر فورم پر اپنے بیانیہ سازی کے وسائل استعمال کرکے اپنی مظلومیت کی تصویر پیش کررہے ہیں۔ پی ڈی ایم کے سٹریٹجک کمیونیکیشن ایڈوائزر قومی ذرائع ابلاغ سے منسلک رہ چکے ہیں اور اس کی باریکیوں سے خوب واقف ہیں۔ ڈوبتی ہوئی معیشت سے ذرائع ابلاغ کی بے اعتنائی اس حقیقت کا ایک اور ثبوت ہے کہ اگر تمام نہیں تو بھی بہت سے اس یک طرفہ بیانیے کا حصہ ہیں۔ سوشل میڈیا مگر اپنے پھیلاؤ کی وجہ سے ان کے قابو سے باہر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مفرور لابی اب ایسا ماحول بنانے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ انتخابات کے انعقاد کو اسمبلی کی مدت سے بھی آگے بڑھا دے۔ وہ صرف اس وقت پاکستان واپس آئے ہیں جب انہیں کسی گرفتاری‘ مقدمات کی برطرفی اور حکومت میں واپسی کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ بیوروکریسی میں انکی جڑیں تین دہائیوں سے گہری ہیں۔ گویاکرائم لانڈرنگ کلب کے بہت سے سرپرست اور معاون اب بھی موجود ہیں۔
4۔ این آر او ٹو ڈیل میں نہ صرف کیسز پر کلین چٹ شامل ہے بلکہ ایسے منجمد کردہ اثاثوں کی بحالی بھی شامل ہے جن کی کوئی منی ٹریل نہیں تھی۔ اسحاق ڈار کیس میں نیب 2008ء سے 2017ء تک ان کے اثاثوں میں 91فیصد اضافے کا جائزہ لے رہا تھا۔ نیب کا دعویٰ ہے کہ اسحاق ڈار کے پاکستان بھر میں مختلف بینکوں میں چھ اکاؤنٹس ہیں۔ ان کے پاکستان میں 13اثاثے ہیں اور وہ بیرونِ ملک مالیاتی کمپنیوں سمیت سات جائیدادوں کے مالک بھی ہیں۔ اسحاق ڈار اور ان کے اہلِ خانہ کے پاس مہنگی گاڑیاں بھی تھیں۔ اب یہ تمام اثاثے انہیں واپس مل جائیں گے۔ سلیمان شہباز 16ارب روپے کی منی لانڈرنگ کیس میں ملوث تھے۔ ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ شریف گروپ کے گیارہ کم تنخواہ والے ملازمین اصل ملزم کی جانب سے منی لانڈرنگ میں سہولت کاری کے مجرم پائے گئے تھے۔ ان تمام معاملات پر اب مٹی ڈالی جا رہی ہے۔
مفروروںکی زندگیاں نو سے بھی زیادہ ہوتی ہیں۔ وہ آتے ہیں‘ لوٹتے ہیں‘ حکومت کرتے ہیں‘ فرار ہوتے ہیں اور پھر ملی بھگت سے واپس لوٹ آتے ہیں۔ یہ کثیر جہتی زندگی صرف اس لیے ممکن ہے کہ اس لوٹ ویلیو چین میں سیاست دان‘ افسر شاہی‘ رئیل اسٹیٹ اور نظامِ انصاف سمیت سب سٹیک ہولڈرز ہیں۔ 13جماعتوں اور ان کے سرپرستوں نے اقتدار میں آنے اور جرائم کی لانڈرنگ کرنے کے لیے یہ سازگار ماحول پیدا کرنے کے لیے ملی بھگت کی لیکن اس کھلم کھلے اتحاد نے عوام میں ایسا ردِ عمل پیدا کیا ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ سماج میں اس تقسیم کی لکیر واضح بھی ہے اور گہری بھی۔ ممکن ہے کہ تحریک انصاف کو جکڑنا آسان ہو لیکن مشتعل جذباتی عوام کے لیے ابھی تک کوئی زنجیر ایجاد ہی نہیں ہوئی۔ یہ عشروں پرانا لوٹ مار‘ فرار اور واپسی کا چکر ضرور ختم ہونے جارہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں