کئی سال پہلے کی بات ہے کہ جب ہمارے ایک نہایت قابل سفارتکار کی تقرری خارجہ سیکرٹری کے طور پر کی گئی تھی توہم ان کا انٹرویو لینے اسلام آباد میں واقع ان کے خارجہ دفتر گئے ۔ وہ سگریٹ نوشی کے عادی تھے، خوش گفتار بھی تھے اورانگریزی میں شستہ لہجہ رکھتے تھے۔اس ملاقات میں انہوں نے خارجہ امور کے بارے میں اپنے منصوبوں کے متعلق ہمیں کافی تفصیل سے بتایا اور انٹرویو کے خاتمے پر انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ انہیں افسوس صرف اس بات کا ہے کہ ان کے پاس سوچنے کے لئے وقت نہیں۔پھر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا تو ان کے مزاج پر مخصوص قسم کا چڑ چڑا پن حاوی ہونے لگا۔کسی بھی خصوصی بریفنگ کے دوران اگر ان سے کوئی ایسا سوال کر لیا جاتا جن کا جواب دینا انہیں منظور نہ ہوتا تو وہ تلخ اور برانگیختہ ہو جاتے۔ ان کے مزاج کی تبدیلی کی وجہ شاید وہ بے بسی تھی جو اس احساس کا نتیجہ تھی کہ اپنے اہداف کے حصول کے لئے جو منصوبہ بندی انہوں نے کی تھی وہ ان کے سگریٹ کے دھوئیں کی مانند ہوا ہو رہی تھی۔مارک نیپو نے اپنی کتاب Thousand Ways to Listen Seven اگر اپنی اصل اشاعت سے بیس برس قبل چھاپی ہوتی اور اگر مذکور ہ سیکرٹری خارجہ صاحب نے اسے پڑھا بھی ہوتا تو ممکن ہے کہ وہ کام کے دباؤ کا یوں شکار ہونے سے بچ جاتے۔ ان کے کیرئیر کا اختتام ان بابوؤں کی مانند ہوا جو اپنی ذاتی اہمیت کے بودے حصار میں قید ہوتے ہیں۔ مارک نیپو پچیس برس قبل سرطان کی ایک عجیب قسم کا شکار ہوئے تھے لیکن اس سے بچ نکلنے میں وہ کامیاب رہے۔موت کے شکنجے سے یوں بچ نکلنے کے بعد اب وہ ہمارے اس عہد کے قابل ترین روحانی رہبروں میں شمار ہوتے ہیں۔ داستان گوئی میں انہیں ملکہ حاصل ہے۔سماعت کی استعداد کے بارے میں ان کی یہ کتاب زندگی کے ساتھ ان کے براہِ راست تجربات کی کہانی ہے۔اس کتاب میں انہوں نے کیلی فورنیا کے ایک فوٹو گرافر کا بھی ذکر کیا ہے جس نے انہیں بتایا تھا کہ گزرے برس میں لی گئی دو سانسیں ایسی تھیں جنہوں نے اس کی زندگی بد ل ڈالی، ایک اس کی نوزائیدہ بچی کی پہلی سانس اور دوسری وہ آخری سانس جو اس کی ماںنے اس دنیا میں لی۔’’ جب اس کی بچی نے اس دنیا میں اپنی پہلی سانس لی تو ایسا لگا کہ اس سے اس زمین پر اس کی روح جاگ اٹھی ہے، اور جب اس کی ماں نے اپنی آخری سانس لی تو یوں محسوس ہوا کہ اس کی روح اس دنیا سے آزاد ہو رہی ہے۔‘‘اس فوٹو گرافر کی اس گفتگو سے سبق لیتے ہوئے مارک نیپو لکھتے ہیں کہ ہم بھی اسی طرح ہر سانس لیتے ہوئے اس دنیا کو اپنے اندر سموسکتے ہیں جو ہماری روح کو جگاتی ہے اور بیک وقت اس دنیا سے خود کو آزاد بھی کر سکتے ہیں جس نے ہمیں الجھایا ہوا ہے۔ مارک نیپو نے اس کتاب میں بتایا ہے کہ کس طرح اپنی سماعت کے متاثر ہو جانے کے بعد انہوں نے زندگی کو توجہ کے ساتھ سننا اور اس کی باتوں کو سمجھنا سیکھا۔وہ کہتے ہیں کہ دنیا میںبے شمار فرشتے ہیں جو ہزاروں الگ الگ روپوں میں ہمارے سامنے آتے ہیں اور ہمیں اپنے اپنے گیتوں سے لبھانے کی سعی کرتے ہیں۔نیپو کا کہنا ہے کہ کوئی راستہ صحیح یا غلط نہیں ہوتا،صرف ہمارا دل ہی فیصلہ کر سکتا ہے کہ وہ کون سے کام ہیں جو کرنے کے لئے ہم اس دنیا میں آئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس بارے میں ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ ہر غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہمیںکھلے دل سے کرنا چاہیے اور اسی کے ذریعے ایک درست کل کی سمت میں ہماری رہنمائی ہو سکے گی۔ یہ کتاب نیویارک ٹائمزکی بیسٹ سیلرز کی فہرست میں اول نمبر پر رہی ہے۔لوگ سیکھنا چاہتے ہیں کہ کیسے جیا جائے۔اپنی کتاب میں انہوں نے چیری کے درخت کو بھی ایک استعارے کے طور پراستعمال کیا ہے۔ وہ نیویارک میں رہے ہیں جہاں ان کی گلی میں چیری کا ایک درخت ہر سال مئی کے مہینے کے اوائل میںمحض چند دن کے لئے نکھر اٹھتا تھا۔اس درخت پہ چونکہ بہار سب سے پہلے آتی تھی اس لئے ٹہنیوں سے پھول پھوٹنے کا معجزہ بہت عیاں ہو تا تھا۔اس درخت پر قدرتی حسن کا یکدم آنا اور یکدم ہی رخصت ہو جاناایک سبق رکھتا ہے اور وہ یہ ہے کہ فراوانی ہو یا بے مائیگی، کچھ بھی ہمیشہ کے لئے نہیں ہوتا بلکہ یہ سارا سلسلہ ایک تسلسل کے ساتھ جاری رہتا ہے۔یہی زندگی کا چکر ہے۔تمام انسان اور ہر شے جو زندگی رکھتی ہے آپس میں مربوط ہیں۔قدرت بذاتِ خود علم کا منبع ہے۔مختلف موسم، درخت، پھل، پھول یہ سب جو ہمارے اردگرد ہیں، در اصل ہمارے استاد ہیں۔یہ زندگی کے اسرار کھولتے ہیں لیکن صرف ان لوگوں پر جو ان اسرار کو جاننے کی سعی میں مگن ہوتے ہیں۔ کیا آپ نیپو کی باتوںمیں پوشیدہ معنی سمجھ رہے ہیں؟وہ خود ایک نہایت عجیب انسان ہیں اور یہ وہ خود بھی مانتے ہیں۔ کالج میں جب ان سے پوچھا گیا تھا کہ وہ کس مضمون میں میجر کرنا چاہیں گے تو ان کا جواب تھا کہ ’’زندگی کے مضمون میں‘‘!! ان کے ارد گرد کے لوگوں نے تب انہیں ایک ایسا انسان سمجھا تھا جس کے سامنے کوئی سمت واضح نہیں ہوتی، لیکن وہ کہتے ہیں کہ معاشرتی نقشے پر اپنی ذات کے تعین کا اہل نہ ہوناانہیں اس قابل بنا گیا کہ وہ ہر زندہ چیز کے ساتھ اپنے ایک گہرے تعلق کو دریافت کر سکتے ہیں، اور یہی وہ تعلق ہے جس نے ساری زندگی ان کی نشو ونما کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسا منصوبہ بنانا یا ایسا راستہ طے کرنا جس پر ہمارا کوئی اختیار ہی نہیں، ایک لاحاصل سعی ہے۔ایک واحد سمت پر مرکوز ذہن کے ساتھ اپنے ایجنڈے پر چلنا بے کار ہے۔زندگی ایک پتے پر پھیلی رگوں اور دل کے خانوں کی طرح ہوتی ہے۔ہم انسان اسی لئے ہیں کہ ہمارے سامنے وہ واقعات اور حالات آتے ہیں جن کی منصوبہ بندی ہم نے نہیں کی ہوتی۔بہ الفاظ دیگر اگر ہم اپنے لئے ایک راستے کا تعین کر کے اسی پر چلنا شروع کر دیں کیونکہ ہمارے خیال میں وہی ہماری کامیابی کا ضامن ہے تو یہ امر ہم سے ہماری انسانی خصلت چھین سکتا ہے۔ہم لوگ اپنے ارد گرد ایسے کئی لوگوں کو جانتے ہیں جو کسی روبوٹ کی مانند اپنی زندگی میکانکی انداز میں گزارتے ہیںلیکن ایسے لوگوں کی بے مزا صحبت کسے پسند ہوتی ہے؟ نیپو اپنی زندگی کی ساٹھویں دہائی میں داخل ہو چکے ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ اب بھی جب وہ معائنے کے لئے اپنے ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں تو انہیں خدشہ ہوتا ہے کہ کہیں ان کا سرطان لوٹ نہ آیا ہو۔ان کی سماعت متاثر ہو چکی ہے اوران کا نظامِ انہضام بھی معدے کے فلو کی بدولت مستقلاًخراب ہو چکا ہے لیکن اس کے باوجود بھی وہ ایک نارمل زندگی گزارنے کے لئے پُر عزم ہیں۔ان کی کتاب میں کئی دانشمندوں کے اقوال بھی درج ہیں۔ ہر باب میں فلسفہ، تاریخ، ادب، فن اور موسیقی کے ان ماہرین کے اقوال موجود ہیںجنہوں نے دنیا کو ایک ساخت دینے اور اسے رہنے کے لئے ایک بہتر جگہ بنانے میں کردار ادا کیا ہے۔غالب کے اس مصرع کا ذکر بھی انہوں نے کیا ہے کہ ’’عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ جب ہم اس زمین پر اپنے مقصد کو تلاش کرتے ہیں تو ہم ایک واحد روح کے زندگی کے اس وسیع سمندر کے ساتھ تعلق کے بارے میں گفت و شنید کا در وازہ کھول دیتے ہیں۔ اس کتاب کے آخری باب میںوان گو کے یہ یادگار الفاظ درج ہیں کہ’’میں آپ کو بتاؤں، جتنا بھی میں سوچوں تو محسوس مجھے یہی ہوتا ہے کہ درحقیقت لوگوں سے پیار کرنے سے زیادہ عظیم الشان فن اور کوئی بھی نہیں ہے۔‘‘ نجانے ہمارے یہ سیاستدان جو لڑائی جھگڑوں کے دلدادہ ہیں انہوں نے کبھی وان گو کا نام بھی سنا ہو گا یا نہیں۔ہر رات ٹیلی ویژن پر آکر اپنے مخالفین کے بارے میں مغلظات سنانے سے اچھا ہو گا کہ یہ لوگ اپنی ٹی وی مصروفیات سے وقفہ لے کر مہذب گفتگو کا فن سیکھ لیں۔ تہذیب کے ساتھ ان میں ہو سکتا ہے جمالیات کا ذوق پیدا ہو جائے اور کون جانے پھر شاید پیار محبت کی جگہ بھی نکل آئے!!