ممکنات کا فن

جے کے رولنگ اپنے شاہکار کردار ہیری پوٹر، جوایک جادوگر لڑکاہے، کی وجہ سے عالمی شہرت رکھتی ہیں۔ شاید وہ ارب پتی افراد کے قابل ِ رشک گروہ میں شامل ہونے والی پہلی ادیبہ ہیں۔ شروع میں وہ الائونس پر گزارہ کرتے ہوئے اچھے برے حالات، جیسا کہ اُ ن کی کہانی کے کردار کرتے ہیں، کا سامنا کرتی رہیں ۔ پھر اُن کی دھماکہ خیز تصانیف ، جن میں زبردست ایکشن ہوتا تھا، منظر ِ عام پر آنا شروع ہوئیں اور وہ یکے بعد دیگرے بہت سے میدان فتح کرتی گئیں یہاں تک کہ ،جب ہیری پوٹر نے برائی کی قوتوں کو شکست دے لی، تو ناول نمبر سات پر اُنھوںنے اس سیریز کا اختتام کر دیا۔ اگرچہ اُن کی صنف ِ ادب فکشن ہے لیکن اُن کے ہیرو کی جدوجہد نے تمام دنیامیں ہر عمر کے افراد کو سحر زدہ کر دیا۔ فن کی بہت سی اقسام ہیں اور پاکستان کو بھی اپنے بہت سے لکھاریوں پر ناز ہے۔ ایسے مصنف جو دنیا سے تو چلے گئے لیکن جریدہ ٔ عالم پر اُن کا نام ثبت ہوگیا، تاہم بہت کم ایسے ہیں جو اپنے پیچھے کوئی نئی سوچ یا کوئی سوال چھوڑ گئے ہوں، کسی مسئلے کا حل پیش کیا ہو یا ماضی ، حال اور مستقبل میں اس معاشرے کو درپیش سنگین قسم کے مسائل پر کوئی روشنی ڈال سکے ہوں۔ یہ درست ہے کہ تمام اہم معاملات پر علمی تحقیق ہوتی رہتی ہے لیکن ہمارے ہاںایسا قحط الرجال ہے کہ نہ کوئی زبردست تھیوری لے کر کوئی سامنے آتا ہے اور نہ ہی کوئی کسی تھیوری کو عملی شکل میں ڈھال سکتا ہے۔ ہمارے ہاں بہت سے پی ایچ ڈی سکالرز اور پروفیسرز ہیںلیکن اُن میں شاید ہی کسی کی کوئی تصنیف ہمیں متاثر کرتی ہو یا جادۂ زیست پر کوئی نقش ثبت کرنے میں کامیاب رہتی ہو۔ اس میںکوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان ذہنی ترقی کی شاہراہ سے بہت دور نکل آیا ہے ۔ ہم نے بہت سے مواقع گنوا دیے ہیں، تاہم ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا، اگر ہم میسر آنے والے مواقع سے فائدہ اٹھائیں تو پاکستانیوںکی توانائیوں، جو بھارت کے ساتھ کرکٹ میچ یا کسی ’’مسٹر کلین ‘‘ کے متوقع نزول پر پورے جوبن پر ہوتی ہیں، کو ایک مرکز پر یکسو کیا جاسکتا ہے۔ کیا قسمت ہمارے سامنے ایک ایسا ہی موقع لا رہی ہے؟ ایک نئی حکومت، نیا وزیر ِ اعظم اور ایک نیا پاکستان؟اگر ایسا ہی ہے تو پھر کیا ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی کے لیے نئے قوانین نہیں ہونے چاہئیں؟ کیا ابھی بھی وقت نہیں آیا جب ہم ایک معاشرے کے مختلف دھڑوں کے درمیان سماجی ہم آہنگی پیدا کریں ؟انتخابات سے پہلے زیادہ تر پاکستانیوں کا خیال تھا کہ عمران خان تبدیلی کی علامت ہیں۔ وہ کوئی جادوئی منتر پڑھیںگے اور چشم زدن میں تمام معاملات درست ہو جائیںگے ۔ تاہم آج کی دنیا میں تبدیلی کے لیے بہت بڑے رہنمائوںکی ضرورت نہیںہے۔ شہریوں کی اجتماعیت اور فعالیت تبدیلی کا راستہ ہموار کر سکتی ہے۔ بار ہا عوام نے کسی رہنما کے بغیر بھی مقاصد حاصل کیے ہیں۔ اس کی ایک مثال حالیہ دنوں میں دیکھنے میں آئی جب لند ن میں ہزاروں افراد نے اکٹھے ہوکر لندن میٹرو پولیٹن پولیس کوایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے یکے بعد دیگر ے بہت سے بیانات پر اپنی شکایت رجسٹرڈ کرائی۔ ماضی میں ایسی کوئی کاوش ہلکا سا ارتعاش بھی پیدا نہیں کر سکتی تھی لیکن آج ، اگرچہ بھونچال نہیں آیا، موسم بدل چکا ہے۔ تبدیلی، حقیقی اور جاندار تبدیلی، اُس وقت ہی آسکتی ہے جب 180 ملین افراد یہ محسوس کرنے لگیں کہ یہ ملک اُن کا ہے اور وہی اس کے نفع نقصان کے ذمے دار ہیں۔ چنانچہ وہ انتظار کیوں کر رہے ہیں کہ ’’شریف، زرداری، خان، مولانا، ملک وغیرہ‘‘ آکر اُن کے لیے زمین کی گود رنگ اور امنگ سے بھر دیں، اُن کی راہوں میں دھنک بچھا دیںیا اُن کی راہوں کے کانٹے چن دیں؟وہ اپنا گلستان خود کیوں نہیںاُگا سکتے ہیں؟کیا اُن کو سٹیو جوبز (Steve Jobs) کی مثال یاد ہے؟ ایپل کمپنی کے بانی سٹیوجوبز نے پرسنل کمپیوٹر، موسیقی، سیل فون، ٹیبلٹ کمپیوٹر، ڈیجیٹل پبلشنگ اور اینی میٹڈ موویز کے شعبے کو نئی جہت دی، کا کل اثاثہ ایک لفظ میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ تخلیقی صلاحیت۔ مقصد کے حصول کے لیے جوبز کی شخصیت اور اُس کی ترجیحات ہم آہنگ تھیں۔ اس مثال سے کوئی بات واضح ہوئی؟اگر پاکستان میں پالیسی اور فیصلہ سازی کرنے والے اس ایک اصول۔۔ ’’تخلیق‘ تصور اور محنت‘‘ کو پلّے باندھ لیں تو ہم بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ انسانی، مالی اور قدرتی وسائل کو بے کار منصوبوں اور ناکام سکیموں کی بھینٹ نہیں چڑھنا چاہیے۔ اس سلسلے میں کسی سے دانائی کا سبق لینے میںکوئی حرج نہیں۔ ضروری ہے کہ خود کو عقلِ کل نہ سمجھا جائے۔ بہت سے چیف ایگزیکٹوز، جن میں گوگل کے لیری پیج بھی شامل تھے، جوبز سے مشورہ لینے آیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ اُنھوںنے لیری پیج سے کہا کہ پہلے وہ طے کر لیں کہ وہ گوگل کو کس منزل تک پہنچانا چاہتے ہیں، پھروہ تمام تر توانائیاں اُس پر مرکوز کر لیں اور باقی تمام باتوں کو چھوڑ دیں کیونکہ وہ محض آپ کی توانائی اور وقت ضائع کریں گی۔ جوبز کی یہ نصیحت، جو اُنھوںنے اپنے کاروباری حریف کو دی، ہمارے لیے بھی مشعل ِ راہ ہے۔ جوبز کی سوانح عمری سے جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ کامیابی کے لیے ضروریات ِ زندگی اور خواہشات کی سادگی بہت ضروری ہے۔ کمپیوٹر اور فون کی دنیا میں انقلابی تبدیلی برپا کرنے والے انسان کا کہنا ہے۔۔۔’’سادگی ہی سب سے بڑا سلیقہ ہے۔تاہم سادگی لانے کے لیے بہت محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے بعد ہی اہم مسائل کے حل سامنے آتے ہیں۔‘‘عزیز پاکستانیو! کیا سادہ زندگی ہماری ترجیحات میںشامل ہے؟ شہریوں کی فعالیت کے ساتھ تخلیقی تصور ایک برف کے گولے کی طرح ہوتا ہے جو اپنی رفتار کو بڑھاتا رہتا ہے۔ اگر ہم چھوٹی چھوٹی باتوں سے آغاز کریں، مثال کے طور پر سڑک پر اچھے برتائو کا مظاہر ہ کریں، تو بہت سے کام سدھرنا شروع ہوجائیںگے۔ کسی بھی معاشرے کو بادی النظر میں جانچنے کے لیے اس کی سڑکوں پر کار، رکشے اور موٹر سائیکل سوار کے رویوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ تاہم ہمارے ملک میں بہت ہی افسوس ناک صورت ِ حال دکھائی دیتی ہے۔ بڑی گاڑیوں والے ایسا رویہ دکھاتے ہیں جیسے یہ سڑک اُن کی ملکیت ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ اُن کو سڑک پر کوئی چھوٹی چیز گوارہ ہی نہیںہے۔ وہ ہر کسی کو روندتے ہوئے چلے جانا چاہتے ہیں۔ کیا یہ رویہ تبدیل نہیںہونا چاہیے؟ اگر آپ ایک بڑی گاڑی چلا رہے ہیں تو حیوانوں جیسا رویہ کیوں اپنائے ہوئے ہیں؟اسی طرح چھوٹی گاڑیاں چلانے والے بھی خود کو مائیکل شماکو سے کم نہیں سمجھتے۔ جہاں تک موٹر سائیکل سواروں کا تعلق ہے تو وہ ٹریفک کے درمیان سے، زگ زیگ بناتے ، خطرناک زاویوں سے بل کھاتے ہوئے یوں جا رہے ہوتے ہیں کہ ۔۔۔’’خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھیے‘‘ہم معمولی باتوںسے انحراف کی پالیسی کیوں اپنائے ہوئے ہیں؟ اصولی طور پر کاروں اور موٹر سائیکلوں کے دونوں طرف بیک ویو آئینے ہونے چاہئیں اور صرف یہ بھی بہت سی قیمتی جانیں بچا سکتے ہیں۔ جس طرح ملک کے بعض حصوں میں ہیلمٹ پہننے کے لیے سخت قانو ن ہے، آئینوں کے لیے کیوں نہیں؟ چنانچہ تصور، تخلیق اور نصب العین ہی حقیقی تبدیلی کے داعی ہیں، باقی سب بے کار باتیں ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں