الطاف بھائی کلفٹن میں

الطاف حسین کے تین تلوار والے خطاب نے جس کو بے پناہ شہرت ملی، گزرے برسوں کے ایک اور دن کی یاد تازہ کر دی۔ یہ 1986ء کا موسمِ گرما تھا جب ملکی معاملات پر ضیاء الحق کا کنٹرول تھا۔ کراچی کی کلفٹن روڈ‘ دو فیصلہ کن لمحات کی گواہ بنی جنہوں نے تاریخ میں تبدیلیوںکے محرکات کے طور پر جگہ پانی تھی۔ انسانی حقوق اور مساوات کے نظریات رکھنے والے دو نو جوان ایک ماہ کے عرصے میں منظر ِ عام پر آئے۔ اُن دونوں کے پیغامات میں ایک قدرِ مشترک پائی جاتی تھی کہ وہ دونوں ضیاء الحق کی آمریت کو چیلنج کررہے تھے۔ اُن میں سے پہلی نوجوان بے نظیر بھٹو تھیں جو لندن میں طویل جلا وطنی کے بعد واپس آئی تھیں۔ یہ مئی تھا اور کراچی کا موسم بہت گرم تھا لیکن ہم جھلسا دینے والی گرمی میں بھی اُن کی آمد کے منتظر تھے۔ شام کے اخبارات نے جن میں ’’سٹار‘‘ بھی شامل تھا، ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی بیٹی پر ایک ضمیمہ شائع کیا جو چند گھنٹوں میں فروخت ہو گیا۔ بے نظیر بھٹو کو اپنے والد کی تعمیر کرائی تین تلوار سے گزر کر اپنے آبائی گھر 70 کلفٹن جانا تھا۔ پولیس اور نیم فوجی دستے پوزیشنیں سنبھال چکے تھے تاکہ اُن کے استقبال کو آنے والا ہجوم بے قابو نہ ہوجائے۔ ہمارا اپارٹمنٹ بھی کلفٹن روڈ پر ہی واقع تھا‘ اسی لیے مجھے محترمہ کو دیکھنے میںکوئی دقت نہیں ہونی چاہیے تھی کیونکہ جب وہ نیچے سڑک سے گزرتیں تو میں باہر بالکونی سے ذرا سا جھک کر اُنہیں دیکھ سکتی تھی، لیکن اُس دن ایسا نہ ہوا۔ اُن کی آمد کے چند منٹ پہلے ہوا میں آنسو گیس کے بادل چھا گئے اور وہ افراد جو اُن کی ایک جھلک دیکھنے آئے تھے وہ منتشر ہو کر آنسو گیس کی شدت والے علاقے سے باہر جا کر اپنے آپ کو سنبھالتے اور پھر بڑی جرأت سے واپس اپنی جگہ پر آ موجود ہوتے۔ گیس گھروں میں بھی داخل ہو رہی تھی اور اس کی شدت بہت زیادہ تھی۔ بہت جلد افواہ پھیل گئی کہ محترمہ نے اپنا راستہ تبدیل کر لیا ہے اور اب وہ کاکڑی گرائونڈ میں عوامی جلسے سے خطاب کریں گی۔ ہم جلدی سے گاڑی میں بیٹھ کر گرائونڈ میں جانے کے لیے لپکے لیکن کرخت آواز والے سکیورٹی اہلکاروں نے راستہ روکا اور واپس دھکیل دیا۔ اُنھوں نے ہمیں ان مناظر کی تصاویر بھی نہ اتارنے دیں۔ ایک ماہ بعد ایک اور نوجوان الطاف حسین کی آمد متوقع تھی اور ہم ایک مرتبہ پھر تین تلوار پر جمع تھے ۔ مہاجر قومی موومنٹ کے بانی پر تمام نظریں مرکوز تھیں۔ اُن کی پرجوش خطابت، لبرل نظریات اور جارحانہ پن بہت متاثر کن تھے۔ اُس وقت دوست اور رشتے دار خاص طور پر خواتین ایک دوسرے کو ایم کیو ایم میں شمولیت کی دعوت دے رہی تھیں۔ اُس وقت ابھی ای میلز اور سوشل میڈیا کا دور شروع نہیں ہوا تھا اس لیے لینڈ لائن فون ہی ابلاغ کا مؤثر ذریعہ تھا۔ میری ایک کزن نے جو ایم کیو ایم کی ممبر بن چکی تھیں مجھے فون کیا: ’’وہ شام سات بجے آرہے ہیں ۔ آپ اور آپ کے اہل خانہ استقبال کرنے کے لیے ضرور آئیں۔اپنے دیگر دوستوں کو بھی بتائیں۔‘‘ الطاف حسین کا استقبال سادگی سے کیا گیا۔ کچھ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں پارٹی کا لٹریچر تقسیم کر رہی تھیں۔ کچھ لوگ پارٹی کے جھنڈے اور مٹھائی بھی بانٹ رہے تھے۔ تمام کام بڑی خوش اسلوبی سے ہورہا تھا۔ کچھ نوجوانوں نے ہماری رہنمائی کی کہ ہم گاڑی کہاں پارک کریں اور کہاں کھڑے ہوں۔ ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ اس استقبالیہ تقریب کا اختتام کب ہوگا۔ میں الطاف بھائی کو قریب سے دیکھنے کی بہت مشتاق تھی۔جب میںنے دوسروں سے کہا: ’’میرا خیال ہے کہ انہوں نے میری طرف دیکھا ہے اور وہ تھوڑے سے مسکرائے بھی تھے‘‘ تو دوسروںنے فوراً میری تردید کی اور کہا کہ الطاف بھائی تو ان کی طرف دیکھ کر خطاب کر رہے تھے۔ اُن کی تقریر کے دوران جوش و جذبہ اور آگے نکلنے کے لیے ایک دوسرے کو دھکے دینا بذات خود ایک تفریح تھی۔ پھر وہاں موسیقی کا بھی اہتمام تھا جبکہ سمندر کی نم آلود ہوا کے جھونکے جوشیلے ہجوم کے جذبات کو ہوا دے رہے تھے۔ الطاف حسین ایک کھلی کار میں کھڑے تھے اور اُن کے ہاتھ میں مائیک تھا۔ وہ جوان، جوشیلے اور پر امید دکھائی دے رہے تھے۔ ہجوم کا والہانہ پن اس بات کی غمازی کر رہا تھاکہ وہ کسی راک سٹارکے پروگرام میں ہیں اور اس میں کوئی مبالغہ بھی نہ تھا کیونکہ الطاف حسین کا خطاب نستعلیق اردو اور جوشیلے لہجے کا حسین امتزاج تھا۔ ان کی آواز بہت جاندار اور اعتماد سے بھرپور تھی۔ اُس شام ہم سب ایم کیو ایم کے سیاسی نظریات کے قائل ہو چکے تھے۔ دوسال بعد قدرت نے پاکستان کے حالات میں مداخلت کی اور جنرل ضیا اور کچھ اور اعلیٰ افسر ایک ہوائی حادثے میںجاں بحق ہو گئے۔ اُس کے بعد انتخابات کا معرکہ سجا تو لگتا تھا کہ کراچی کے جسم میں توانائی کی بجلیاں دوڑ رہی ہیں۔ 1988ء کا نومبر اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ بے نظیر بھٹو کی پی پی پی انتخابی معرکہ اپنے نام کر چکی ہے۔ اس کامیابی پر اسٹیبلشمنٹ خوش نہ تھی اس لیے محترمہ کو بطور وزیر ِ اعظم حلف اٹھانے سے روکنے کی کوشش کی گئی لیکن قوم ان کے ساتھ تھی۔ سبزر یشمی شلوارقمیض میں ملبوس پینتیس سالہ بے نظیر بڑے فاتحانہ انداز میں اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر ِ اعظم بن گئیں۔ جب وہ اسلام آبادمیں پی ایم سیکرٹریٹ میں آئیں تو اُن کے پہلے الفاظ یہ تھے: ’’ہم آزادی، جمہوریت اور انگریز ی زبان کے خوبصورت ترین الفاظ کی عملی تشریح کے لیے اکٹھے ہیں‘‘۔ جب وہ کراچی آئیں تو ان کا پہلا سٹاپ نائن زیرو پر تھا جہاں سے اُنھوںنے الطاف حسین کو مخلوط حکومت میں شرکت کی دعوت دی۔ اُس وقت ایم کیو ایم کراچی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے طور پر ابھر چکی تھی۔ پی پی پی اور ایم کیو ایم کی مخلوط حکومت کا اکتوبر 1990ء میں اُس وقت خاتمہ ہو گیا جب محترمہ کی حکومت کا تختہ الٹا گیا۔ اس کے بعد نواز شریف منظر ِ عام پر آئے۔ اُن کے عہد میں ایم کیو ایم کے ایک ونگ پر تشدد، بھتہ خوری اور کراچی میں ہونے والی بہت سی ہلاکتوں کا الزام لگا۔ ہر روز دل دہلا دینے والی خبریں آنے لگیں کہ کس طرح بوریوں میں بند تشدد زدہ لاشیں مل رہی ہیں اور لاشوں کی ہڈیوں کو ڈرل مشینوںسے چھیدا گیا ہے۔ الطاف حسین نے اس تشدد کی پر زور مذمت کرتے ہوئے ان الزامات کی تردید کی؛ تاہم جب ایم کیو ایم کے خلاف فوجی آپریشن شروع ہواتواکیس دسمبر 1991ء کی ایک رات الطاف حسین خاموشی سے ملک سے باہر چلے گئے۔ قسمت نے محترمہ اور الطاف حسین کے لیے ایک طلسمی کھڑکی کھولی تھی۔ اُس وقت وہ دونوںآمریت کی طاقتوں کے خلاف جدو جہدکی علامت تھے ، اُنہیں عوام کی ایک بڑی اکثریت اپنے لیے مسیحا تصور کرتی تھی اور اُن کے پاس موقع تھا کہ وہ نوجوان قائدین بن کر پاکستان میں انصاف، جمہوریت، تعلیم اور روشن خیالی کی شمع روشن کریں۔ اُن کے پاس ولولہ انگیز دل اور صاحب ِ نظر دماغ تھا اور وہ قوم کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر سکتے تھے لیکن آج ستائیس سال بعد حالت یہ ہے کہ ملک مصائب کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے جبکہ کلفٹن روڈ سے گزرنے والی ایک شخصیت ہمیشہ کے لیے اس جہان ِ فانی سے رخصت ہوچکی ہے اور دوسری شخصیت لندن میںمقیم ہے۔ شاید وہ کبھی پاکستان واپس نہ آئیں۔ کراچی وہ بدقسمت شہر ہے جو کبھی روشنیوں کا شہر تھا، آج ہر قسم کے جرائم کی تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے۔ یہاں مجرموں کے گروہوں کا راج ہے۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد امیدتھی کہ اس شہر میں تشدد میں کمی واقع ہو گی لیکن یہاں وہی چہرے دوبارہ منتخب ہو گئے ہیں حتیٰ کے معمر وزیر ِ اعلیٰ تک نہیں بدلے حالانکہ وہ پانچ سال تک قتل و غارت کے خاموش تماشائی بنے رہے تھے۔ الطاف حسین کی جماعت آج بھی وہیں ہے جہاں اکیس سال پہلے تھی۔ الزامات کی بوچھاڑ اور بچائو کی جنگ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں